وزیراعظم نے زیادتی کے مجرم کو مردانہ صلاحیت سے محروم کرنے کی تجویز دیدی

سانحہ موٹروے نے پوری قوم کو ہلا دیا،بچوں کے سامنے جو ہوا اس سے صدمہ پہنچا ہے،زیادتی کر نے والوں کو سرعام پھانسی دینی چاہیے ، عمران خان نواز شریف واپس نہیں آئیںگے ، انہیں واپس لانے کیلئے پوری کوشش کرینگے ، فیٹف میں بلیک لسٹ ہوئے تو معیشت بیٹھ جائے گی، اپوزیشن نے سوچا فیفٹ میں یہ مان جائیگا میں کسی صورت بلیک میل نہیں ہو گا، بدقسمتی سے ہمارے اندر بھی کچھ لوگ ہیں جو وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں، چیلنج کرتا ہوں ہمارے وزیروں اور عثمان بزدار نے کرپشن نہیں کی،موجودہ آئی جی پرفارم کریں گے تو رہیں گے، کراچی کو ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے، کراچی کا مسئلہ اس وقت حل ہو گا جب الیکٹڈ مئیر اپنے شہر کو ایک ملک کی طرح چلائے گا،نہیں جانتا سندھ حکومت کی کیا پرابلم ہے،قائداعظم فلسطین کے ساتھ کھڑے تھے ہمیں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا،سردیوں میں کورونا وائرس کی نئی لہر آ سکتی ہے، ابھی ہمیں احتیاط کرنا ہوگی، لاک ڈائون کیلئے دبائو میں آجا تا تو پاکستان کا بیڑہ غر ق ہو جاتا، وزیر اعظم کا انٹرویو

پیر 14 ستمبر 2020 22:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 ستمبر2020ء) وزیراعظم عمران خان نے موٹروے پر زیادتی کے مجرم کو مردانہ صلاحیت سے محروم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے مجرموں کی سرجری کرکے ناکارہ بنا دینا چاہیے جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کیلئے نئے قانون کی ضرورت ہے،سرعام پھانسی دینی چاہیے، نواز شریف واپس نہیں آئیںگے ، انہیں واپس لانے کیلئے پوری کوشش کرینگے ، فیٹف میں بلیک لسٹ ہوئے تو معیشت بیٹھ جائے گی، اپوزیشن نے سوچا فیفٹ میں یہ مان جائیگا میں کسی صورت بلیک میل نہیں ہو گا، بدقسمتی سے ہمارے اندر بھی کچھ لوگ ہیں جو وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں، چیلنج کرتا ہوں ہمارے وزیروں اور عثمان بزدار نے کرپشن نہیں کی،موجودہ آئی جی پرفارم کریں گے تو رہیں گے، کراچی کو ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے، کراچی کا مسئلہ اس وقت حل ہو گا جب الیکٹڈ مئیر اپنے شہر کو ایک ملک کی طرح چلائے گا،نہیں جانتا سندھ حکومت کی کیا پرابلم ہے،قائداعظم فلسطین کے ساتھ کھڑے تھے ہمیں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا،سردیوں میں کورونا وائرس کی نئی لہر آ سکتی ہے، ابھی ہمیں احتیاط کرنا ہوگی، لاک ڈائون کیلئے دبائو میں آجا تا تو پاکستان کا بیڑہ غر ق ہو جاتا ۔

(جاری ہے)

نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویومیں وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان نے کورونا وائرس کے معاملے پر وہی غلطی کی جو پاکستان کی سیاسی جماعتیں مجھے کرنے کا کہہ رہی تھیں، جب کورونا وائرس شروع ہوا تو ابتدائی دو ماہ کے دورابن اپوزیشن مجھے مسلسل کہہ رہی تھی کہ ایک مکمل لاک ڈاؤن کرو جس طرح یورپ اور چین کے شہر ووہان میں تھا۔انہوں نے کہا کہ میرا یہ موقف تھا کہ ہمارا ایک برا طبقہ دیہاڑی دار ہے جو صبح کماتے ہیں تو ان کے گھر میں شام میں چولہا جلتا ہے جبکہ بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر کچھی آبادیاں ہیں لہٰذا میرا کہنا تھا کہ اگر ہم یورپ جیسا لاک ڈاؤن کرتے ہیں تو ان کا کیا ہو گا۔

انہوںنے کہاکہ ہماری اپوزیشن، پیسے والے، اکیڈمی اور میڈیا کے ادارے ہم پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ اگر مکمل لاک ڈاؤن نہ کیا یہ پھیل جائیگی تاہم نریندر مودی اس دباؤ میں آ گیا اور اس نے 4 گھنٹے کے نوٹس پر کرفیو لگا دیا۔عمران خان نے کہا کہ میرا اعتراض یہ تھا کہ جہاں اتنی غربت ہے کہ وہاں مکمل لاک ڈاؤن نہیں کر سکتے اور جب مودی نے مکمل لاک ڈاؤن کیا تو ایسا ممکن نہ ہو سکا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور ہوا یہ کہ کورونا پھیلتا رہا اور جیسے ہی انہوں ے لاک ڈاؤن میں نرمی کی تو وہ پورے ملک میں پھیل گیا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے بہت جلدی فیصلہ کیا کہ سخت لاک ڈاؤن نہیں کریں گے، ہم زراعت کھول دی، تعمیراتی صنعت کھول دی، پھر ہم نے ڈیٹا اکٹھا کر کے ہاٹ اسپاٹس دیکھے اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کرتے ہوئے ہاٹ اسپاٹس کو بند کرنے کی کوشش کی اور اس کی بدولت ہم قابو پانے میں کامیاب رہے۔کورونا وائرس پر بھارت سے تقابلی جائزے پر انہوں نے کہا کہ مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھارت میں جو غربت آئی ہے اس کی وجہ سے دنیا بھر میں بھارت کی معیشت کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔

انہوںنے کہاکہ اسی وجہ سے عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا ہماری تعریف کررہی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان سے سیکھو کیونکہ ہم دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ہیں جنہوں نے سب سے بہتر انداز میں کورونا کا مقابلہ کیا۔عمران خان نے اس موقع پر خبردار کیا کہ ہم کورونا پر کافی حد تک کامیابی سے قابو پا چکے ہیں تاہم سردیوں میں کورونا کی ایک اور شدید لہر آ سکتی ہے لہٰذا ابھی بھی ہمیں احتیاط کرنی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جدوجہد آپ کو دباؤ جھیلنا سکھاتی ہے جو ایک لیڈر کی سب سے بڑی صلاحیت ہوتی ہے اور اگر میں اپوزیشن کے دباؤ میں آجاتا تو آج ہمارا ہندوستان سے بھی برا حال ہوتا کیونکہ ہندوستان کے تو ہم سے بہتر معاشی حالات تھے۔انہوںنے کہاکہ اپوزیشن، میڈیا، دانشوروں اور چند ڈاکٹرز نے میرے خلاف جس طرح سے منظم مہم چلائی اور اگر میں ان کے دباؤ میں آجاتا تو پاکستان کو بیٹا غرق ہوجانا تھا کیونکہ ہماری معیشت بھی بیٹھ جاتی اور ہم وائرس پر بھی قابو نہیں پا رہے ہوتے اور لوگ کورونا سے مر رہے ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ میری 22سال کی سیاسی جدوجہد نے مجھے ان 2سالوں کیلئے تیار کیا کیونکہ اگر یہ جدوجہد نہ ہوتی تو میں ان دو سالوں کے دوران پڑنے والے دباؤ کو کبھی برداشت نہیں کر پاتا۔اپنی ٹیم کی کامیابیوں کے حوالے سے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ میری ٹیم کی سب سے پہلی کامیابی یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو ڈیفالت ہونے سے بچایا، ہمارے ذخائر ختم ہو چکے تھے، ہم اپنے بیرون ملک قرضوں کی ادائیگیاں کر نہیں سکتے تھے، ہمیں چاروں طرف سے دباؤ کا سامنا تھا اور وہ بڑا مشکل وقت تھا۔

انہوںنے کہاکہ ہمیں ڈر یہ تھا کہ اگر ہم اپنی رقم کی ادائیگیوں کے معاملے پر ڈیفالٹ کر جاتے تو براہ راست روپے پر اثر پڑنا تھا اور روپیہ جب گرتا ہے تو ساری چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں اور غربت بڑھ جاتی ہے جبکہ ملک میں کوئی سرمایہ کاری بھی نہیں کرتا۔وزیر اعظم نے کہا کہ دوسرا دباؤ یہ تھا کہ ساری اپوزیشن پہلے دن سے اکٹھی تھی اور پہلے دن سے کہا کہ حکومت ناکام ہو گئی، پہلے ملک کو کنگال کر کے چلے گئے اور پھر کہا کہ حکومت ناکام ہو گئی، ان کے ساتھ میڈیا کے کئی لوگ ملے ہوئے تھے اور افرا تفری مچائی ہوئی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کا ایک ایجنڈا ہے اور یہ نیشنل ڈیموکریٹک اپوزیشن نہیں ہے کیونکہ وہ تو عوام کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، ان صرف ایک ایجنڈا ہے کہ ان کے لیڈرز کی کرپشن بچانے کیلئے کسی طرح حکومت کو بلیک میل کریں کہ عمران خان پر اتنا پریشر پڑ جائے کہ جس طرح مشرف نے دو این آر دو دئیے تھے، اسی طرح میں بھی دے دوں کیونکہ مشرف نے وہ این آر او دباؤ میں ہی دئیے تھے۔

انہوکںنے کہاکہ پہلا این آر او مشرف نے نواز شریف کو دیا جس میں 10سال کا معاہدہ کیا تھا کہ تم باہر چلے جاؤ تو ہم تمہارے حدیبیہ پیپر مل کے کیسز بن کردیں گے اور دوسرا جب ججز کی تحریک میں دباؤ پڑا تو انہوں نے کونڈا لیزا رائس سے دستخط کرائے، آصف زرداری کو این آر او دیا اور اپنی کرسی بچانے کیلئے ان کے سارے کیسز معاف کیے۔وزیر اعظم نے تسلیم کیا کہ (ن )لیگ کی یہ تنقید درست ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جلدی جانا چاہیے تھا تاہم ہم اس وقت کوشش میں تھے کہ ہمیں نہ جانا پڑے، پہلے کوشش تھی کہ ہمیں دوستوں سے اتنا پیسہ مل جائے کہ ہمیں جانا ہی نہ پڑے تاہم ہم نے سمجھ لیا کہ یہ ہی بڑی بات ہے کہ انہوں نے ہمیں پیسہ دیا کیونکہ اس کی بدولت ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے جبکہ میں مانتا ہوں کہ ہمیں تجربہ بھی نہیں تھا کیونکہ ہم جتنا ہم توقع کر رہے تھے اتنا کوئی ملک بھی نہیں دیتا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ نیا پاکستان بنانا ایک پورا عمل ہے لیکن اپوزیشن نے پہلے دن سے صورتحال کا پورا فائدہ اٹھایا کیونکہ ان کا مفاد صرف بلیک میل کرنے میں تھا، انہوں نے ہمیں کورونا، ایف اے ٹی ایف، معیشت اور کشمیر پر بھی انہوں نے بلیک میل کیا اور سب کنٹینر پر چڑھ گئے۔انہوںنے کہاکہ جب مجرم ملک کی سیاست میں آ جائیں تو وہ ملک کے بجائے اپنی ذات کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور وہ دشمن سے زیادہ ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے زیادتی کے مجرم کو مردانہ صلاحیت سے محروم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ایسے مجرموں کی سرجری کرکے ناکارہ بنا دینا چاہیے تاکہ وہ کچھ کر ہی نہ سکیں۔انہوںنے کہاکہ سانحہ موٹروے نے پوری قوم کو ہلا دیا،بچوں کے سامنے جو ہوا اس سے صدمہ پہنچا ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ جنسی زیادتی کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینی چاہئے،جنسی زیادتی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔

وزیر اعظم نے کہاکہ ہم اقتدار میں آئے تو آئی جیز نے بریفنگ میں بتایا تھا کہ ملک میں جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کیلئے نئے قانون کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ مجھے بتایا گیا ہے سرعام لٹکانے سے متعلق عالمی دباؤ آئیگا، جب اس کے بارے میں گفتگو کی تو کہا گیا کہ یہ عالمی سطح پر قابل قبول نہیں ہوگا۔

بتایا گیا کہ یورپی یونین نے ہمیں جی ایس پی اسٹیٹس دیا ہے وہ متاثر ہوگا تاہم ان مجرموں کی آختہ کاری ہونی چاہیے، کیمیائی آختہ کاری تاکہ ظلم کے قابل نہ رہیں۔انھوں نے کہاکہ صرف پولیس کا معاملہ نہیں، گند پورے معاشرے میں پھیل چکا ہے، جیل سے رہا ہونے والوں کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی، معاشرے میں فحاشی کی وجہ سے فیملی سسٹم ٹوٹتے ہیں، جب فحاشی لائی جاتی ہے تو اس سے جنسی جرائم بڑھتے ہیں، ہمیں ہالی ووڈ کی بجائے اسلامی ڈراموں کو پروموٹ کرنا چاہیے۔

وزیر اعظم نے کہاکہ پنجاب کی پولیس اور بیوروکریسی سیاسی ہو چکی ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کرپٹ نہیں ہیں، وہ ایک بڑی مشکل حکومت کو چلا رہے ہیں، حمزہ شہباز نے چن چن کر اپنے تھانے دار لگوائے تھے، عثمان بزدار کی کم زوری ہے وہ میڈیا فیسنگ نہیں، وہ شہباز شریف کی طرح مشہوری پر کروڑوں خرچ نہیں کرتے، بد قسمتی سے ہمارے کچھ لوگ ہیں جو وزیر اعلیٰ بننے کے خواہش مند ہیں۔

عمران خان نے آئی جی پنجاب کے تبادلے پر کہا کہ پنجاب میں چیف ایگزیکٹو بھی بدلے ہیں، تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور آگے بھی ہوں گی، لاہور میں کئی جگہ پولیس قبضہ کروپ کے ساتھ ملی تھی، عوام نے یہ پوچھنا ہے کہ ہماری حفاظت ہو رہی ہے یا نہیں، عوام نے یہ نہیں پوچھنا کہ کتنے لوگوں کا تبادلہ کیا گیا۔وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ موجودہ آئی جی پرفارم کریں گے تو رہیں گے۔

ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ کسی نے یہ نہیں کہنا کہ شعیب دستگیر نے یہ نہیں کیا، انہوں نے عثمان بزدار اور عمران خان کو پکڑنا ہے۔ انہوںنے کہاکہ سی سی پی او پر بڑا شور ہوا۔ انہیں لانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ پولیس قبضہ گروپ کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ بدقسمتی سے ہمارے اندر بھی کچھ لوگ ہیں جو وزیراعلی بننا چاہتے ہیں، چیلنج کرتا ہوں ہمارے وزیروں اور عثمان بزدار نے کرپشن نہیں کی۔

انہوںنے کہاکہ عثمان بزدار شہباز کی طرح میڈیا پر پیسہ نہیں لگاتا۔انہوںنے کہاکہ نوازشریف واپس نہیں آئیں گے، نوازشریف کو واپس لانے کے لیے پوری کوشش کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ اپوزیشن نے ملک کو گنگال کیا اور پھر کہا کہ حکومت فیل ہو گئی۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فیٹف میں بلیک لسٹ ہوئے تو معیشت بیٹھ جائے گی۔ انہوںنے کہاکہ اپوزیشن نے سوچا فیفٹ میں یہ مان جائے گا مگر میں کسی صورت بلیک میل نہیں ہو گا۔

انہوںنے کہاکہ قائداعظم فلسطین کے ساتھ کھڑے تھے ہمیں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ ایک اور سوال پرانہوںنے کہاکہ کراچی کو ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے،کراچی صرف سندھ کا نہیں بلکہ پاکستان کا انجن آف گروتھ ہے۔ انہوںنے کہاکہ کراچی کا مسئلہ اس وقت حل ہو گا جب الیکٹڈ مئیر اپنے شہر کو ایک ملک کی طرح چلائے گا۔ نہیں جانتا کہ سندھ حکومت کی کیا پرابلم ہے۔

شہر قائد سے متعلق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے گزشتہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کو اسٹڈی کیا ہے، نیا لوکل گورنمنٹ سسٹم بہتر ہوگا جس سے ملک بدل جائے گا، کراچی کے لوگوں کے مردم شماری پر تحفظات درست ہیں، مردم شماری پر شک ٹھیک ہے تاہم یہ وقت نہیں، پہلے ہونا چاہیے تھا، اس وقت کراچی کی ضروریات کچھ اور ہیں۔انہوںنے کہاکہ کراچی صرف سندھ کا نہیں پورے پاکستان کا شہر ہے، پنجاب اور کے پی میں جو نیا سسٹم آ رہا ہے وہ بہت بہتر ہوگا، جب شہر کو ملک کی طرح چلایا جائے گا تب ہی بہتری ہوگی، میئر ملک کی طرح شہر چلائے گا تو کراچی کا مسئلہ حل ہوگا، نئے لوکل گورنمنٹ سسٹم میں برہ راست پیسہ گاؤں جائے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کراچی کے لیے ایک کمیٹی بنائی جس میں تمام اسٹیک ہولڈر ہیں، کمیٹی نے 3 سال میں تمام منصوبے پورے کرنے ہیں، کراچی کا اپنا سسٹم نہیں، کراچی کو ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے، وسائل سندھ کے پاس ہیں، نہیں جانتا سندھ حکومت کو وفاق سے مسائل کیا ہیں۔پاکستان میں مقبول ترک ڈرامے ارطغرل غازی پر بات کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ اس کو پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی ویلیوز بھی ہو اور سارا خاندان اسے اکھٹا بیٹھ کر دیکھ سکے۔