اب نہیں تو کب؟،موٹروے پر پیش آںے والے زیادتی کے واقعے نے سسٹم پر کئی سوالات اٹھا دئیے

محفوظ سفر کی علامت موٹروے خواتین کے لیے غیر محفوظ ہو گئی،پاکستان میں بچیوں سمیت خواتین بھی غیر محفوظ،واقعے کے بعد ادارے وقوع کی حدود پر لڑتے رہے،آخر زیادتی کے مجرمان کو کب سرعام پھانسی دی جائے گی

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعرات 10 ستمبر 2020 13:54

اب نہیں تو کب؟،موٹروے پر پیش آںے والے زیادتی کے واقعے نے سسٹم پر کئی ..
لاہور(اردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 10 ستمبر 2020ء) موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کے واقعے نے سب کے دل دہلا دئیے ہیں۔اگرچہ بچیوں سمیت خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے رہتے ہیں تاہم موٹروے پر کسی خاتون کے ساتھ زیادتی کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا منفرد اور پہلا واقعہ ہے۔خاتون کو لاہور کے علاقے گجرپورہ کے قریب اُس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب سفر کے دوران اُن کی گاڑی سے پٹرول ختم ہو گیا اور وہ کسی عزیز کا انتظار کرنے لگیں،اتنے میں دردندہ سفت ملزمان اچانک نمودار ہوئے اور سڑک پر کھڑی گاڑی کا شیشہ توڑ ڈالا۔

گاڑی میں خاتون اور اس کے بچے موجود تھے۔ ملزمان نے خاتون اور بچوں کو گاڑی سے نکالا اور موٹروے کی حفاظتی تار کاٹ کر انہیں قریبی جھاڑیوں میں لے گئے۔

(جاری ہے)

پھر اس کے بعد سفاک درندوں نے خاتون کو بچوں کے سامنے اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔

اور اس شرمناک فعل کے بعد گاڑی میں موجود ایک لاکھ روپے کی رقم بھی لے کر فرار ہو گئے۔

واقعے کے بعد پورے ملک میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔واقعے کے بعد ایک افسوسناک پہلو اُس وقت سامنے آیا جب ادارے وقوع کی حدود پر آپس میں لڑتے رہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون جس جگہ موجود ہیں وہ موٹروے پولیس کی حدود میں نہیں آتی۔ موٹروے پولیس کا کہنا تھا کہ جس علاقے میں خاتون کیساتھ افسوسناک واقعہ پیش آیا موٹروے پولیس کو تاحال اس علاقے کا کنٹرول نہیں دیا گیا،اس واقعے نے سسٹم پر بھی کئی سوالات اٹھا دئیے ہیں۔

اگرچہ ہر روز زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے لیکن حکومت میں موجود کچھ رہنما ہی زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت دینے کے مخالف نظر آتے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ جب تک زیادتی کے ملزمان کو سر عام پھانسی نہیں دی جاتی تب تک یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لیں گے۔لیکن اس واقعے نے تو سب کے رونگٹے کھڑے کر دئیے ہیں،موٹروے کو سب سے محفوظ سفر سمجھا جاتا ہے،جب کہ یہاں سفر کرنے والوں کے لیے ایک الگ محکمہ بھی بنایا گیا ہے،تاہم موٹروے پولیس بھی مسافروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

جس نے سسٹم اور ادارے کی کارگردگی پر کئی سوالات بھی اٹھا دئیے ہیں۔خواتین نے اس واقعے پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے پاس اس واقعے کی مذمت کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں،خواتین نہ گھروں میں محفوظ ہیں نہ بازاروں میں اور اپنی گاڑی میں سفر کرنے والی خواتین بھی غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔خواتین کا کہنا ہے کہ پہلے بھارت میں اس طرح کے واقعات پیش آتے تھے لیکن اب پاکستان میں بھی ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جہاں خواتین بلکل غیر محفوظ ہونے لگی ہیں۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر انسانی حقوق شریں مزاری نے کہا ہے کہ لاہور موٹروے پر ہولناک واقعے سے متعلق رپورٹ طلب کی ہے۔ایف آئی آر کی کاپی اور مقدمے میں پروگریس رپورٹ وزارت کے پاس ہے۔انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہولناک واقعے کی فوری طور پر رپورٹ طلب کر لی۔کئی سیاست دانوں،سماجی شخصیات سمیت سینئر صحافیوں نے بھی واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔

سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ یہ کیسا معاشرہ بن چکا ہے؟رات کوکسی خاتون کی گاڑی خراب ہو جائے اسکے ساتھ دو چھوٹے بچے بھی ہوں اور دو مرد اسکی مدد کرنے کی بجائے اسکے ساتھ زیادتی کر دیں تو اسکا مطلب ہے ہمارے اردگرد حیوانوں سے بھی بدتر لوگ موجود ہیں جنہیں قانون کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ قانون طاقتوروں کی لونڈی بن چکا۔
۔پولیس کا کہنا ہے کہ اہم ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں،48 گھنٹوں میں ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔جب کہ پاکستان کی عوام اس بات کی منتظر ہے کہ ملزمان کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں کیا سزا دی جاتی ہے۔