چین کی طرف سے ناقابل اعتبار فہرست میں شامل کئے جانے کے خدشات ، برطانیہ کے سب سے بڑے بینک ایچ ایس بی سی کے حصص کی فروخت 25 سال کی کم ترین سطح پر آگئی

پیر 21 ستمبر 2020 13:44

ہانگ کانگ ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 ستمبر2020ء) چین کی طرف سے ناقابل اعتبار فہرست میں شامل کئے جانے کے خدشات کے نتیجہ میں برطانیہ کے سب سے بڑے بینک ایچ ایس بی سی کے حصص کی فروخت گذشتہ 25 سال کی کم ترین سطح پر آگئی۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اور برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹس کے مطابق مالیاتی جرائم کی تحقیقات کرنے والے امریکی ادارے فن سین سے لیک ہونے والی دستاویزات سے علم ہوا ہے کہ ایچ ایس بی سی نے دھوکے بازوں کی دھوکہ دہی کا علم ہونے کے باوجود انھیں کروڑوں ڈالر دنیا بھر میں منتقل کرنے کی اجازت دی۔

ایچ ایس بی سی نے اپنے امریکی کاروبار کے ذریعے یہ رقم 2013 اور 2014 میں ہانگ کانگ میں ایچ ایس بی سی کے اکاؤنٹس میں منتقل کی، ممکنہ چینی اقدام کے نتیجہ میں بنک کے اکائونٹ ہولڈرز کو چین اور ہانگ کانگ میں اپنے لین دین اور دیگر بزنس سرگرمیوں میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

(جاری ہے)

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس نے امریکی سرکاری دستاویزات کے حوالے سے بتایا کہ بینک نے گذشتہ دو عشروں کے دوران طاقتور اور خطرناک پارٹیوں سے منافع کمایا۔

امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی اور کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے اثرات کے نتیجہ میں چھ ماہ کے دوران ایچ ایس بی سی کے منافع میں 69 فیصد اور اس کے حصص کی قیمت آدھی ہوچکی ہے۔ ایچ ایس بی سی کی طرف سے ہانگ کانگ بارے چین کے نیشنل سکیورٹی لا کی حمایت بھی کی گئی جس کے نتیجہ من اسے امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔

ایچ ایس بی سی کا چین اور مغربی دنیا کے درمیان مالیاتی لین دین میں اہم کردار ہے۔ ایچ ایس بی سی بارے لیک ہونے والی فن سین فائلز کہلانے والی یہ دستاویزات درحقیقت مشتبہ سرگرمیوں کی رپورٹس (ایس اے آر) پر مبنی ہیں جو بینکوں کی اندرونی دستاویزات ہوتی ہیں۔ان دستاویزات میں پونزی سکیم کے ذریعے اس آٹھ کروڑ ڈالر کے فراڈ میں اس بینک کا کردار سامنے آیا ہے۔

ادھر ایچ ایس بی سی کا کہنا ہے کہ اس نے ہمیشہ ایسی سرگرمیوں کی رپورٹ کرنے میں اپنی قانونی ذمہ داری پوری کی ہے۔ ان فائلوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرمایہ کاری کا یہ فراڈ بینک پر امریکہ میں منی لانڈرنگ کی وجہ سے ایک اعشاریہ نو ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہونے کے بعد شروع ہوا تھا۔ دھوکے کے شکار ہونے والے سرمایہ کاروں کے وکلا کا کہنا ہے کہ بینک کو فراڈیوں کے اکاؤنٹس بند کرنے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرنے چاہیے تھے۔

لیک دستاویزات میں مزید کئی انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ان سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ امریکہ کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک بینک نے ایک بدنامِ زمانہ مجرم کو ایک ارب ڈالر سے زائد رقم منتقل کرنے میں مدد کی۔ فن سین فائلز 2657 لیک شدہ دستاویزات ہیں جن میں 2100 دستاویزات مشتبہ سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹس (ایس اے آر) ہیں۔ بینک یہ رپورٹس حکام کو اس وقت بھیجتے ہیں جب انھیں یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے صارف کچھ غلط کر رہے ہیں۔

قانون کے تحت بینکوں کے علم میں ہونا چاہیے کہ ان کے کلائنٹس کون ہیں، صرف ایس اے آر فائل کرتے رہنا اور کلائنٹس سے جرائم کا پیسہ لیتے رہنا کافی نہیں ہے کیونکہ اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ امید باندھ لی جاتی ہے کہ وہ مسئلے سے خود ہی نمٹ لیں گے۔اگر بینکوں کے پاس مجرمانہ سرگرمی کا ثبوت ہو تو انھیں رقم کی منتقلی کو روکنا ہوتا ہے۔

لیک دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ کیسے دنیا کے سب سے بڑے بینکوں کے ذریعے کالا دھن سفید کیا گیا اور کیسے مجرموں نے گمنام برطانوی کمپنیوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا پیسہ چھپایا۔ یہ ایس اے آر دستاویزات میڈیا ادارے بزفیڈ کی ویب سائٹ کو لیک کی گئیں اور ان کا تبادلہ تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جی) کے ساتھ کیا گیا۔لیک ہونے والی یہ رپورٹس سنہ 2000 سے 2017 کے درمیان امریکہ کے فنانشل کرائمز انویسٹیگیشن نیٹ ورک یا فن سین کو جمع کروائی گئی تھیں اور ان میں تقریباً 20 کھرب ڈالر کی لین دین کا احاطہ کیا گیا ہے۔