@‘کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 اگست2020ء)
بلوچستان اسمبلی ایک گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سرداربابر خان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا اجلاس میں
بلوچستان میں پیش آنے والے واقعات میں
شہید ہونے والے افراد اور میر
حاصل خان بزنجو کی ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کرائی گئی ۔اجلاس میں پشتونخوامیپ کے رکن
صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے میر
حاصل خان بزنجو کی خدمات پر ایوان کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تعزیتی
قرارداد پیش کرتے ہوئے قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہاکہ نیشنل پراٹی کے مرکزی رہنماء بزرگ سیاست دان میر
حاصل خان بزنجو کو یہ ایوان خراج عقیدت پیش کرتاہے ملک میں
جمہوریت ،آئین وقانون کی حکمرانی ،محکوم اقوام کے حقوق کے حصول کیلئے ان کی جدوجہد قابل تعریف ہے ،وہ زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں متحرک تھے ،ملک میں 18ویں آئینی ترمیم کا دفاع کیا،انہوں نے کہاکہ میرحاصل بزنجو نہ صرف اس خطے بلکہ پشتون بلوچ صوبے کے اہم رہنماء تھے آمرانہ دور میں انہوں نے
جمہوریت کی تحریک چلائی اور متحدہ اپوزیشن کی طرف سے چیئرمین
سینیٹ کے امیدوار بھی رہیںمیر
حاصل بزنجو خان عبدالصمد خان اچکزئی
شہید،سردارعطاء اللہ مینگل ،نواب
خیر بخش مری ،باچاخان اور
جی ایم سید کی عوامی حکمرانی
،پارلیمنٹ وجمہوریت کیلئے جدوجہد ہمارے لئے مشعل راہ ہے انہوں نے پشتونخواملی عوامی پارٹی کی طرف سے میرحاصل خان بزنجو کی پسماندگان سے تعزیت کااظہار کرتے ہوئے دعا کی کہ اللہ پاک مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ اورپسماندان کو صبروجمیل عطاء فرمائے ۔
(جاری ہے)
صوبائی وزیر سردارعبدالرحمن کھیتران نے
قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ میر
حاصل خان بزنجو کی
بلوچستان کیلئے کوئی خدمات نہیں 2009ء میں وہ جس طریقے سے سینیٹ
الیکشن جیتے اس کے بہت سے گواہان موجود ہیں انہوں نے
سینیٹ کے
الیکشن میں ووٹوں کی خرید وفروخت کی اور
ووٹ خریدنے کیلئے ایک کروڑ روپے میرے گھر لائے جسے میں نے ٹکراتے ہوئے موقف اختیارکیاکہ میں پہلے ہی زبان دے چکاہوں ،انہوں نے کہاکہ 2013ء کے
انتخابات کے بعد صوبے میں نواب ثناء اللہ زہری کی اکثریت ہونے کے باوجود انہوں نے
اقلیت کو حکوم ت دی جو ان کی
جمہوریت پسندی ہے ،انہوں نے کہاکہ ان کے وزارت صحت میں بے ضابطگیوں پر نیب کے ریفرنسز بنے ،یوسف بزنجو نے ایم ایس ڈی کی سرکاری ادویات کو فروخت کئے ،اقتدار میں چادر وچاردیواری کا تمسخر اڑایا گیا جس پربی این پی کے رکن
صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاکہ میر
حاصل بزنجو اس
دنیا میں نہیں لہٰذاء اس قسم کی باتیں اسلامی اور انسانی روایات کے منافی ہیں جس پر اپوزیشن نے علامتی واک آئوٹ کیا ۔
رکن
صوبائی اسمبلی نواب محمد
اسلم رئیسانی نے کہاکہ خامیاں اور کوہتائیاں ہر انسان میں ہوتی ہے وہ ایک اصول پسند رہنماء تھے کبھی انہوں نے ان جیسے بڑی سودے بازیاں نہیں کی ان کی جدوجہد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا
۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈ رملک نصیراحمد شاہوانی نے میر
حاصل خان بزنجو کو ان کی سیاسی وجمہوری جدوجہد پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ ان کے انتقال سے نہ صرف صوبہ بلکہ ملک ایک سیاسی مدبر ،دانشور اور جمہوری رہنماء سے محروم ہواہے میر
حاصل خان بزنجو اور ان کی خاندان کی سیاسی جدوجہد کی ایک تاریخ رہی ہے میر
حاصل خان بزنجو روز اول سے اپنے انتقال تک بھرپور سیاسی جمہوری جدوجہد کرتے رہے انفرادی طور پر کسی بھی انسان میں کوئی کمی یا خامی ہوسکتی ہے مگر
بلوچستان کی روایات ہیں کہ ہم کسی کے بھی مرنے کے بعد ان کی کمیوں کو بھلا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں سردار عبدالرحمن کھیتران کو بھی چاہیے تھا کہ آج کے دن وہ میر
حاصل بزنجو کو خراج عقیدت پیش کرتے انہوں نے میر
حاصل بزنجو کی خدمات کو سراہتے ہوئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کواپنے جوار رحمت میں جگہ دیں ،صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے میر
حاصل خان بزنجو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ وہ ایک سیاسی استاد تھے وہ میر
غوث بخش بزنجو کے فرزند تھے
بلوچستان کی سیاسی وجمہوری جدوجہد میں ان کانام ہمیشہ رہے گاانہوں نے منتخب عوامی اداروں سمیت ہر فورم پر
بلوچستان اور ملک کے عوام کیلئے آواز بلند کی ان کے انتقال سے ہم ایک سیاسی مدبر سے محروم ہوگئے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے
،بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن وصوبائی مشیر میر اکبرآسکانی نے کہاکہ میر
حاصل خان بزنجو کی خدمات کو گراں قدر نظر سے دیکھتے ہیں وہ ایک بہت بڑے قوم پرست سیاسی رہنماء تھے اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں
،جمعیت علماء اسلام کے میر یونس عزیز زہری نے کہاکہ میر
حاصل بزنجو کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے انہوں نے انتہائی کٹھن مراحل میں سیاست کی ان کی سیاسی وجمہوری جدوجہد سے پورا ملک آگاہ ہے میر
غوث بخش بزنجو کے سیاسی جانشین ہونے کی حیثیت سے میر
غوث بخش بزنجو نے ان کی بہترین تربیت کی ،میر
حاصل بزنجو کاایک سیاسی وژن تھا انہوں نے کبھی عوام کو مایوس نہیں کیا بلکہ ہر فورم پر عوامی نمائندگی کا حق ادا کیا ان کی کمی کو
بلوچستان سمیت پورا ملک محسوس کرے گا ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیںگے ۔
صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور احمد بلیدی نے میر
حاصل خان بزنجو کو ان کی سیاسی وجمہوری جدوجہد پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ میر
حاصل خان بزنجو ایک وژن کانام تھے ۔ان کی سیاسی جدوجہد وہ سیاسی سوچ کے بارے میں جتنی بات کریں کم ہے ان کے والد میر
غوث بخش بزنجو نے شروع دن سے
بلوچستان میں بھرپور سیاسی جدوجہد کی اور عوام کو ایک آواز دی
بلوچستان کو پورے ملک میں ایک پہچان دی میر
حاصل خان بزنجو ،میر
غوث بخش بزنجو کے گھر میں پیدا ہوئے مگر میر
حاصل بزنجو نے کبھی اپنے والد کانام استعمال نہ کیا بلکہ انہوں نے اپنا سیاسی مقام بنایا اور ان کااپنا ایک سیاسی قد کاٹ تھا وہ عوام میں سے تھے وہ
بلوچستان تک محدود نہ رہے بلکہ وہ پورے ملک میں آباد تمام اقوام کی بے باک آواز تھے ،انہوں نے کہاکہ سیاست میں ہر شخص بات کرسکتاہے جہاں تک 2009ء کے سینیٹ
انتخابات کی بات ہے تو میں خود اس بات کا گواہ ہوں اور میں نے اپنا
ووٹ میر
حاصل بزنجو کو دیا تھا جبکہ نواب محمد
اسلم رئیسانی ،نواب ثناء اللہ زہری ،میر حمل کلمتی ،سردار اسلم بزنجو ،اسلم بھوتانی اور پیر عبدالقادر گیلانی نے انہیں
ووٹ دیا سینیٹ
انتخابات کیلئے اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب محمد
اسلم رئیسانی کے پاس بھی ہم گئے تھے ۔
میں نے
حاصل خان بزنجو کو
ووٹ دیا اس پر میں آج بھی مطمئن ہوں کہ میں ایک قدر آور سیاسی رہنماء کو
ووٹ دیا اور حلفیہ کہتاہوں کہ مجھ سمیت کسی نے میر
حاصل خان بزنجو کووٹ دینے کیلئے ایک روپیہ بھی نہیں لیا میر
حاصل خان بزنجو ایک ایسے انسان تھے کہ جو سیاسی استاد ہونے کے ساتھ فیڈریشن میں رہ کر جدوجہد کرتے رہے ان کی سیاسی جدوجہد ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی نائل نے
قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ میر
حاصل خان بزنجو اور ان کاپورا خاندان سیاست میں نہایت اہم مقام رکھتاہے ہماری پارٹی کی جانب سے ایک وفد نے نال جا کر ان کی وفات پر تعزیت بھی کی ہم مرحوم کے خاندان اور نیشنل پارٹی سے اظہار یکجہتی اور محکوم عوام کی جانب سے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں میر
حاصل خان بزنجو کاانتقال ایک المناک سانحہ ہے
بلوچستان کی ایک تاریخ رہی ہے اور یہاں پر جنہوں نے سیاسی خدمات پیش کی وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے میر
حاصل خان بزنجو نے سیاست میں ایک راہ متعین کی ہم ان کی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔
جمعیت علماء اسلام کے رکن
صوبائی اسمبلی مکھی شام لعل نے میر
حاصل بزنجو کواقلیتی برادری کی جانب سے ان کی
جمہوریت کیلئے خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ دکھ کی اس گھڑی میں متاثرہ خاندان کے ساتھ ہے
،جمعیت علماء اسلام کے رکن
اسمبلی مولانا نوراللہ نے کہاکہ میر
حاصل خان بزنجو نے کہاکہ ان کی رحلت سے سیاست میں ایک خلاء پیدا ہواہے کسی مرحوم رہنماء سے متعلق نامناسب الفاظ استعمال کرنا حضرت محمد ﷺ کی ہدایت کی خلاف ورزی ہے جب ابوجہل کو
قتل کیا گیا تو حضرت محمد ﷺ کی مجلس میں بیٹھے کچھ افراد ان سے متعلق نامناسب الفاظ استعمال کئے جس پر آپ ﷺ نے کہاکہ کسی مرحوم سے متعلق برے الفاظ استعمال کرنے سے ان کی پسماندگان کو تکلیف پہنچتی ہے میر
حاصل بزنجو ایک قوم پرست رہنماء ان کی سیاسی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرتاہوں اور دعا ہے کہ اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں ۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن
اسمبلی دھنیش کمار نے اقلیتی برادری کی جانب سے میر
حاصل بزنجو کے لواحقین سے دلی ہمدردی کااظہار کیا اورکہاکہ میر
حاصل بزنجو نے اپنے والد میر
غوث بخش بزنجو کی نظریات پر من وعن عمل کیا۔جمہوری وطن پارٹی کے نوابزادہ گہرام بگٹی نے کہاکہ
بلوچستان میں ایسی قیادت بہت کم پیدا ہوئی ہیں وہ کبھی مصلحت کاشکار نہیں ہوئے انہوں نے لواحقین سے تعزیت کااظہار کرتے ہوئے میر
حاصل بزنجو کی مغفرت کی دعا کی ۔
پاکستان
تحریک انصاف کے مبین خلجی نے میر
حاصل بزنجو کو
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ اللہ پاک مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائے ۔بی این پی کے رکن
اسمبلی میر حمل کلمتی نے کہاکہ وہ ایک سیاسی وقوم پرست شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی استاد بھی تھے ملک میں آئین کی بالادستی اور صوبے کے حقوق سے متعلق ایوان بالا میں اپنی موثر آواز اٹھائی جب میر صاحب علیل تھے تو میں ان کی عیادت کیلئے گیا تو انہوں نے کہاکہ جب تک زندہ ہوں اس سرزمین کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھوں گا،صوبائی وزیر ریونیو میر سلیم کھوسہ نے میر
حاصل بزنجو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ صوبے میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گاانہوں نے صوبے کے موقف کو انتہائی دلیری سے پیش کیا۔
صوبے کے حقوق کی تحفظ کی انہوں نے کہاکہ
بلوچستان عوامی پارٹی اس
قرارداد کی حمایت کرتی ہے
۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن
اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاکہ میر
حاصل بزنجو نے آبائو اجداد کے سیاسی شعوری جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے صوبے کی سیاست میں کلیدی کرداراداکیا ۔صوبے کو درپیش تکلیف دہ حالات میں میر
حاصل خان بزنجو جیسے رہنمائوں کی اشد ضرورت ہے ،بی این پی کے رکن
اسمبلی میر اکبر مینگل نے کہاکہ مارشل لاء کے خلاف میر
حاصل بزنجو نے شعوری جدوجہد کی اور عزم وہمت سے آئین کی بالادستی کیلئے بلوچ وپشتون کے کردار کو ایوان بالا میں اجاگر کیا ،انہوں نے
جمہوریت کی بالادستی کیلئے قیدوبند کی صوبتیں برداشت کی ،ان کی فکری جدوجہد کو آگے بڑھائینگے ،بی این پی کے ٹائٹس جانسن نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ میر
حاصل بزنجو نے ہمیشہ
بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے ہوئے صوبے کی عوام کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا بی این پی کے رکن
اسمبلی احمد نواز بلوچ نے کہاکہ میر
حاصل بزنجو کی رحلت سے
بلوچستان میں ایک بہت بڑا خلاء پیداہواہے ۔
ان کے گھرانے کی ایوان بالا سے ذیلی تک نمائندگی رہی ہے جہاں انہوں نے محکوم اقوام کے حقوق کی بات کی ۔انہوں نے کہاکہ میر
حاصل بزنجو کی سیاسی وجمہوری جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا
۔بلوچستان نیشنل پارٹی دکھ کی اس گھڑی میں متاثرہ خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی لیڈر صوبائی مشیر
کھیل عبدالخالق ہزارہ نے میرحاصل بزنجو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالیٰ میر
حاصل بزنجو کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دیں ،میر
حاصل بزنجو کی وفات پر ہماری پارٹی کے وفد نے قادر علی نائل کی قیادت میں نال جا کر تعزیت کی جہاں پورے ملک سے سیاسی رہنماء تعزیت کیلئے آئے ہوئے تھے جو میر
حاصل بزنجو کی سیاسی شخصیت کی عکاسی کرتاہے کہ ان کو پورا ملک خراج عقیدت پیش کررہاہے
بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو نے کہاکہ میر
حاصل بزنجو عظیم سیاسی قائد میر
غوث بخش بزنجو کے صاحب زادے تھے جنہوں نے پہلے علی گڑھ یونیورسٹی سے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی اور پھر ملک میں مظلوم عوام کیلئے آواز بلند کی تھی میر
حاصل خان بزنجو بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاسی جدوجہد کرتے رہے ہم انہیں ان کی سیاسی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ،اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے کہاکہ میر
حاصل بزنجو بلوچستان کے بہت بڑے سیاسی رہنماء تھے جنہیں تمام ارکان نے خراج عقیدت پیش کیا جس کے وہ بجا طورپر مستحق بھی ہیں میر
حاصل خان بزنجو نے ہمیشہ حق گوہی اور حقیقی سیاست کی اور اس جدوجہد میں کسی مشکل کو رکاوٹ بننے نہ دیا
جمعیت علماء اسلام کے اصغر ترین نے بھی میر
حاصل خان بزنجو کو خراج عقیدت پیش کی بعدازاں ایوان نے
قرارداد متفقہ طورپر منظور کرلی ۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ
کوئٹہ کو لوٹاجارہاہے ایک سال پہلے محکمہ
تعلیم میں قوائد کے برعکس بھرتیاں کی گئی تھی جس پر ہم نے اس ایوان میں بھرپور
احتجاج کیا تھا جس پر سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ آئی مگر وزیراعلیٰ کی یقین دہانی کے باوجود اس پرعملدرآمد نہیں کیا گیا اب واسا میں اسی قسم کی بھرتیاں کی گئی ہے 125آسامیوں پر 80افراد سنجاوی سے لاکر بھرتی کئے گئے ہیں جبکہ 10ملازمتیں واسا کے اعلیٰ آفیسران کو خوش کرنے کیلئے انہیں دی گئی ہے درجہ چہارم کی آسامیوں پر
کوئٹہ سے باہر کے لوگوں کی تعیناتی افسوسناک ہے ماضی میں یہ کچھ محکمہ
کھیل میں ہوا 2008ء سے 2013ء میں ڈھائی سو افراد کو چوکیدار اور مالی تعینات کیا گیا مگر آج وہاں 10لوگ بھی فرائض انجام نہیں دے رہے یہ تمام لوگ ایک وزیر اپنے دور میں کوہلو سے لاکر تعینات کیا تھا جو گھروں میں بیٹھ کر تنخواہ لے رہے ہیں ،درجہ چہارم کی ایک چھوٹی سی
ملازمت پر تعینات کم تنخواہ پانے والے سنجاوی اور کوہلو سے کہاں آکر کام کرینگے ایک جانب آدھا صوبہ اس وقت
کوئٹہ میں موجودہ ہے مگر
مردم شماری کے تحت
کوئٹہ کی آبادی صرف 24لاکھ ہیں جس کی وجہ سے کو فنڈز کم مل رہے ہیں
کوئٹہ کے عوام سے ناانصافی پر ہم
عدالت جائینگے اور عوام کے پاس بھی جائینگے ۔
پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرے نے کہاکہ واسا پر ملازمتوں کا حق صرف
کوئٹہ کے عوام کو ہے میں گزشتہ سات سال سے
کوئٹہ سے ایم پی اے ہوں میرے حلقے میں 80ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں مگر وہاں پر والمین ،چوکیدار اور مشین آپریٹر تک نہیں جن لوگوں نے ٹیوب ویلوں کیلئے زمینیں دی تھی انہیں بھی ملازمتیں نہیں دی جارہی مگر سنجاوی سے لوگوں کو یہاں لاکر تعینات کیاجارہاہے ہم نے محکمہ
تعلیم کی آسامیوں پر
احتجاج کیا تھا اس پر عمل نہ ہوا مگر اب واسا میں یہ بھرتیاں کی گئی ہے انہوں نے مطالبہ کیاکہ بھرتیوں کی تحقیقات کیلئے کمیٹی بنائی جائیں اور تمام بھرتیاں منسوخ کی جائیں ۔
بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے کہاکہ پہلے بھی محکمہ پی ایچ ای میں بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی
کوئٹہ میں پی ایچ ای میں لیڈی چوکیدار بھی لگا دی گئی میرے حلقے میں 70ٹیوب ویل مکمل ہیں لیکن انہیں فعال نہیں کیا جارہا تمام معاملات اندرون خانہ طے کئے جاتے ہیں اب 125آسامیوں پر
کوئٹہ سے باہر لوگوں کو تعینات کردیاگیاہے
کوئٹہ کے 23لاکھ آبادی کے نوجوانوں کا حق کیوں مارا جارہاہے
کوئٹہ کے نوجوانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہونا چاہیے وہ یہ بھی بتائیں کہ سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ اب تک ایوان میں کیوں پیش نہیں کی گئی یوں محسوس ہوتاہے کہ وزیراعلیٰ چاہتے ہیں کہ
کرپشن ہوں انہوں نے مطالبہ کیاکہ
کوئٹہ کے ارکان
صوبائی اسمبلی پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی جائیں جو پی ایچ ای میں ہونے والی حالیہ بھرتیوں کی تحقیقات کریں اگر ایسا نہیں کیا گیا تواسپیکر ڈیسک کے سامنے
احتجاج کرینگے ۔
بی این پی کے رکن
اسمبلی احمد نواز بلوچ نے کہاکہ میں اپنے علاقے میں قائم ٹیوب ویلز پرکسی بھی باہر سے آنے والے ملازم کو کام کرنے کیلئے نہیں چھوڑوں گا
،حلقہ پی بی 30میں بھی کئی ٹیو ب ویلز فعال نہیں ہیں ایچ ڈی پی کے رکن
صوبائی اسمبلی قادر علی نائل نے کہاکہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے ہمیشہ میرٹ اور انصاف کی بات کی ہے جس بھی علاقے میں بھرتیاں ہوں پہلا حق اسی علاقے کے بے روزگار نوجوانوں کا ہے ہم اپنے حلقے کے عوام کو جوابدہ ہیں ۔
پی ایچ ای کی بھرتیوں کے معاملے کو وزیراعلیٰ کے نوٹس میں لایاگیاہے ۔اپوزیشن لیڈر ملک سکندرایڈووکیٹ نے کہاکہ
کرپشن ،ناانصافی روکنا وزیراعلیٰ کا فرض ہے اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس کامطلب ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ناانصافی اور
کرپشن بڑھیں
کوئٹہ کے ارکان
صوبائی اسمبلی کااحتجاج برحق ہے
کوئٹہ کے ٹیوب ویل سے سنجاوی پر کوئی کیسے آکر کام کرسکتاہے محکمہ پی ایچ ای میں جو بھی بھرتیاں
کوئٹہ سے باہر کی ہوئی ہیں انہیں فوری طورپر فارغ کرکے
کوئٹہ کے اہل نوجوانوں کو موقع دیاجائے ۔
انہوں نے کہاکہ پی ایچ ای
کوئٹہ میں ہونے والی بھرتیوں کا نوٹیفکیشن معطل کرکے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس تمام معاملے کی تحقیقات کرے اور محکمہ
تعلیم میں نان ٹیچنگ آسامیوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے ۔صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہاکہ
بلوچستان عوامی پارٹی میرٹ پر یقین رکھتی ہے جس علاقے کی آسامیاں ہوں وہاں پر سب سے پہلے وہی کے لوگوں کو بھرتی ہوناچاہیے اس معاملے کو صوبائی وزیر پی ایچ ای کے موقف تک موخر کیاجائے ساتھ ہی
کوئٹہ میں پچھلے ادوار میں ہونے والی بھرتیوں کا بھی
ریکارڈ طلب کیاجائے ۔
صوبائی وزیر سردارعبدالرحمن کھیتران نے کہاکہ کلاس فور کی آسامیوں پر پہلا حق علاقے کے نوجوانوں کا ہوتاہے اس معاملے پر یقین دلاتے ہیں کہ وزیراعلیٰ سے بات کرینگے اگر کوئی بے قاعدگی ہوئی ہے تو اس کاازالہ کیاجائے گا۔اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی کہ جب وزیراعلیٰ پی ایچ ای معاملے کا وضاحت دیںگے اس کے بعد اس پر کوئی رولنگ دی جائیگی ۔
اجلاس میں رکن
صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاکہ انہوں نے تربت میں حیات بلوچ کے
قتل اور بسیمہ کے علاقے ساجد میں زلزلے سے نقصانات کے حوالے سے دو تحاریک التواء جمع کرائے ہیں آج اجلاس کے ایجنڈے میں امن وامان کا مسئلہ ہی رکھاگیاہے لہٰذاء میری حیات بلوچ کے
قتل کے حوالے سے تحریک التواء کو پیش کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ اس سے اجلاس کے ایجنڈا نمبر2کے ساتھ منسلک کردیاجائے ۔
اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے حیات بلوچ کے
قتل سے متعلق تحریک التواء ایوان میں پیش کرنے کیلئے ایوان سے رائے لی جس کی اجازت ملنے پر رکن
صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے اپنی تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہاکہ 13اگست کو تربت کے علاقے میں حیات بلوچ نامی نوجوان کو دن دیہاڑے بے دردی کے ساتھ
ایف سی کے اہلکار نے درندگی کے ساتھ
شہید کیا اس اندوہناک سانحہ نے
بلوچستان کے والدین
تعلیم یافتہ نوجوانوں ،طلباء وطالبات
،سول سوسائٹی اور عام عوام میں شدیداحساس عدم تحفظ ،خوف وہراس کا باعث بناہے اور
بلوچستان سمیت
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پرامن مظاہرے ہورہے ہیں لہٰذاء ایوان کی معمول کی کارروائی روک کر اس اہم اور قابل افسوس سانحہ پر تفصیلی بحث کی جائے ۔
اس موقع پر ایوان کی رائے سے رکن
صوبائی اسمبلی حاجی ذابد علی ریکی اسی موضوع سے متعلق تحریک التواء کو بھی ثناء بلوچ کی تحریک التواء کے ساتھ منسلک کرکے بحث کیلئے امن وامان کے نقطے کے ساتھ منظور کرلیاگیا۔ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے ایجنڈے میں شامل کارروائی پر بحث کاآغاز کرتے ہوئے کہاکہ میر ذابد ریکی ایوان کے معزز رکن ہے انہیں جان سے مارنے کی کوشش کی گئی ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے تربت سے
پیٹرول اور
ڈیزل لانے والی گاڑیوں سے بھتہ لینے سے انتظامیہ کو منع کیا اس سے قبل بھی انہوں نے ڈپٹی کمشنر کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی جس پر ڈپٹی کمشنر نے یقین دہانی کرائی تھی کہ تمام چیک پوسٹ ختم کردئیے جائیںگے ،تربت سے
کوئٹہ تک 63مقامات پر
تیل کی ترسیل کرنے والوں سے پیسے لئے جاتے ہیں ،جہاں چھوٹی گاڑیوں سے 30ہزار جبکہ بڑی گاڑیوں سے ڈھائی لاکھ روپے تک لئے جارہے ہیں ہم نے اس معزز ایوان میں استدعا کی تھی کہ
پیٹرول اور
ڈیزل کی ترسیل کرنے والوں پر ٹیکس نافذ کرکے انہیں باقاعدہ پرچی تھمائی جائیں تاہم ایسا نہ کیا گیا انہوں نے کہاکہ ذابد ریکی عوام سے
ووٹ لیکر منتخب ہوکرآئے ہیں اور انہوں نے انہی عوام کیلئے آواز بلند کی جس پران پر
فائرنگ کی گئی اپوزیشن اراکین کے آئینی حقوق سے انحراف کرنے سے معاشرہ انارکی کاشکار ہوجائے گا،واقعہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیاجائے اور ذمہ داران کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں ،انہوں نے کہاکہ حیات بلوچ سی ایس ایس کی تیاری کررہا تھا اسے اس کے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر اعلیٰ
تعلیم دلائی تاہم اسے
قتل کرکے ان کے والدین کے ارمانوں خاک میں ملا دئیے گئے ،انہوں نے صوبے میں پیش آنیو الے بدامنی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن وامان کو برقرارکھیں اور قانون کے نفاذ میں کوئی تفریق نہ برتی جائے ،انہوں نے کہاکہ صوبے میں
غریب کیلئے الگ اور امیر کیلئے الگ قانون ہے یہ ایوان فیصلہ کرے کہ محکموں کے سیکرٹریز اپنے محکموں کے ذمہ دار ہے اور ان پر کوئی دبائو نہیں ہوگا اور آزادانہ اپنا محکمہ چلائیںگے
پولیس کو پابند کیاجائے کہ وہ امن وامان کی صورتحال پر قابو پا کر عوام کو انصاف فراہم کرے،پاک افغان چمن بارڈر کی بندش سے متعلق ہم نے بروقت حکومت سے اقدامات کرنے کامطالبہ کیاتاہم بروقت اقدامات نہ ہونے پر اتنا بڑا سانحہ پیش آیا ۔
سابق وزیراعلیٰ
بلوچستان اور رکن
اسمبلی نواب محمد
اسلم رئیسانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ حیات بلوچ کے
قتل کا واقعہ پہلا واقعہ نہیں اس کے قسم کے اکثر پراسرار واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم حیات بلوچ کا واقعہ سامنے آیا،حیات بلوچ کے ہاتھ اس کی والدہ کے چادر سے باندھے گئے واقعہ میں صرف ایک اہلکار ملوث نہیں وہاں موجود تمام افراد کو شامل تفتیش کیاجائے ،آئی جی
ایف سی بحیثیت ایک سرکاری ملازم متاثرہ خاندان کے پاس گئے مگر وزیراعلیٰ اور حکومت کی طرف سے کسی نے متاثرہ خاندان سے ہمدردی نہیں کی ،انہوں نے کہاکہ واقعہ میں ہونے والی بربریت کی فوٹیج وائرل ہوئی ہے ان تمام پہلوئوں کو دیکھاجائے کہیں بھی مظلوم اور
غریب لوگوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جاتاآواران میں کتنے گائوں جلائے گئے ہیں اور لوگ لاپتہ ہیں ،انہوں نے کہاکہ پشتون بلوچ وطن میں آباد تمام معتبرین ہمارے لئے قابل احترام ہے ،بحیثیت اراکین
اسمبلی صرف ہم
بلوچستان کے معتبر نہیں یہاں بہت سے معتبرین ہیں جن کی ہماری نظروں میں عزت واحترام ہے ۔
انہوں نے کہاکہ ملک کا تین مرتبہ
وزیراعظم رہنے والا
وزیراعظم بھی جبر واستبداد کی وجہ سے
پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے
،فواد چوہدری نے کہاکہ
کشمیر کامسئلہ پنجابیوں اور کشمیریوں کا مسئلہ ہے تاہم آیا
کشمیر ایک منٹ کی خاموشی یا نقشہ بنانے سے آزاد ہوگا ،انہوں نے کہاکہ فیڈریشن کو
نقصان پہنچایاجائے ہم اپنے آئندہ نسلوں کو سول وار اور آگ میں نہیں جھونکناچاہتے اب ایسے اقدامات ختم ہونے چاہئیں ،حکومت کو مل بیٹھ کر
پولیس اور لیویز کی استعداد
کار میں اضافے کیلئے سوچنا چاہیے انہوں نے وزیراعلیٰ
بلوچستان کے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ
ایران سے آنے والے زائرین تفتان سے مستونگ تک ویرانوں سے گزر کر آتے ہیں تاہم ان زائرین کو شیخ واصل اور سبزی منڈی کے درمیان نشانہ بنایا گیا جب یہ ملک کے دیگر علاقوں کو جاتے ہیں تو انہیں کہیں نشانہ نہیں بنایاجاتا انہوں نے کہاکہ سراج خان رئیسانی پر
خودکش حملہ بھی درینگڑھ کے مقام پر ہوتاہے میں اپنی حکومت میں شیعہ زائرین پر ہونے والے حملوں کا اگر ذمہ دار ہوں تو آج حکومت میں موجود اہل تشیع کے نمائندوں آج تک کیوں جوڈیشل انکوائری کرانے کامطالبہ نہیں کیا
،میرا گھر جلا ہے سراج رئیسانی کی قبر پر فاتحہ خوانی میں آج میں اور میرے بھائی جاتے ہیں جبکہ سراج کو میرے مخالف کھڑا کرنے والے آج تک ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے نہیں گئے ،اسلام آباد سے ایک
پولیس آفیسر کواغواء کیاجاتاہے احسان اللہ احسان
جیل توڑ کر فرار ہوجاتاہے اور 22دن تک گھومتا پھرتا
وٹس ایپ پر رابطے بھی کرتاہے تاہم کسی کو پتہ نہیں چلتا ،انہوں نے کہاکہ اس فیڈریشن کو تباہ نہ کیاجائے ہم یہاں ہزاروں سالوں سے آباد ہیں اپنی قبریں چھوڑ کر نہیں جائینگے ۔
انہوں نے کہاکہ حاجی ذابد ریکی پر
حملہ قابل مذمت ہے ،پارلیمان کی سیاست کرتے ہیں اور محسوس کررہاہوں کہ اعتدال پسندی کی سیاست کرنے والوں کو انتہاپسندی کی طرف لے جایاجارہاہے ۔انہوں نے کہاکہ انڈونیشیاء میں تعینات پاکستانی سفارت
کار نے سفارتخانہ ہی فروخت کردیا اگر ہم ایسا کرتے تو ہماری آئندہ نسلیں بھی یاد رکھتی ،اقتدار کو طول دینے کیلئے
قتل وغارت گیری کا جو سلسلہ چل پڑاہے اسے بند کیاجائے چمن واقعہ صرف 500 روپے نہ دئیے جانے پر پیش آیا ،چمن میں سرحد پر اشیاء کی اسمگل کرنے والے شخص سے 500روپے دینے کامطالبہ کیا جس پر انکار پر سرحد آمدورفت کیلئے بند کی گئی اور یہ دلخراش واقعہ پیش آیا۔
واقعہ میں 65کے قریب لوگ جاںبحق ہوئے ہیں ۔رکن
صوبائی اسمبلی میر ذابد ریکی نے کہاکہ مجھے حلقے کے لوگوں نے شکایت کی تھی کہ ان سے سوراب چیک پوسٹ پر بھتہ وصول کیاجاتاہے جس پر میں خود چیک پوسٹ پر گیا اور دیکھا کہ وہاں بھتہ وصولی جاری تھی جسے فوری طورپر بند کرنے کی ہدایت کی اور وہاں پھنسی ہوئی گاڑیوں کو منزل کی طرف روانہ کیا اگلے دن ناگ میں نائب تحصیلدار اکرام سیاپاد سے کہاکہ چیک پوسٹوں پر بھتہ وصولی کو ختم کیاجائے میں اپنے علاقے میں کسی بھی غیر قانونی کام کو برداشت نہیں کیاجائے گاکچھ دیر بعد مجھے فون آیا کہ نائب تحصیلدار مجھ سے چٹ کے مقام پر ملنا چاہتاہے جب میں وہاں گیا تو نائب تحصیلدار نے طعش میں آکر مجھ پر
فائرنگ کی تاہم میں نے اپنے گن مین کو بھی روکا کہ وہ جوابی کارروائی نہ کرے اسی اثناء میں علاقے کے لوگوں نے
احتجاج کرتے ہوئے دھرنہ دیا جہاں سے وزیرخزانہ میر ظہور بلیدی گزررہے تھے اور انہوں نے میرے اوپر ہونے والے حملے کی تفصیلات طلب کی ،وزیر خزانہ نے اسی وقت چیف سیکرٹری ،سیکرٹری داخلہ اور کمشنر رخشان ڈویژن سے بات کی اور نائب تحصیلد ار کے خلاف کارروائی کی تجویز دی تاہم بعد میں نائب تحصیلدار نے میر ظہور بلیدی کے ہاتھ معافی مانگنے کا پیغام بھیجا لیکن میں نے بحیثیت بلوچ اس معافی کو مسترد کیا کیونکہ اگر ایک رکن
صوبائی اسمبلی کے ساتھ نائب تحصیلدار کا یہ سلوک ہے تو عام آدمی کے ساتھ یہ کیا کرتے ہوںگے ۔
انہوں نے کہاکہ مجھے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ نائب تحصیلدار کے خلاف کارروائی ہوگی اور ایف آئی آر درج کرکے اسے معطل کیاجائے گا لیکن آج تک نہ ایف آئی آر ہوئی ہے اور نہ ہی معطلی ہوئی ہے انہوں نے کہاکہ ماشکیل میں انتظامیہ خود حالات خراب کررہی ہے ایسے لوگوں کو تعینات کیاجاتاہے جن کے خلاف ہم نے پہلے بھی شکایات کی اور انہیں ہٹایا گیا ایوان کو بتایاجائے کہ ایسے واقعات کب تک ہوتے رہینگے اور ان کے تدارک کیلئے کا اقدامات کئے گئے اگر میں وزیرمال ہوتا تو فوری طورپر نائب تحصیلدار کو معطل کرتا اور اس کے خلاف کارروائی کرتا لیکن کیا صوبائی وزیر ریونیو نے آج تک یہ نہیں پوچھا کہ ذابد تم زندہ ہو یا مر گئے جس پر صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہاکہ یہ نائب تحصیل دار کا انفردی عمل ہے معاملے کی تحقیقات کیلئے سی ایم آئی ٹی نے 17اگست سے کمیٹی قائم کردی ہے جو 15دن میں اپنی رپورٹ دے گی انہوں نے کہاکہ یہ معاملہ یکطرفہ نہیں بہت سی چیزیں ایوان میں نہیں بتا سکتا ہم معاملہ کمیٹی پرچھوڑتے ہیں وہ اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کریگی ۔
بی این پی کے رکن میر حمل کلمتی نے کہاکہ حیات بلوچ کا
قتل قابل مذمت ہے توتک سمیت آج تک جتنے بھی واقعات کی کمیٹیا ں بنیں ان کی رپورٹ پر کوئی اقدام نہیں ہوا اتنے بڑے واقعہ پر پوری
دنیا میں
احتجاج ہورہاہے حیات بلوچ کا
قاتل تو
جیل میں ہے لوگ اس لئے
احتجاج کررہے ہیں کہ ایسے واقعات کب تک ہوتے رہیںگے
بلوچستان کے لوگوں نے ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں ہم سب یہاں کے وارث ہے یہاں کے لوگ تحفظ چاہتے ہیں آج
بلوچستان میں احساس کمتری بڑھ رہی ہے جس کے خاتمے کیلئے مل کر سوچنا ہوگا موجودہ حکومت نے
کرپشن بھتہ خوری ،اموات کے علاوہ صوبے کو کچھ نہیں دیا لیکن آج بھی وہ پریس کانفرنس کرکے اپنے دور کی کارکردگی بتا رہے ہیں ،ان کے بتائے ہوئے تمام منصوبے پچھلے ادوار کے ہیں موجودہ دور میں صرف ہمارے بچوں کی لاشیں مل رہی ہیں انہوں نے کہاکہ حاجی ذابد علی ریکی نے بھتہ خوری کے خلاف درست اسٹینڈ لیاہے ہم نے اپنی آنکھوں سے بھتہ خوری دیکھی ہے میں حیات بلوچ کے والدین اور برمش کو سلام پیش کرتاہوں کہ جنہوں نے اتنے بڑے سانحات سہے اور ثابت قدم ہیں ۔
صوبائی وزیر خزانہ میر ظہوراحمد بلیدی نے کہاکہ تربت میں حیات بلوچ کے
قتل کو افسوسناک قراردیتے ہوئے کہاکہ جب واقعہ ہوا میں تربت میں موجود تھا اور فوراًً جائے وقوعہ پرپہنچا اور اس دوران
ایف سی کے اعلیٰ حکام بھی وہاں پہنچے اور تین گھنٹوں کے اندر واقعہ میں ملوث اہلکار پکڑا گیا
سوشل میڈیا پر جو تصویر وائرل ہوئی ہے اسے دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوتی ہیں یقینا پیش آنے والا دلخراش واقعہ افسوسناک ہے اور میراس گھرانے کے ساتھ ذاتی تعلق بھی ہے انہوں نے کہاکہ
ایف سی حکام نے ان کے والد سے ملاقات کی اورکہاکہ اگر متاثرہ خاندان مدعی نہیں بنتا تو
ایف سی خود واقعہ میں مدعی بنے گی ،واقعہ کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات ہورہی ہے اور
بلوچستان حکومت مشکل کی اس گھڑی میں متاثرہ خاندان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ یہاں بہت سے لوگوں کو معاملے کا علم نہیں ہے ملک ناز کے
قاتل پکڑے گئے ،کالعدم تنظیم کے لوگوں نے وزیر خان کے گھر پر دھاوا بولا تاہم کسی نے اس پر بات نہیں کی ،پروم میں بی این پی کے کارکن محمد انور کے گھر پر پیش آنے والے واقعہ میں کالعدم تنظیم کے لوگوں نے ان کے مہمانوں کو
قتل کیا اور بعدازاں محمد انور کو بھی
قتل کیا گیا مگر یہاں کوئی نہیں بولا ،اسی طرح دشت میں کالعدم تنظیم کے لوگ بچے کو اٹھا کر لے گئے اور بچے سمیت اس کی دادی کو
قتل کیاگیا مگر اس پر کوئی نہیں بولا ،عوام سے
ووٹ لیکر ایوان میں پہنچے ہیں اور عوام کے امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں ،تربت میں پیش آنے والے واقعہ کی مذمت کرتے ہیں ،تاہم ایک شخص کے انفرادی عمل یا جنونیت میں مبتلا شخص کے عمل کاالزام اپنے اداروں پر نہیں لگایاجاسکتا
دنیا کے دیگر ممالک میں مساجد ،گرجا گھروں میں جا کر جنونی افراد نے لوگوں کے ہاتھوں لوگ مارے گئے کیا وہاں بھی سیاسی جماعتوں نے واقعات پر سیاست کی اور لوگوں نے ریاست کو اس کا ذمہ دار قراردیاہے ،برمش کے والدہ کی
قتل میں ملوث ملزمان قانون کے کٹہرے میں ہے ہمیں ان معاملات کو انسانی ہمدردی کی نظر سے دیکھتے ہوئے ان کے سد باب کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔
بی این پی کے رکن
صوبائی اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے کہاکہ
بلوچستان میں جب ایک منتخب رکن
اسمبلی کی زندگی محفوظ نہیں تو عام لوگوں کی زندگی کیسے محفوظ ہوگی ،صوبائی وزیر نے حیات کے
قتل کو جنونیت کا نام دیکر واقعہ کو دبانے کی کوشش کی ہے 8گولیاں مارنے والا اہلکار جنونی نہیں ہوسکتااگر وہ جنونی تھا تواس کے ساتھ دیگر اہلکار بھی تھے جنہوں نے انہیں کیوں نہیں روکا ،انہوں نے کہاکہ ہمیں بلوچستانی ہونے کی سزا دی جارہی ہے 14اگست پر جلوس نکالنے سے کوئی محب الوطن نہیں ہوسکتا نہ ہمیں کسی سے محب الوطنی کی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے ۔
حیات بلوچ کے والد کے پیروں میں پیش کے چپل تھے ،حیات کے والد خوش نصیب ہے کہ انہیں اس کے بیٹے کی لاش ملی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں ،انہوں نے کہاکہ
تعلیم اور صحت کے دروازے بند کردئیے گئے ہیں خونی شاہراہوں پر حادثات رونما ہورہے ہیں گزشتہ روز مٹھڑی کے قریب پیش آنے والے حادثے میں 12افراد لقمہ اجل بنے ہمیں حقائق کا جائزہ لیکر صوبے کو بہتری کی طرف لے جانا چاہیے ۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن
صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ امن وامان کی صورتحال مخدوش ہیں ،حیات بلوچ کو جس طرح والدین کے سامنے سرعام دن دیہاڑے
قتل کیا گیا اس واقعہ کی پوری
دنیا میں مذمت ہوئی یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل ارمان لونی کوشہید کیا گیا چمن میں بے گناہ لوگوں کو
قتل کیا 26دن گزر گئے لیکن آج تک جوڈیشل کمیشن کا وعدہ پورا نہیں ہوا چمن میں
فائرنگ کی ایف آئی آر عوام کے خلاف درج کرلی گئی اور
فائرنگ کرنے والے آج بھی چمن قلعہ میں محفوظ بیٹھے ہوئے ہیں چمن کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہواہے وہاں کے لوگ پرانے طرز پر مسئلے کا حل چاہتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ قائد حزب اختلاف ملک سکندر نے بھتہ خوری کے حوالے سے تمام چیک پوسٹوں کی نشاندہی کی ہے گزشتہ دنوں میں ژوب وشیرانی کے دورے پر گیا تھا بلیلی چیک پوسٹ پر جس طرح لوگوں کی تذلیل جاری ہے وہ قابل مذمت ہے ہر چیک پوسٹ پر بھتہ وصول کیاجاتاہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں انہوں نے کہاکہ 14اگست ہماری آزادی کا دن لیکن جلوسوں میں اکثر جرائم پیشہ ،لینڈ مافیا کے لوگ قومی جھنڈے کو لیکر اپنے جرائم کوچھپانا چاہتے ہیں ،ادارے اس کا نوٹس لیں میر ذابد ریکی اس
اسمبلی کا رکن ہے جس طرح ایک نائب تحصیلدار اس پر
فائرنگ کرتاہے اگر جوابی
فائرنگ ہوتا تو کیا منظر ہوتا یہ تومعزز رکن نے صبر کامظاہرہ کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے ۔
انہوں نے کہاکہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں ہے ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرناہوگی اور اس پر بحث کرکے اس میں موجودہ خامیاں دور کرناہوگی
۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن
صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاکہ
بلوچستان کی موجودہ صورتحال مکالمہ اور بات چیت کا تقاضا کرتاہے حیات بلوچ کی شہادت پر آج نہ صرف
بلوچستان بلکہ
پاکستان سمیت
دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے ہورہے ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق سیاست سے نہیں بلکہ انہوں نے اس تکلیف کو محسوس کیاہے ہم بار بار امن وامان کی صورتحال کی بات کرتے آرہے ہیں
بلوچستان کا امن پٹڑی سے اترتا جارہاہے ہم نے
بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جاناہے تو پھر حکمرانوں کو بھی اپنی پالیسیاں تبدیل کرناہوںگی اس وقت
بلوچستان میں خوف وہراس کاماحول ہے یہ حکمران کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو تحفظ اور نوجوانوں کو
تعلیم وروزگار دیں وہ نوجوان جنہوں نے مستقبل میں جا کر اپنے ماںباپ کا سہارا بننا ہوتاہے مگر بوڑھے والدین کو نوجوان بیٹوں کی لاشیں دی جارہی ہے حیات بلوچ کی شہادت پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے چمن میں سانحہ پیش آیا تھا ہم نے اس پر بھی بات کی تھی معصوم برمش ماں سے محروم کردی گئی ہے ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب نوجوان جام شہادت نوش کررہے ہیں دوسری طرف بیماریوں اور
سڑک حادثات میں انسانی جانیں ضائع ہورہی ہے صوبے میں ایک بحران کی صورتحال نظرآرہی ہے نہ جانے یہ کیسا سلسلہ ہے چمن بارڈر سے شروع ہوکر
گوادر تک ختم ہونے میں نہیں آرہا جتنی چیک پوسٹیں ہیں اتنی
چین میں بھی نہیں ہوںگی ،یہ کسی حکومت کیلئے اچھی بات نہیں ہوتی کہ قدم قدم پر چیک پوسٹ ہوں یہ حکمرانوں کیلئے المیہ ہے کہ آج
دنیا بھر میں حیات بلوچ کیلئے
احتجاج ہورہاہے حکمران اس
احتجاج کو سمجھیں جو نوجوان
بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں آج وہ یونیورسٹی نہ جانے کی باتیں کررہے ہیں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کل یہ نوجوان کہاں ہوںگے اس کااندازہ سب کو ہیں صوبے میں ایک مرتبہ پھر 2002ء کی صورتحال بنتی جارہی ہے حکمرانوں کو اس صورتحال کو سمجھناہوگا ہمارا مقصد اسی حکومت یا ادارے کو تنقید کانشانہ بنانا نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ حالات ٹھیک ہوں ہم یہاں نوکری کرنے نہیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں اور ہمارا مقصد ان کی ترقی وخوشحالی ہے ۔
حیات بلوچ کی شہادت نہ صرف ایک اہلکار کی گرفتاری کافی نہیں بلکہ تمام چیزوں کو دیکھنا ہوگا انہوں نے کہاکہ ہم
بلوچستان کے مسائل پر بات کرناچاہتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ
بلوچستان میں دوبارہ عدم استحکام اور بدامنی پیداہوں ہم چاہتے ہیں کہ
بلوچستان کا ہر جگہ بہتر امیج جائیں یہاں قانون کی بالادستی ہو اس کیلئے ضروری ہے کہ چیک پوسٹیں ختم کی جائیں طاقت کے ذریعے
بلوچستان میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کیلئے محبت کا ایجنڈا لایاجائے ،تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر بات کریں اور آئندہ کسی بھی سانحہ سے بچنے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں ۔
جمعیت علماء اسلام کے رکن
صوبائی اسمبلی میر یونس عزیز زہری نے کہاکہ حیات بلوچ کی والدہ کے سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں چمن واقعہ میں پشتونوں کو
شہید کیا گیا
جمعیت علماء اسلام سب سے زیادہ دہشتگردی کے واقعات کاشکار رہی ہے ہمارے قائد پر 4حملے کئے گئے پھر بھی ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بارڈر کو کھولاجائے رکن
اسمبلی حاجی ذابد علی ریکی پر
حملہ انہیں طعش میں لاکر
قتل کرنے کامنصوبہ تھا ،واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائیں ،انہوں نے کہاکہ ذابد ریکی نے بھتے لینے سے انتظامیہ کو روکا اگر یہ جرم ہے تو بھتہ کو قانونی قرار دیکر اسے آئین کا حصہ بنایاجائے ۔
بلوچستان
اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈراصغرخان اچکزئی نے اگست میں ہونے والے متعدد واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ حیات بلوچ کے
قتل میں ملوث ملزم گرفتاری ایک بہت بڑی کامیابی ہے مگر یہاں مسئلہ ذہنیت کا ہے ایک واقعہ سے تحریکیں بنتی ہے
پی ٹی ایم نقیب اللہ محسود کے واقعہ سے بنا مگر کیا
رائو انوار کو وہ سزا ملی جس کا وہ مستحق ہیں ،چمن بارڈر کھول کر قانونی تجارت کی اجازت دینے کامطالبہ کیا تاہم چمن میں پیش آنے والے واقعہ سے ہمیں بہت بڑا
نقصان پہنچاہے دونوں جانب 50کے قریب افراد
شہید ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم صوبے میں لیویز اور
پولیس کی استعداد
کار میں اضافے کی بات کررہے ہیں صوبے کے تین اضلاع میں لیویز کو
پولیس میں ضم کرنے سے متعلق
عدالت عالیہ میں درخواست دی ہے جو زیر التواء ہے انہوں نے حاجی ذابد ریکی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کامطالبہ کیا اصغرخان اچکزئی نے کہاکہ ہم پر الزام لگایاجاتاہے کہ آیا بی اے پی جو ہم سے کئی گناہ زیادہ وفادار جماعت ہے وہ کیوں 14اگست کو نہیں نکلی
،ن لیگ جو ہم سے لاکھ گنا زیادہ وفادار جماعت ہے وہ اور ق لیگ جو اس وقت وفاقی حکومت میں شامل ہیں وہ کیوں نہیں نکلے انہوں نے کہاکہ
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قائم چیک پوسٹوں پر لوگوں سے بھتہ وصول کئے جانے کی شکایات آتی رہی ہیں اگر یہ پیسہ حکومت کے خزانے میں جاتا تو ہمیں کوئی شکوہ نہ ہوتا ۔
بی این پی کے رکن
اسمبلی احمد نواز بلوچ نے کہاکہ اگر ماضی کے واقعات کے خلاف کارروائی ہوتی توآج حیات بلوچ کاقتل نہ ہوتا اور ذابد ریکی کا واقعہ پیش نہ آتا ان واقعات کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن بنایاجائے ۔بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیرشاہوانی نے کہاکہ
بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کیلئے مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے صوبے میں ناانصافیوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اگر کسی شخص نے کوئی جرم کیاہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے نہ کہ انہیں
قتل کیاجائے رکن
صوبائی اسمبلی ذابد ریکی کے معاملے پر کمیٹی بنائی جائیں جو معاملے کی آزادانہ تحقیقات کریں ۔
صوبائی وزیر سردارعبدالرحمن کھیتران نے کہاکہ ہم حیات بلوچ کے والدین کے غم میں برابر کے شریک ہیں لیکن
بلوچستان میں صوبے کے بہت سے سپوتوں کو
پاکستان کی حمایت کرنے پر
قتل کیاگیا سیکورٹی فورسز دن رات ایک کرکے صوبے میں امن قائم کررہی ہے ان کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں ہونی چاہیے۔