پاکستان کو حلال فوڈ سیکٹر کی 1 ٹریلین ڈالر مارکیٹ میں اپنا حصہ بڑھانا ہو گا : لاہور چیمبر

جمعرات 24 ستمبر 2020 20:38

پاکستان کو حلال فوڈ سیکٹر کی 1 ٹریلین ڈالر مارکیٹ میں اپنا حصہ بڑھانا ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 ستمبر2020ء) ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کو کچھ نیا اور موثر بنانے کے لئے بہت سارے وسائل اور وقت درکار ہوتا ہے ۔ پاکستان نے پچھلے 15 سالوں سے ایک بھی نیا بیج پیدا نہیں کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہماری فی ایکڑ پیداوار ہمارے پڑوسیوں سے بہت کم ہے۔ان خیالات کا اظہار لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عرفان اقبال شیخ نے ''Roadmap for Enhancing Rice Exports of Pakistan'' اور Halal Meat a Growing Sector in Pakistan کے عنوان سے دو تحقیقی رپورٹس کے اجراء کے دوران کیا۔

صدرلاہور چیمبر نے کہا کہ ہم نے خصوصی طور پر چاول کے شعبے کے سپلائی چین کے معاملات کو حل کرنے کے طریقے تلاش کرنے اور ایکسپورٹرز کو چاول کی قیمتوں میں اضافے اور برانڈنگ پر توجہ دینے کی ترغیب دینے پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے، کوویڈ 19 کے وباء کے تناظر میں ہمیں جدید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کے مجموعی برآمدی شعبے کو سنگین خطرہ لاحق ہے لیکن اُمید ہے کہ ہم ان چیلنجز پر قابو پالیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے گذشتہ سال نومبر کے مہینے میں CACنمائش کا انعقاد کیا ہے۔ ایگری پر مبنی اس خصوصی نمائش کا مقصد ہائبرڈ سیڈ، تحقیق اور جدید ترین مشینری کو پاکستان میں متعارف کروانا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ حکومت اس سیکٹر میں دلچسپی لے گی اور ہائبرڈ سیڈ کے شعبے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہائبرڈ سیڈ پروڈیوسرز کے اندراج کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی بجائے راہ ہموار کریں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حلال سیکٹر کی ٹیسٹنگ لیبز اور سندی عمل بہت مہنگا ہے اور حکومت کو اس معاملے میں برآمد کنندگان کی سہولت کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔اس موقع پر سینئر نائب صدر علی حسام اصغر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس شعبے کی سہولت کے لئے حلال پروسیسنگ زون قائم کرنا چاہئے کیونکہ اس شعبے میں ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کی صلاحیت ہے اور اس میں ہمارا حصہ زیادہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان شعبوں میں بھی تعمیراتی شعبے کی طرح نرمی کی ضرورت ہے ۔ہندوستان میں ہائبرڈ بیج کی تحقیق پر 25 یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں اور ہمارے پاس اس مقصد کے لئے 5 یونیورسٹیاں ہیں جو کافی نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہائبرڈ باسمتی چاول کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہئے، انہوں نے مزید کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا باسمتی بیج اس پراسس میں خراب ہو بلکہ ایک ایسی نئی قسم تیار کی جائے جس میں کم پانی کی ضرورت ہو اور بہتر پیداوار مل سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر لاہور چیمبر کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سوچ سمجھ کر کوئی لائحہ عمل طے کریں گے تو پاکستانی چاول کی مختلف قسم کی اور خصوصی معیار کی ورائٹی بین الاقوامی منڈیوں میں بہتر حصہ لے سکتی ہے۔اس موقع پرلاہور چیمبر کے نائب صدر میاں زاہد جاوید احمد اور سابق صدر محمد علی میاں بھی موجود تھی