’’وارث‘‘ ڈرامہ ٹی وی کی تاریخ میں پہلا سیریل تھا جس میں دیہی زندگی کو موضوع بنایا گیا،امجد اسلام امجد

پیر 21 ستمبر 2020 22:04

’’وارث‘‘ ڈرامہ ٹی وی کی تاریخ میں پہلا سیریل تھا جس میں دیہی زندگی ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 ستمبر2020ء) ’’وارث‘‘ ڈرامہ ٹی وی کی تاریخ میں پہلا سیریل تھا جس میں دیہی زندگی کو موضوع بنایا گیا اور اسے غیر معمولی شہرت ملی اور یہ ڈرامہ میری شناخت بھی بنا۔ ان خیالات کا اظہار شاعر اور ادیب امجد اسلام امجد نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب ’’اہل قلم سے ملیے‘‘ میں کیا۔

وہ اس تقریب میں مہمان تھے۔ چیئرمین اکادمی ڈاکٹر یوسف خشک نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب میں امجد اسلام امجد کے عزیز و اقارب اور دیگر اہل قلم نے ان کی فنی زندگی اور شخصیت کے حوالے سے گفتگو اور سوالات کئے۔ پروگرام میں پروفیسر انور مسعود، پروفیسر فتح محمد ملک، پروفیسر جلیل عالی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، علی اکبر عباس، حسن عبا س رضا، سلمان باسط، محمد حمید شاہد، راحت سرحدی، ڈاکٹر شیر علی، حاکم علی بڑرو، ڈاکٹر منظور ویسریو، افشاں عباسی، جہانگیر عمران، ڈاکٹر راشد متین، عبدالقادر تاباں، محبوب ظفر، رخسانہ صولت کے علاوہ ان کے مداحوں اور عزیز و اقارب نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

امجد اسلام امجد نے کہا کہ بچپن ہی سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔ ساتویں جماعت میں ستر اسی صفحات پر مشتمل ایک ڈرامہ تحریرکیا، اس کوشش کو استاد نے بہت سراہا۔ اسی زمانے میں سکول کے رسالے ’’نشان منزل‘‘ کا ایڈیٹر مقرر ہوا۔ فرسٹ ایئر سے شاعری کی ابتداء ہوئی اور ’’قندیل‘‘ اور ’’چٹان‘‘ جیسے پرچوں میں ان کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اسی زمانے سے نثر بھی لکھنی شروع کی اور چار پانچ سال تک ڈارمے اور مزاحیہ مضامین چھپتے رہے۔

یونیورسٹی میں آنے کے بعد ادبی سوسائٹی کا چیئرمین بنا اور یونیورسٹی کے میگزین ’’محور‘‘ کا چیف ایڈیٹر بھی بنا دیا گیا۔ حلقہ ارباب ذوق سے بھی وابستگی رہی جہاں بہت سے اہم لکھنے والوں سے نیازمندی کا سلسلہ رہا۔ 1974ء سے ڈرامہ سیریز لکھنے کا آغاز کیا۔ ڈراموں پر 16 بار گریجویٹ ایوارڈ ملا۔ 2000 کے بعد معذرت کی کہ آئندہ مجھے ایوارڈ نہ دیا جائے۔

ڈرامہ "وارث" کی مقبولیت کے بعد 1979ء اس کو چینی زبان میں بھی ڈب کیا گیا۔ "ایک حقیت ایک افسانہ" نام کی سیریز کے لئے بھی ڈرامے لکھے جن کی بہت پذیرائی ہوئی۔ "برزخ" کے نام سے نظموں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا۔ ادبی خدمات کے سلسلے میں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اب تک شاعری کے 16 مجموعے، 8 کلیات و انتخاب اور 4 گیتوں پر مشتمل مجموعے شائع ہوئے۔ تراجم پر مشتمل 3 کتابیں، کالم نگاری اور ڈراموں کی کتابوں کی تعداد 15 ہے۔

اس کے علاوہ 6 سفرنامے شائع ہوئے۔ ٹی وی پر نشر ہونے والی سیریل کی 9 کتابیں شائع ہوئیں۔ کچھ کتابیں زیر طبع ہیں۔ تنقید و تدوین پر مشتمل 7 کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹر یوسف خشک نے کہا کہ امجد اسلام امجد اس عہد کے اہم لکھنے والے ہیں جنہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی شاعری، نظمیں، گیت، ڈرامے، تراجم اور سفر نامے ہمارے ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

وہ بطور شاعر، ڈرامہ نگار، سفرنامہ نگار، کالم نگار اور مترجم پاکستان اور پاکستان سے باہر یکساں طور پر مقبول ہیں۔ موجودہ دور میں بہت کم ایسے شعرائ ہوں گے جنہوں نے شاعری کے ذریعے خاص وعام میں مقبولیت حاصل کی اور ڈرامے کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ انہیں ملکی اور غیر ملکی اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کی تخلیقات کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔

وہ بیرونی دنیا میں پاکستان کی پہچان ہیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے کہا کہ امجد اسلام امجد صرف شاعری اور ڈرامہ نگاری نہیں کی بلکہ کلاسیکی اردو شعرا پر تنقیدی مقالات لکھے اوران کی شاعری انتخاب کیا۔ امجد گہرا تنقیدی شعور رکھنے والے ادیب ہیں اور وہ سچ اور دیانتدار ی سے رائے دیتے ہیں۔ پروفیسرانورمسعود نے کہا کہ امجد اسلام امجد 70 کی دہائی میں ابھرنے والے وہ ممتاز شاعر ہیں جس نے لسانی تشکیل کے ہنگامے میں اپنی سلامتی طبع کو قائم رکھا۔ امجد کی شاعری میں روایت کے بہترین عناصر کا تخلیقی روایت دکھائی دیتا ہے۔