کورونا کی وباء دیار غیر میں مطمئن زندگی گزارنے والے پاکستانی بزنس مین کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی

پاکستانی تارک وطن محمد ابوبکر شریف کے والد نے 1989ء میں ابوظہبی میں ایک ریستوران کھولا، کورونا نے سب کچھ اجاڑ کے رکھ دیا، 32 سال کا عرصہ متحدہ عرب امارات میں گزارنے والا محمد ابوبکر ٹوٹے دل سے کنبے سمیت پاکستان لوٹ آیا

Kamran Haider Ashar کامران حیدر اشعر اتوار 20 ستمبر 2020 03:22

کورونا کی وباء دیار غیر میں مطمئن زندگی گزارنے والے پاکستانی بزنس مین ..
ابوظہبی (اردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20 ستمبر 2020ء) کورونا کی وباء دیار غیر میں مطمئن زندگی گزارنے والے پاکستانی بزنس مین کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔ پاکستانی تارک وطن محمد ابوبکر شریف کے والد نے 1989ء میں ابوظہبی میں ایک ریستوران کھولا، کورونا نے سب کچھ اجاڑ کے رکھ دیا، 32 سال کا عرصہ متحدہ عرب امارات میں گزارنے والا محمد ابوبکر ٹوٹے دل سے کنبے سمیت پاکستان لوٹ آیا۔

تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس نے دنیا بھر میں اپنے مضر اثرات چھوڑے ہیں۔ تقریباََ ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے اس وباء سے متاثر ہوا ہے۔ کسی نے اپنے پیارے کھو دیے تو کسی سے اپنے پیاروں کے لیے روزی کمانے کا واحد ذریعہ چھن گیا۔ جن کی نوکریاں محفوظ ہیں ان کی تنخواہیں کم کر دی گئیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو نوکریوں سے ہی ہاتھ دھونا پڑا ہے۔

(جاری ہے)

کاروبارِ زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے، تقریباََ ہر شعبہ ہائے زندگی پر اس وباء نے گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ اسی وباء کا شکار پاکستانی تارک وطن محمد ابوبکر شریف بھی ہوا ہے جس سے کورونا نے سب کچھ چھین لیا ہے۔ خلیج ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی تارک وطن محمد ابوبکر شریف جوکہ اپنے کنبے کے ہمراہ ابوظہبی میں ایک مطمئن زندگی بسر کر رہا تھا، کورونا وباء نے اس سے سب کچھ چھین لیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق محمد ابوبکر شریف کے والد نے آج سے 32 سال قبل ابوظہبی ہمدان اسٹریٹ میں الحبیب نام سے ایک ریستوران کھولا۔ محمد ابوبکر ابوظہبی میں ہی پیدا ہوا، وہیں پلا بڑا اور جوان ہو کر اسی ریستوران کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔ خلیج ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے محمد ابوبکر شریف کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ان کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سب کچھ ٹھیک سے چل رہا تھا اور کورونا کی عالمی وباء سے قبل تک کھانے کے آرڈرز بھی باقاعدگی سے آ رہے تھے۔ 
 
ابوبکر نے بتایا کہ جب کورونا وائرس کا شور اٹھا تو ہر چیز ایک دم سے جام ہو گئی، کاروبار چلانا ان کے لیے دن بدن مشکل ہوتا چلا گیا، کھانے کے جو آرڈرز ملے تھے وہ سب کے سب کینسل ہو گئے۔ ابوبکر شریف نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ان تمام مسائل سے نمٹنے میں ان 1 ملین درہم چلے گئے اور ساتھ میں ریستوران بھی چلا گیا، کیونکہ وہ مزید اس کا کرایہ بھرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ریستوران میں کام کرنے والے عملے کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے بچے نہ یوٹیلٹی بلز ادا کرنے کو کچھ بچا، یہاں تک کہ کرائے کے گھر میں رہنے کے لیے بھی ان کے پاس رقم باقی نہ بچی۔ ان نامساعد حالات نے محمد ابوبکر شریف کو مجبور کر دیا کہ وہ سب کچھ بند کر کے اہل خانہ کو لے کر اپنے آبائی وطن کی راہ لیں۔ پاکستان واپس آتے ہوئے ابوبکر شریف کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی تمام زندگی اس ریستوران میں وقف کی، متحدہ عرب امارات گزشتہ 32 سالوں سے ان کا دوسرا ملک تھا، لیکن کورونا کی وباء نے ان کے پاس امارات کو چھوڑنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ انہوں نے امارات میں واپس آکر دوبارہ بزنس شروع کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔