وزیراعظم کوئی بھی فیصلہ اکیلے نہیں کرتے،شبلی فراز

ممبران پارلیمنٹ جب منتخب ہوتے ہیں تو ان کا مخصوص وقت میں حلف لینا ضروری ہونا چاہیے الیکٹورل ڈائریکٹریٹ میں ابھی تک ایسی کوئی بندش نہیں، سینیٹ میں اسحاق ڈار نے ابھی تک حلف نہیں لیا، 60سے 90 دن سے قانون سازی کی بات ہو رہی ہے تاکہ جس حلقے سے بھی منتخب ہوئے ہیں اس حلقے کی عوام کو مایوس نہ ہوں ّ والدین اور سکول منتظمین سے درخواست ہے ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے کورونا کے بعد پہلے معاشی سرگرمیاں بحال ہوئیں اور اب تعلیمی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں آج کچھ ضروری ادویات کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے بھی کابینہ نے منظوری دی ہے

منگل 15 ستمبر 2020 19:49

وزیراعظم  کوئی بھی فیصلہ اکیلے نہیں کرتے،شبلی فراز
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 ستمبر2020ء) وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ سینیٹ میٹنگ میں ممبران پارلیمنٹ جب منتخب ہوتے ہیں تو ان کا مخصوص وقت میں حلف لینا ضروری ہونا چاہیے۔ الیکٹورل ڈائریکٹریٹ میں ابھی تک ایسی کوئی بندش نہیں۔ سینیٹ میں اسحاق ڈار نے ابھی تک حلف نہیں لیا۔ 60سے 90 دن سے قانون سازی کی بات ہو رہی ہے تاکہ جس حلقے سے بھی منتخب ہوئے ہیں اس حلقے کی عوام کو مایوس نہ ہوں۔

وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیاکو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسری اہم بات کابینہ میں زیربحث لائی گئی کہ اسلام آباد یا دیگر شہروں میں تعمیرات بے ہنگم ہو رہی ہیں۔ بعض شہروں کا ماسٹر پلان ہے ہی نہیں۔ حکومتیں ماسٹرپلان پر عمل درآمد کا درس دیتی ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان راوی کا افتتاح کر رہے ہیں جس کا ماسٹر پلان تیار ہو چکا ہے۔

انہوںنے کہا کہ جیل کا پراجیکٹ 2013میں شروع ہوا۔ فنڈز اور ٹیکنیکل ایشوز پر یہ تعطل کا شکار ہوا تاہم سینیٹ میٹنگ میں اس پر مفصل قسم کی بحث ہوئی۔ وزیراطلاعات نے کہا کہ کوئی بھی فیصلہ وزیراعظم اکیلے نہیں کرتے۔ اس ایک ایشو پر 30منٹ بحث ہوئی اور ایک ایک رکن سے سے اس پر رائے لی گئی۔یہ منصوبہ گرین ایریا پر شروع کیا گیا ۔ پی ٹی آئی گورنمنٹ کا بنیادی فلسفہ ہے کہ گرین پاکستان بنانا ہے۔

اب اس میں تھوڑا بہت کام ہو چکا ہے۔کابینہ نے اس پر فیصلہ کیا کہ ہم نے گرین ایریاز کو بحال کرناہے۔ 90ایکٹر کے قریب اراضی واگزار کروانی ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں پہلا جو ناجائز تعمیرات ہیں و ہ گرانا ہے اور دوسرا اس معاملے میں اجازت نامے دینے والے سرکاری ملازمین کے خلاف کاروائی کرنی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیل ہماری ضرورت ہے۔ ابھی ملزموں کو پنڈی سے لے جایا جاتا ہے۔

جیل بنے گی ضرور مگر اس کیلئے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کی مشاورت سے علیحدہ جگہ مختص کی جائیگی۔ 7سال ہوچکے ، یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ اس کیلئے متبادل جگہ تلاش کی جائے اور اس پر فوری کام شروع کیا جائے۔ آج سے 25لاکھ بچے دوبارہ سکولوں میں جانا شروع ہو گئے ہیں۔ کرونا کے سبب ان کا وقت ضائع ہو رہا تھا۔ ہماری والدین اور سکول منتظمین سے درخواست ہے کہ ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ ہم نے دیکھا کہ کورونا کے بعد پہلے معاشی سرگرمیاں بحال ہوئیں اور اب تعلیمی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں۔ آج کچھ ضروری ادویات کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے بھی کابینہ نے منظوری دی ہے۔