عمران خان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے بڑا لالچ دیا گیا،حامد میر

وزیراعظم پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا گیا مگر انہوں نے اس لالچ اور دباؤ کو مسترد کر دیا، اس بات پر یقیناً عمران خان داد کے مستحق ہیں، تجزیہ نگار کا ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال

Faizan Hashmi فیضان ہاشمی بدھ 19 اگست 2020 16:46

عمران خان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے بڑا لالچ دیا گیا،حامد میر
اسلام آباد (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔19اگست 2020ء ) وزیراعظم عمران خان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے بڑا لالچ دیا گیا اور ان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا گیا مگر انہوں نے اس لالچ اور دباؤ کو مسترد کر دیا۔ عمران خان نے بہادری سے اس معاملے پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے ان کو داد دینی چاہیے۔ ان کا خیالات کا اظہار تجزیہ نگار حامد میر نے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئےلالچ بھی دیا گیا، وہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں اور وہ ابھی تک اس معاملے پر سمجھوتہ کرنے کو کسی صورت تیار نہیں۔ حامد میر نے کہا کہ آنے والے دنوں میں پتا چلے گا کہ وزیراعظم پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے کتنا دباؤ تھا۔

(جاری ہے)

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان دوٹوک اعلان کر چکے ہیں کہ پاکستان کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔

 ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ جو چاہے اسرائیل کو تسلیم کرے پاکستان نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک فلسطینی خود فیصلہ نہیں کرتے تب تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا، کیونکہ یہی حالات مقبوضہ کشمیر میں ہیں اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو پاکستان کشمیر کو بھی چھوڑ دے گا۔ انٹرویو کرنے والے صحافی کامران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بتایا ہے کہ ''جہانگیر ترین کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان تکلیف میں نظر آئے، خدمات بھی یاد آئیں۔

ویراعظم نے مزید کہا کہ جو چاہے اسرائیل کو تسلیم کرے پاکستان نہیں کرے گا''۔ وزیراعظم عمران خان نے انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا ہے کہ میری پوری زندگی جدوجہد میں گزری، کرکٹ میں آنے سے لے کر شوکت خانم ہسپتال بنانے اور پھر سیاست میں آکر وزیراعظم بننے تک ان تھک محنت کی۔ سب سے زیادہ جدوجہد گزشتہ 2 سال میں کی کیونکہ ملک کے حالات برے تھے، قرضے تھے، گورنمنٹ کے ادارے خسارے میں تھے، جدھر دیکھو تو وہاں نظر آرہا تھا کہ ادارے برباد تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے سیاسی پارٹیاں بنائیں لیکن یہاں دو پارٹی سسٹم میں کوئی اور کامیاب نہیں ہوسکا جبکہ میں نے بہت چھوٹی سی پارٹی بنائی تھی اور دو الیکشنز میں پارٹی ختم ہوئی اور دوبارہ بنی، میں ایک ایسا شخص تھا جسے یہاں کی سیاست کا پتا نہیں تھا، باہر سے سسٹم سے باہر سے آکر میں نے جدوجہد کی۔