حکومت الجھے معاملات کو اچھے طریقے سے سلجھائیں تا کہ ملک ترقی کر سکے،حافظ حسین احمد

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعہ 28 اگست 2020 18:11

حکومت الجھے معاملات کو اچھے طریقے سے سلجھائیں تا کہ ملک ترقی کر سکے،حافظ ..
جہلم (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 اگست2020ء،نمائندہ خصوصی،طارق مجید کھوکھر) جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان و سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ چوہددری شجاعت نے ”ان“ کے کہنے پر تین معاملات میں ثالثی کا کردار ادا کیا اور معاہدے کی تکمیل کے بعد ”انہوں“ نے اس سے انحراف کیا اس طرح چوہدری شجاعت کی ثالثی کے حوالے سے ہیٹ ٹرک مکمل ہوگئی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے صحافیوں سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے کیا حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کے لیے مشرف دور میں چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین نے کامیاب مذاکرات کرکے معاہدہ کرلیا تھا لیکن جنرل مشرف نے اس معاہدے کو اٹھا کر پھینک دیا جبکہ لال مسجد کے مسئلے پر بھی چوہدری شجاعت نے کردار ادا کیا اس کا بھی جنرل مشرف نے وہی حشر کیا، انہوں نے کہا کہ اب تیسری بار جے یو آئی کے آزادی مارچ کے حوالے سے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی نے ”ان“ کے ہی کہنے پر معاملات طے کئے لیکن اس معاہدے کا حشر بھی ماضی سے مختلف نہیں رہا، حافظ حسین احمد کا مزید کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ صوبہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں معاملات کو سلجھانے والے ٹھنڈے دل و دماغ کی شخصیات موجود ہیں لیکن جب بھی جس کسی کو بھی ثالثی کے لیے یا مذاکرات کے حوالے سے میدان میں اترا گیا چاہئے وہ قبائلی صورتحال کے حوالے سے ہو یا بلوچستان کے مخدوش حالات کے تناظر میں ہوں اس کے لیے کئی شخصیات نے ”ان“ کے کہنے پر مخلصانہ کوششیں کیں لیکن وہ اس لیے بارآور ثابت نہیں ہوئی کہ معاملات کو افہام و تفہیم کے بجائے کسی اور انداز میں طے کرنے کا فیصلہ کیا جاتا رہا، جے یو آئی کے ترجمان نے کہا کہ ان شخصیات کی طویل فہرست ہے اور اس بارے میں پارلیمنٹ، سینٹ، صوبائی حکومت، صوبائی اسمبلی اور حکومت میں آنے جانے والوں کا کردار اور کوشش کسی سے پوشیدہ نہیں، انہوں نے کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ گھمبیر معاملات کو الجھانے کے بجائے سلجھایا جائے اور اس اہم فریضہ کے لیے ریجال کار اور شخصیات جن میں سادات، علماء کرام، قبائلی عمائدین، وکلاء اور ملک و ملت کے کئی خیر خواہ ابھی بھی موجود ہیں تاکہ مستقبل میں اللہ نہ کرے اس قسم کے سانحات اور صورتحال کا قوم و ملک کو سامنا کرنا پڑے۔