Live Updates

سپریم کورٹ میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق درخواستوں پر سماعت، تمام فریقین کے وکلاء کو تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم ،

اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کردیا گیا

بدھ 23 ستمبر 2020 17:33

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 ستمبر2020ء) سپریم کورٹ نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تمام فریقین کے وکلاء کو تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیدیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر طلب کر لیا ہے۔

بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ (ن) کے دانیال عزیز سمیت دیگر کی جانب سے دائر پانچ درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما وسیم اختر، مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال اور پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت الله بابر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

دوران سماعت ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف اپنایا کہ ہماری درخواست کا اصل مقصد صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات کے حوالے سے ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ عمرانہ ٹوانہ کیس میں بلدیاتی اختیارات کے حوالے سے آرٹیکل 140 کی تفصیل دی گئی ہے، مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی پسند نہیں بلکہ لازمی ہے۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جو حکومت میں ہو تو اختیارات دینے کو دل نہیں کرتا، حکومت میں نہ ہوں تو یہ اختیارات منتقلی کی بات کرتے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں لوگ سڑکوں پر مر رہے تھے، گھروں میں پانی داخل ہو چکا تھا، سڑکوں پر پانی کھڑا تھا لیکن عملہ کہیں نظر نہیں آیا، کاغذوں میں عملہ ہے لیکن موقع پر دکھائی نہیں دیتا، اس کا مطلب ہے گھوسٹ ملازمین ہیں اور اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں کھائے جا رہے ہیں،ہم نے وہ دور دیکھا ہے جب رات کو تین بجے کام شروع ہو جاتا تھا سڑکیں دھوئی جاتی تھیں، کہاں گئے وہ لوگ ہم قانون سازی میں آپ کی مدد کر دیتے ہیں لیکن اس کا حاصل حصول کیا ہو گا یہ درخواست اختیارات کے حصول یا دکھاوے کے لئے دی گئی ہے۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ایم کیو ایم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ بلدیات کو کام کے لئے پولیس کے اختیارات بھی دے دیے جائیں عدالت قانون سازی کے لیے گائیڈ لائنز دے سکتی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ سندھ میں کونسے اختیارات مقامی حکومتوں کے پاس ہیں جس پر ایم کیو ایم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ صورتحال میں کونسلر کا اختیار چیف منسٹر کو دے دیا گیا ہے، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا اختیار ناظم سے لے کر سندھ حکومت کو دیاگیا ہے، سالڈویسٹ مینجمنٹ کا اختیار بھی بلدیات سے سندھ حکومت نے واپس لیا،دنیا بھر میں ٹاون پلیننگ کنٹرول بلدیاتی حکومتوں کا کام ہے،شہری مسائل کا اختیار کونسلر کے پاس ہونا چاہیے،میرے گھر کے سامنے گٹر ابل رہا ہو تو کونسلر کے پاس جا سکتا ہوں لیکن چیف منسٹر تک رسائی نہیں۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کراچی کی بلدیاتی حکومت خود فنڈز جنریٹ کر سکتی ہی کیا صوبائی اسمبلی میں ایم کیو ایم نے قانون سازی کے وقت آواز اٹھائی تھی جس پر ایم کیو ایم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں ضلع ٹیکس ختم کردیا گیا، صوبائی فنانس کمیشن کے ذریعے بلدیاتی حکومتوں کو ادائیگی ہوتی ہے، ایم کیو ایم کی اسمبلی میں تعداد کم تھی جس کی وجہ سے ہماری بات نہیں سنی گئی۔

دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ سارا کھیل طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ہے،کیا گارنٹی ہے مقامی حکومتیں اختیارات ملنے پر کام کرائیں گی، مکمن ہے بلدیاتی حکومتیں زیادہ کام خراب کر دیں،کراچی کو جو بھی نظام دیا گیا، اس کے کوئی اچھے نتائج نہیں نکلے، اختیارات کی بات کرنی ہے تو زمہ داری اور احتساب کی بھی کرنا ہو گی،ادارے الگ الگ ہونا اصل مسئلہ نہیں، ان میں رابطے کی کمی اصل مسئلہ ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اختیارات کے ساتھ احتساب کی بات بھی ہوگی، کراچی اسلام آباد کی نسبت ایک بڑا شہر ہے، اسلام آباد میں بھی اداروں کے درمیان اختیارات کا ٹکراو رہتا ہے،اسلام آباد میں اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے،جب تک قانون سازی نہیں ہوگی اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہوگی۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ایم کیو ایم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ مقامی حکومت آپکی تھی آپ نے اپنے دور میں کیا کیا لوگ ڈوب کر مر رہے تھے، گھر گر رہے تھے، بلدیاتی حکومت کہاں تھی کے ایم سی کے بیس ہزار ملازمین تنخواہیں لیتے ہیں، سڑکوں پر کیوں نہیں نظر آئی جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سندھ کا بلدیاتی قانون نہ تین میں ہے نہ 13 میں، شہریوں کا مفاد دیکھ کر قانون سازی ہونی چاہئے۔

دوران سماعت وکیل ایم کیو ایم نے مؤقف اپنایا کہ سندھ کا موجودہ نظام بنایا ہی فیل ہونے کے لیے گیا ہے،سندھ بلدیاتی قانون کی شق 74 اور 75 آئین سے متصادم ہیں،شق 74 کے تحت صوبائی حکومت جو اختیار چاہے بلدیات سے واپس لے سکتی ہے، چیف جسٹس گلزار احمد نے ایم کیو ایم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آئندہ دو ہفتے بنچ دستیاب نہیں ہوگا، اپنے دلائل کو قانونی نقاط تک محدود کریں۔

عدالت عظمیٰ نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر تے ہوئے تمام فریقین کے وکلا کو تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دے دیدیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر طلب کر لیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بلدیاتی اختیارات سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواست پر سندھ حکومت کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ پچھلے بارہ سالوں سے پیپلز پارٹی نے سندھ میں اختیارات سلب کر رکھے ہیں، ہم نے بلدیاتی اختیارات سے متعلق اپنا کیس عدالت عظمی کے معزز ججز صاحبان کے سامنے رکھا ہے، ہمارے بعد اور جماعتیں بھی اس کیس میں شامل ہوگئی ہیں، ہمارا مقصد ہے کہ بلدیاتی نظام مضبوط ہو،کسی بھی ملک کی بلدیاتی حکومت سب سے اہم ہوتی ہے، آرٹیکل 184 اے کو تحفظ ملنا چاہیے،ملک میں بلدیاتی نظام کو مضبوط کیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ بلدیاتی اختیارات سے متعلق ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست کی سماعت پر سپریم کورٹ کا شکرگزار ہوں، اس درخواست پر فیصلہ آیا تو پورے ملک کا فائدہ ہوگا۔اس موقع پر مسلم لیگ (ن ) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پنجاب کے بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت 15 دن بعد ہو گی۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات