سینیٹر مشاہد الله خان کی زیر صدارت ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس‘ عوامی اہمیت کے معاملات زیر غور لائے گئے

جمعرات 13 اگست 2020 22:20

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 اگست2020ء) ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد الله خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر بہرامند خان تنگی کی طرف سی13 نومبر2018ء کو منعقد ہونے والے اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد کے منصوبے میں کرپشن کے معاملات اور اس حوالے سے جے آئی ٹی بنانے کے متعلق سیکرٹری ایوی ایشن ڈویژن سے بریفنگ، سینیٹر انجینئر رخسانہ زبیری کے 4 مارچ2020ء کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے ایئر ٹکٹس پر مختلف اقسام کے ٹیکسز کی وصولی،کراچی میں 22 مارچ2020 کو پی آئی اے جہاز کے حادثے پر سی ای او پی آئی اے کی بریفنگ، پی آئی اے ملازمین کی جعلی لائسنسوں اور ایوی ایشن کی طرف سے انٹرنل انکوائریوں اور ملوث افسران کے خلاف کارروائی کے علاوہ چیئرمین سینیٹ کی طرف سے سی ای او کے سپیشل اسسٹنٹ کے خلاف ہراساں کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

سینیٹر بہرامند خان تنگی کی طرف سی13 نومبر2018ء کو منعقد ہونے والے اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے نیو اسلام آباد انٹر نیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد کے منصوبے میں کرپشن کے معاملات اور اس حوالے سے جے آئی ٹی بنانے کے متعلق معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔قائمہ کمیٹی کوآصف علی شاہ گیلانی پروجیکٹ ڈائریکٹر نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کے منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان نے ایک کیبنٹ کمیٹی بنائی ہے جو ان تمام امور کا جائزہ لے رہی ہے۔

یہ ایک منصوبہ نہیں تھا بلکہ اس میں بے شمار پیکجز تھے جس پر مختلف کنٹریکٹر نے کام کیا ہے جن پر نیب، ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیاں علیحدہ علیحدہ انکوائری کر رہی۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز پر ایک کمیٹی آربیٹریشن کو بھی دیکھ رہی ہے۔ وزیراعظم کی کمیٹی کی سفارشات کو کیبنٹ میں بھیجا جائے گا اور وہی فیصلہ کرے گی اور اس معاملے پر جے آئی ٹی نہیں بن سکتی۔

سینیٹر انجینئر رخسانہ زبیری کے سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ ایک رن وے میں مسئلہ ہوگیا تھا۔اس کو ٹھیک کر دیا گیا ہے۔فرانس کی ایک کمپنی نے ڈیزائن کیا تھا سیٹلمنٹ کر دی گئی ہے۔ تھرڈ پارٹی اس کو مانیٹر کر رہی ہے۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ دنیا بھر کے ایئر پورٹس پر سامان پر سپرے کیا جاتا ہے مگر پاکستان کے کراچی اوراسلام آباد سمیت دیگر ایئرپورٹس پر پروٹوکول اور ایس اوپیز کا مسئلہ ہو رہا ہے اس کو حل کیا جائے۔

سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ نیو اسلام آباد ائیر پورٹ ایک بار پانی میں ڈوب گیا تھا اورایک بار دیکھا گیا آوارہ کتے ایسے گھوم رہے تھے جیسے ان نے بھی ٹکٹ لے رکھی ہو۔باتھ روم کی حالت یہ ہے کہ ایک بندہ اندر جاتا ہے تو 20 باہر کھڑے ہوتے ہیں۔جس پر وفاقی وزیر ایو ی ایشن غلام سرور خان نے کہا کہ میرے بھی ائیر پورٹ پر تحفظات ہیں۔اسلام آباد ائیر پورٹ کی ناقص پلاننگ اور غیر معیاری تعمیر کی گئی ہے۔

یہ ائیر پورٹ میرے حلقے میں ہے،اور میری وزرات میں بھی آتا ہے۔ہم اس ائیر پورٹ کا فرانزک آڈٹ کرانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کیبنٹ نے اس منصوبے کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے کمیٹی بنائی ہے جس کے متعدد اجلاس بھی ہوئے اور تمام امور کا جائزہ لیا جارہا ہے اور تھرڈ رن وے کی پرویڑن بھی رکھی گئی ہے۔ اس منصوبے کی لاگت 38 ارب سے بڑھ کر 95 ارب سے زائد تک پہنچ گئی اوریہ سب کام 2018 سے پہلے ہوئے ہیں۔

جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ہمیں بھی پتہ ہے،ہم بھی کہتے ہیں اس معاملے کی انکوائری کروائی جائے جو قصور وار اور کرپٹ لوگ ہیں انہیں کسی صورت نہ چھوڑا جائے۔سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ کمیٹی چیئرمین نیب کو سفارش کرے کہ سیکشن18 کے تحت اس کی انکوائری کرے کے کمیٹی کو رپورٹ دے۔سینیٹرانجینئر رخسانہ زبیری کے 4 مارچ2020 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے ایئر ٹکٹس پر مختلف اقسام کے ٹیکسز کی وصولی کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایف بی آر اور سول ایوی ایشن،ملک میں ہوائی سفر پر تین طرح کی ایکسائز ڈیوٹی ہیں۔ 500 سے زائد کلو میٹر پر1500 روپے، 500 سے کم کلو میٹر پر 900 روپے اور مجموعی کرائے پر پانچ فیصد ایڈوانس ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ جہاز کے ٹکٹ کیلئے سینما گھر کا گمان ہوتا ہے ہر سیٹ کا علیحدہ کرایہ ہے اگر شاہ خرچیوں کو روکا جائے تو خسارہ کم ہو سکتا ہے۔

آئے روز نئے ٹیکسز سامنے آرہے ہیں۔جس پر سیکرٹری ہوا بازی نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت اصلاحات کی طرف جا رہی ہے اور آوٹ سورسنگ کا آپشن بھی موجود ہے۔سی ای او پی آئی اے نے کہا کہ ہمیں جن ٹیکسز کے حوالے سے احکامات آتے ہیں وہی وصول کیے جاتے ہیں۔سینیٹر رخسانہ زبیر ی نے کہا کہ ہم سے زیادہ تعداد میں ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں میرے پاس چندماہ قبل کی ٹکٹ موجود ہے۔

کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں تفصیل سے آگاہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایئر پورٹس پر چیزیں انتہائی مہنگی فروخت کی جاتی ہیں۔سٹاف کے مسائل بھی ہیں اور ڈرائیوروں سے 24 گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ سینیٹر شاہین خالد بٹ نے کہا کہ پی آئی اے جہازوں میں سیٹوں کے ٹوٹنے کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس حوالے سے ایک کمپنی کو 6,7 ارب روپے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا اور اسے ڈیڑھ ارب روپے ادا کیاگیا تھا اس حوالے رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پائلٹس کے جعلی لائسنسوں کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں وزیر و سیکرٹری ہوا بازی کے علیحدہ علیحدہ بیان تھے۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت کراچی کے ہوائی حادثے کا واقعہ سامنے آیا اسی وقت پائلٹس کے جعلی لائسنسوں کا معاملہ سامنے لایا گیا جسے سے ملک کی بدنامی ہوئی اور پابندیاں بھی لگی۔

سینیٹر سجاد حسین طوری نے کہا کہ کمیٹی کو بتایا جائے کہ پائلٹ کے بھرتی کرنے کا طریقہ کار اور کتنی تعلیمی قابلیت درکار ہے۔جس پر سیکرٹری ہوا بازی نے کمیٹی کو بتایا کہ پائلٹس اے لیول یا فلائنگ کورس کرکے پائلٹس بن سکتے ہیں۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ملک میں گیارہ کمپنیاں فلائنگ گھنٹے پورے کرتی ہیں کیا ان کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ سیکرٹری نے جواب دیا کہ ہم چیک کرتے ہیں ان کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ کل 262 پائلٹس کے لائسنس مشکوک تھے۔ جن میں سے 54 پائلٹس نے امتحان میں شرکت نہیں کی تھی۔ 28 پائلٹس کے لائسنس منسوخ کر دیئے گئے ہیں، 193 پائلٹس کے لائسنس معطل کئے گئے ہیں اور38 پائلٹس نے ملتے جلتے ناموں سے لائسنس بنوارکھے ہیں جس کو چیک کیا جا رہا ہے جس کی رپورٹ 30 ستمبر تک دینی ہے۔پی آئی اے کے وہی پائلٹس جہاز اڑا رہے ہیں جن کا لائسنس کلئیر ہے۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے جعلی لائسنس کیس میں ایف آئی اے انکوائری کر رہی ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 5 لائسنس برانچ سے متعلقہ افسران کو معطل کیا گیا ہے۔ شوکاز نوٹس بھی جاری کئے گئے۔ ان کی انکوائری کی جا رہی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو اصل مجرم ہیں وہ نوکری پر ہیں بہتر یہی ہے کہ نیب اس معاملے کی انکوائری کرے جس پر قائمہ کمیٹی نے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس میں سینیٹر سجاد حسین طوری اور محمد اسد علی خان جونیجو ممبران ہونگے جو تمام امور کا جائزہ لے کر کمیٹی کو رپورٹ فراہم کریں گے۔

قائمہ کمیٹی کو یورپین یونین کی طرف سے پی آئی اے کی پروازوں پر لگنے والی پابندیوں کی تفصیلات بارے بھی آگاہ کیا گیا۔قائمہ کمیٹی نے چیئرمین سینیٹ کی طرف سے سی ای او کے سپیشل اسسٹنٹ کے خلاف حراساں کے معاملے کا ان کیمرہ تفصیلی جائزہ بھی لیا۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر فیصل جاوید، محمد اسد علی خان جونیجو، مصطفی نواز کھوکھر، سجاد حسین طوری، شاہین خالد بٹ، مولا بخش چانڈیو، شیری رحمان، اور انجینئر رخسانہ زبیری کے علاوہ سیکرٹری ایوی ایشن حسن ناصر جامی، سی ای او پی آئی اے، جی ایم پی آئی اے اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔