ؒاسلامی قوانین اور سزاؤں کے نفاذ سے خواتین اوربچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا سد باب کیا جا سکتا ہی: زر افشاںفرحین

ّمعاشرے میں بچوں وخواتین کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات تشویشناک اور تکلیف دہ ہیں = اسلام واحد مذہب ہے جس نے 14 سو سال پہلے خواتین اور بچوں سمیت معاشرے کے ہر فرد کے حقوق وفرائض متعین کرنے کے ساتھ ساتھ طرز حکمرانی بھی وضع کردیا، مجرموں پر اسلامی سزاؤں کو نافذ کیا جائے توان جرائم و برائیوں کو تیز ی سے ختم اور کم کیا جا سکتا ہے : فورم سے ایڈووکیٹ نور آغا اور دیگر کا خطاب

اتوار 20 ستمبر 2020 19:10

۲ لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 ستمبر2020ء) الخدمت فاؤنڈیشن وومن ونگ ٹرسٹ پاکستان کی جنرل مینجر زر افشاںفرحین نے کہا ہے کہ اسلامی قوانین اور سزاؤں کے نفاذ سے خواتین اوربچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام واحد مذہب ہے جس نے 14 سو سال پہلے خواتین اور بچوں سمیت معاشرے کے ہر فرد کے حقوق وفرائض متعین کرنے کے ساتھ ساتھ طرز حکمرانی بھی وضع کردیا لیکن مسلم معاشروں نے ان قوانین اور سنہری اصولوں کو پس پشت ڈال دیا- وہ الخدمت فاؤنڈیشن خواتین ونگ ٹرسٹ پاکستان کے زیر اہتمام ’’خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ، اسباب و سدباب ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ فورم میں اظہار خیال کر رہی تھیں۔

فورم میں شوبزسے گل رعنا ، خواجہ سراکامی ، سائیکلوجسٹ پروفیسر انیلہ عمیر ، ایڈووکیٹ نور آغا، چیئرپرسن الخدمت خواتین ونگ ٹرسٹ نویدہ انیس ، صائمہ سعدودیگر نے شرکت کی- زرافشاں فرحین نے کہا کہ معاشرے میں بچوں وخواتین کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات تشویشناک اور تکلیف دہ ہیں۔

(جاری ہے)

اسلامی معاشروں میں ایسے واقعات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنی اقدار کو کھو دیا ہی- ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کرے تاکہ معاشرے سے ظلم و زیادتی اور چوری اور ڈکیتی کے واقعات کاقلع قمع کیا جا سکے۔

رعنا گل نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں پرامن وباعزت زندگی گزارنے کے لئے سنہری اصول اورقوانین وضع کئے ہیں۔ ہم نے ان اقدار کو کھو دیا ہے۔ نویدہ انیس نے کہا کہ مغرب کی مادر پدر آزادتہذیب اور بھارتی فلموں و ڈراموں نے ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں جس کی وجہ ریاست اور والدین کی بے حسی ہے جو اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دے رہی۔

خواجہ سرا کامی نے کہا کہ خواجہ سرا بھی اس معاشرے کا اہم حصہ ہیں لیکن ان کو زندگی بھر انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتاہے اور ہر گلی محلے میں انہیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں تیسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے جس کے باعث وہ ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔ سائیکلوجسٹ پروفیسر انیلہ عمیر نے کہا کہ نفسیاتی طور پر دباؤ، احساس کمتری اور مغرب کی مصنوعی چمک دھمک و آزادی بھی ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے ذہن پر گہری اثرات مرتب کرتی ہے۔

ہمیں معاشرے کی ناہمواریوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان مسائل پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ ایڈووکیٹ نور آغا و دیگر نے کہا کہ انصاف کا حصول سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ریپسٹ اور قاتل اپنے اثر و رسوخ اور دولت کے زور پر بری ہو جاتے اور دوبارہ ان جرائم کے ارتکاب میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اگر ان مجرموں پر اسلامی سزاؤں کو نافذ کیا جائے توان جرائم و برائیوں کو تیز ی سے ختم اور کم کیا جا سکتا ہے۔