رینٹل پاور رکیس :نیب کو ضمنی ریفررنس دائرکرنے کے لیے آخری موقع

ضمنی ریفرنس دائر نہ کرنے پر عدالت کا اظہاربرہمی‘سماعت 29ستمبر تک ملتوی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 2 ستمبر 2020 14:39

رینٹل پاور رکیس :نیب کو ضمنی ریفررنس دائرکرنے کے لیے آخری موقع
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔02 ستمبر ۔2020ء) احتساب عدالت نے ضمنی ریفرنس دائر نہ کرنے پر نیب کو آخری موقع دے دیا ہے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں کارکے رینٹل پاور ریفرنس پر سماعت ہوئی ‘قومی احتساب بیورو (نیب) کے ضمنی ریفرنس دائر نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اورضمنی ریفرنس دائر کرنے کے لیے نیب کو آخری موقع دیا.

عدالت نے حکم دیا کہ نیب آئندہ سماعت تک ضمنی ریفرنس دائر کرے نیب کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے تفتیشی افسر اصغر خان نے موقف اختیار کیا کہ کارکے رینٹل پاور کیس میں ضمنی ریفرنس دائر کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں وقت دیا جائے‘احتساب عدالت اسلام آباد نے ریفرنس کی مزید سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کر دی.

(جاری ہے)

خیال رہے کہ کارکے کارادینز کی جانب سے تیار کردہ 232 میگا واٹ کے حامل پاور پلانٹ کو حاصل کرنے کا یہ معاہدہ آصف علی زرداری کی حکومت نے کیا جس کے تحت پاکستان میں بجلی کے شدید بحران پر قابو پانا تھا اور رینٹل پاور پلانٹ لگا کر 1 ہزار 206 میگا واٹ بجلی حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تاہم 30 مارچ 2012 کو سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے پیپلز پارٹی کی توانائی پالیسی کے تحت رینٹل پاور پروجیکٹ کو غیر شفاف قرار دے کر نیب حکام کو ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دے دیا تھا.

اس ریفرنس میں سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف ‘سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی اور معروف بینکر حسین لوائی، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیاقت علی قائم خانی، کے ایم سی کے سابق ڈائریکٹرز نجم الزمان اور جمیل احمد، بزنس مین ڈاکٹر دنشا ہوشنگ انکل سریہ اور آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر کے بیٹے مصطفیٰ ذوالقرنین شامل ہیں یہ تمام ملزمان ضمانت پر ہیں.

جبکہ ایک ملزم انور بروہی نیب سے پلی بارگین کرکے کیس سے باہر ہوگئے تھے لکھرا پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر انور بروہی نے رینٹل پاور پراجیکٹ میں ساڑھے 8کروڑ روپے کی ادائیگی کی تھی. اس مقدمے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر اہم شخصیات نامزد ہیں جہاں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کراچی میں رینٹل پاور منصوبے کی تنصیب کے لیے ترک کمپنی کارکے کارادینز الیکٹرک یوریٹم کو غیرقانونی طور پر کنٹریکٹ ایوارڈ کیا کارکے کارادینز الیکٹرک یوریٹم ان 12 کمپنیوں میں سے ایک ہے جن سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سال 2009 میں ملک میں جاری توانائی کے بحران کے حل کے لیے معاہدہ کیا تھا.

ملک میں توانائی کے بحران کے لیے اس وقت کی حکومت کی رینٹل پاور پراجیکٹ پالیسی کے تحت اپریل 2011 میں ایک بحری جہاز کراچی پورٹ پر لایا گیا تھا تاکہ نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے البتہ یہ معاہدے کے تحت 231 میگا واٹ کی بجلی کی پیداوار میں ناکام رہا لیکن چارجز کی مد میں کمپنی کو پہلے ہی 90 لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کردی گئی تھی.

اس پلانٹ نے 41 روپے فی یونٹ کے حساب سے 30-55 میگاواٹ بجلی پیدا کی جو معاہدے کی سنگین خلاف ورزی تھی جس کے بعد حکومت نے کمپنی سے مطالبہ کیا کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزی پر 8 کروڑ سے 12 کروڑ ڈالر کی رقم واپس کرے نیب کے مطابق ترک کمپنی کے خلاف ریفرنس فائل کیے جانے کے بعد کمپنی نے پلی بارگین کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قومی احتساب بیورو کو ایک کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی رقم کی ادائیگی کے لیے تیار ہیں اور یہ معاملہ عالمی ثالثی عدالت میں نہ لے جایا جائے.

تاہم اس موقع پر چند سیاستدانوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس ڈیل کو منسوخ کرتے ہوئے ترک کمپنی سے مکمل 12 کروڑ ڈالر وصول کرنے کا حکم دیا تھا اس کے نتیجے میں ترک کمپنی نے 2013 میں سرمایہ کاری کے تنازعات کے حل کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے اپنے 80 کروڑ ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا جہاں ان کا موقف تھا کہ ان کے جہاز کو 16 ماہ تک کراچی پورٹ سے جانے کی اجازت نہیں دی گئی جس سے اسے بہت نقصان پہنچا لہٰذا انہیں رقم ادا کی جائے اور بعدازاں ترک کمپنی یہ مقدمہ جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی.