ق*بلوچستان ،سیاسی رہنمائوں نے 18ویں ترمیم کو ملک کی سلامتی کیلئے لازمی قراردیدیا

جمعرات 24 ستمبر 2020 23:41

گ*کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 ستمبر2020ء) بلوچستان کی سیاسی رہنمائوں نے 18ویں ترمیم کو ملک کی سلامتی کیلئے لازمی قراردیتے ہوئے کہاہے کہ 18 ویں ترمیم کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ،فیڈریشن کی اکائیاں مضبوط ہوںگی تو فیڈریشن مستحکم رہے گا، ناانصافیوں کی وجہ سے لوگ پہاڑوں پر بھی چلے گئے جبکہ پارلیمنٹ میں حقوق اور حالات کوسنوارنے کی باتیں کرنے والوں ک دیوار سے لگایاجاتاہے ، ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ الیکٹیبلزکو اپنی پارٹی میں نہیں لیںگے بلکہ اگر کوئی آتا ہے تو اس سے قرآن پر حلف لینا ہوگا کہ زندگی بھر اسی جماعت کے ساتھ رہے گا، اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحفظ کیلئے تمام جمہوری پسند جماعتوں ، قوتوں اور سیاسی کارکنوں کو کردار ادا کرنا چاہیے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کااظہار نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد،پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر وسینیٹر عثمان خان کاکڑ ،بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ،عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین و صوبائی مشیر عبدالخالق ہزارہ، پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی صدر و سابق وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل،پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر حاجی میر علی مدد جتک، بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی سعید احمد ہاشمی، جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے مولانا عبد القادر لونی، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی،نپاکستان نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری آصف بلوچ ،پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی ایڈیشنل سیکرٹری نصیرخان ، پاکستان تحریک انصاف کوئٹہ ریجن کے صدر ڈاکٹر منیر بلوچ،سینئر صحافی انور ساجدی ،کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن نے کوئٹہ پریس کلب کے زیراہتمام گولڈن جوبلی کی تقریبات کے سلسلے میں ’’18ویں آئینی ترمیم کی اہمیت اور ضرورت ‘‘کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر اسٹیج سیکرٹری کے فرائض عبدالخالق رند جبکہ تلاوت حافظ محمد ابراہیم نے کی ۔سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان و نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ پاکستان کی دستوری تاریخ لمبی اور پیچیدہ ہے، قائداعظم کے وفات کے بعد ملک کے جاگیرداروں ، سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سازشیں شروع کی اور لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا ہے لیاقت علی خان نے شہادت سے قبل ملک کو مذہبی بنیادوںپر تقسیم کیا جو قائد اعظم کے خطاب کے خلاف تھا کہ ملک کے تمام شہری چاہے اس کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہے برابر ہے۔

ملک بننے کے بعد 1956میں پہلا آئین بنا اس سے قبل 9سال تک انڈین ایکٹ کے تحت ملک چلایا گیا۔ انہوںنے کہا کہ آخر کار 73کی آئین بنی اور اس کے خلاف بھی سازشیں ہوتی ہیں جس کے بعد 2008میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی گئی جس میں ہم نے جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں انتہائی مشکل سے پشتونوں کا ان کا نام دلایا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم میں ہے کہ جو بھی آئین توڑے گا یا اسے معطل کرے گا وہ غدار تصور ہوگا اور اس کی سز ا پھانسی ہوگی۔

ترمیم میں فری کریمنل ٹرائل اور 35Aجیسے آرٹیکل شامل ہیں۔ 11فیصد تک کابینہ کو کم کیا اور 4اقلیتوں کی نشستیں سینٹ میں بنائی کنکرنٹ لسٹ ختم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب ایک نیشن ایک نصاب کا نعرہ لگایا جارہا ہے جو آئین کے خلاف ہے صوبوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنا نصاب خود بنائیں ایک نصاب بنایا جائے گا تو اس میں ہماری قومی زبانیں شامل نہیں کی جاسکتی ہے ہماری قومی زبانیں پہلے سے ہی معدوم ہورہی ہیں۔

انہوںنے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر کسی صورت بھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے اس کے لئے تمام جمہوری پسند جماعتوں ، قوتوں اور سیاسی کارکنوں کو کردار ادا کرنا چاہیے۔جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالنا چاہیے آج تمام پارٹیاں حقوق کی بات کررہی ہے۔ محمود خان اچکزئی ، اختر مینگل ، مولانا فضل الرحمن ، داکٹر مالک بلوچ سب پارلیمنٹ کے ذریعے جمہوری طریقے سے حقوق حاصل کرنے کی بات کررہے ہیں جبکہ ناانصافیوں کی وجہ سے لوگ پہاڑوں پر بھی چلے گئے ہیں مگر جو بھی پارلیمنٹ کے اندر اور جمہوری طریقے حقوق حاصل کرنے کی بات کرتا ہے اور حالات کو سنوارنا چاہتے ہیں تو انہیں دیوار سے لگایا دیا جاتا ہے۔

ان سیاسی جماعتوں اور جمہوری پسند شخصیات سمیت ہر سیاسی سوچ رکھنے والے فرد نے اپنی بساط کے مطابق حقوق حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ہم حالات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر حالات کو بگاڑ نے کی آگ پر پانی ڈالنے کی بجائے اس پر مزید پٹرول چھڑکایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک تاثر دیا جارہا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم سے بلدیاتی نظام کو نقصان پہنچے گا جو غلط ہے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے سیاسی پارٹیوں نے مرکز سے حقوق چھین کر صوبوں کو منتقل کئے اب صوبوں سے یہ نچلی سطح تک منتقل ہونے چاہیے۔

بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلا حق اسی صوبے کا ہے۔ آج تمام پارٹیوں کو طے کرنا چاہیے کہ بلوچستان کے حقوق کے لئے سب کو اپنی نظریات اور اختلافات بالائے طاق رکھ کر جدوجہد کرنی ہوگی ایسے وقت میں جب تمام پارٹیاں ایک پیج پر ہے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا صحیح نہیں بلکہ اس سے بگاڑ آئے گا۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر عثمان خان کاکڑ نے کوئٹہ پریس کلب کے 50 سال پورے ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی اور یوسف عزیز مگسی نے بلوچستان میں صحافت کی بنیاد رکھی ،معدنیات بلوچستان کی غیور پشتون بلوچ عوام کا ہے ایک کمپنی کے ذریعے یہاں کے معدنیات پر قبضہ کی اجازت نہیں دی جا سکتی، انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے نشست کے فاصلے اتنے ہیں کہ ایک امیدوار اس کی 60 فیصد دورہ نہیں کر سکتا، انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے نشستوں میں اضافے کی ضرورت ہے مغربی پاکستان کو الگ کرنے میں پنجاب کی سیاسی قیادت کا کردار تھا اگر وہ اٹھ کھڑے ہوتے تو آج بنگال الگ نہ ہوتا پاکستان ایک فیڈریشن اس لیے یہاں وہی نظام ہونا چاہئے پاکستان پشتون بلوچ سندھی سمیت دیگر اقوام کا ایک گلدستہ ہے ، لیکن بدقسمتی سے حقیقی فیڈریشن نہیں ہے صوبائی خود مختاری کیلئے جدوجہد کرنے والوں میں خان شہید، باچا خان میر غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری ،سردار عطاء اللہ مینگل ودیگر نے جدوجہد کی ، 73 کے آئین کے بعض آرٹیکل پر ہمیں کل بھی اختلاف تھا آج بھی ہے اور رہے گا 18 ویں ترمیم کیلئے نئی پارلیمانی کمیٹی بننی چاہئیں ہمارے تحفظات تھے کہ آئین میں سینیٹ کے اختیارات نہیں ہیں سینیٹ کے ممبر کو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونا چاہیے، آرمی چیف، چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہئے سفیروں کا انتخاب سینیٹ سے ہونی چاہیے ہمارا مطالبہ تھا کہ پشتونوں کو ایک ہی صوبہ دیا جائے اور بلوچ جہاں ہو انہیں ایک حقیقی فیڈریٹنگ یونٹ بنایا جائے سندھ کو اپنا اور سرائیکیوں کو ان کا حق دینا چاہیے انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کو کیوں حکومت میں لایا گیا ہے وہ اس لئے کہ وہ پہلا صدارتی نظام پھر 18 ویں ترمیم کو رول بیک اور حقیقی عوامی پارٹیوں کو عوام کے سامنے بدنام کرنا ان کی ذمہ داری تھی انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ کی ایسی بے توقیری کی جائے کہ لوگوں کو پارلیمنٹ سے اعتماد ختم ہو جائے پارلیمنٹ کو بے بس کردیا گیا دنیا کی تاریخ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا جہاں بھی عوام اور فوج آمنے سامنے ہوئی ہو تو فوج شکست کھا گئی ہے سی سی آئی کا سیکرٹریٹ 10 سال گزر جانے کے باوجود نہیں بن سکا ہے یہ ادارہ پارلیمنٹ کے بعد دوسرا اہم ادارہ ہے سی سی آئی کا اجلاس نہ سابقہ حکومتوں میں وقت پر ہو رہا تھا اب تو بالکل نہیں ہو رہا این ایف سی ایوارڈ پر سینیٹ میں 2 بار حملہ کیا گیا لیکن ہم نے پسپا کردیا انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کو ختم کرنے پر محکوم قومیں قومی خودمختاری کا مطالبہ کریں گے بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ بہت اہم ہے وفاقی حکومت سے بی این پی کا معاہدہ تھا اور انہوں نے باقاعدہ لسٹ پیش کی تھی خیبرپختونخوا میں لاپتہ افراد کی ایک لسٹ پی ٹی ایم نے پیش کی ان معاملات پر خاموشی عوام کے ساتھ ظلم ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے گناہ یہ تھے کہ وہ آئین کی بات کرتے تھے انہوں نے کہا کہ پرائیوٹائزیشن ، ڈیتھ اسکواڈ ختم کیا جائے 12 مئی کا حساب چاہیے وہ لوگ جو اس میں ملوث تھے آج عمران خان کے اتحادی ہیں انہوں نے کہا کہ قومی مفادات کے نام پر آئین کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے پانی خیبرپختونخوا اور مرضی میرا گوادر بلوچوں کا اور مرضی آپ کا اس طرح کے قومی مفادات کو قطعاً ہم تسلیم نہیں کرتے ، آئینی حدود میں قومی برابری، سویلین بالادستی ہی قومی مفادات ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل و سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کوئٹہ پریس کلب کے 50 سال پورے ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کوتشکیل دیتے وقت ہماری جماعت کو اعتمادمیں نہیں لیاگیااس کے باجودیہ ایک اچھی ابتداء تھی تاکہ صوبو ں کواختیارات مل سکیںانہوں نے کہا کہ صوبوں کی مضبوطی سے فیڈریشن مضبوط ہوگامغربی پاکستان کی علیحدگی کے بعد تقسیم کا فارمولا تبدیل کر دیا گیا کہ وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر ہونی چاہیے، پاکستان کو مزید مستحکم بنانے کیلئے وسائل کی برابری کی بنیاد پر تقسیم اور صوبوں کو مزید اختیارات دینے چاہیے، نصاب تعلیم پر صوبائی وزرائ تعلیم اور وفاقی وزیر تعلیم میں اتفاق نہیں ہوتا صوبوں اور وفاق میں ہم آہنگی نہیں ہے 18 ویں ترمیم سے صوبوں اور مرکز میں تھوڑی سی قربت بڑھی ہے ہماری مزاج اور فکر آج بھی ڈکٹیٹریل ہیں اس مزاج اور فکر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو محکوم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے سوئی گیس، ریکوڈک، سیندک گوادر فیڈریشن کا ہے تو بلوچستان کو کیا ملتا ہے اس کے باوجود ہم سے کہا جاتا ہے کہ زندہ باد کے نعرے لگائو خان آف قلات کے مطابق بلوچستان میں ٹوٹل 46 سردار ہیں حالانکہ یہ سارے سردار ان کے ساتھ تھے دو تین کے علاؤہ جو غدار کہلائے لیکن اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے سردار نواب ترقی کے خلاف ہے ائیرپورٹ روڈ پر کام ہوتا ہے لیکن سبزل روڈ نظر انداز کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ ایک عدد روڈ نہیں بنا سکتے جو کوئٹہ کو بلوچستان سندھ اور تفتان سے ملا رہا ہے ہنہ اوڑک جو ایک ہی سیاحتی مقام ہے وہ بھی عوام کے دسترس میں نہیں ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ معاشرتی طور پر زیادتیاں جاری ہے پشین مستونگ دیکھیں آج بھی پرانا حال ہے ہماری اپنی خامیاں ہیں کہ ہم نے 18 ویں ترمیم سے صحیح معنوں میں استفادہ حاصل نہیں کیا جمہوری حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جا سکتا محنت سے 18 ویں ترمیم بنایا ہے کسی کو بھی اس کو رول بیک کرنے کی اجازت نہیں دیں گے صوبے کی ترقی کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور صوبے کی عوام کو مزید استحصال سے بچانا ہے۔

نعوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے پریس کلب کے 50 سال پورے ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم یا صوبائی خود مختاری پر بات کرنا ایک وقت میں ہمارے لئے گناہ کبیرہ تھا اس پر ہمارے اکابرین کو القابات سے نوازتے تھے انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم سے اس فیڈریشن میں رہنے والے اقوام کو متحد کیا اس ترمیم پر ملک بھر کے سیاسی قیادت نے ایک بڑی لمبی بحث کی آج کی پاکستان تحریک انصاف کل کی پیپلز پارٹی نہیں یا مسلم لیگ ن جو انہیں آن بورڈ نہیں لیا گیا وہ تو منظوری تک آن بورڈ تھے انہوں نے کہا کہ ہمیں الیکٹیبلز کو نہیں لینا چاہیے ہم پیدائشی نیشنلی ہیں ہم نے آنکھ ہی باچا خان بابا کی تحریک میں کھولی ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے لیکن یہی لوگ جو آج بی اے پی میں شامل ہیں وہ کل مسلم لیگ (ن) اور ق کا حصہ تھینانہوں نے کہاکہ باپ بڑا مقدس نام اور رشتہ ہے اس کانام تبدیل ہونا چاہیے، ڈی ایچ اے کیلئے قانون سازی 10 سے 15 منٹ میں ہوا ہے بل پیش ہونے پر بل کی مخالفت بھی ہوئی لیکن آج یاسین زئی، بازئی سمیت مختلف قبائلیوں کی زمین پر نظر ہے عوام کے مفادات کے خلاف کسی بھی قانون سازی کی مخالفت اپنی بساط کے مطابق کی ہے ، انہوں نے کہا کہ حقوق کی بات کرے تو کسی کو آزاد پشتونستان کا بو آتا ہے تو کسی کو افغانستان کی بو ، انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کا پوری قوم کو شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے بڑی دلیری سے 18 ویں ترمیم پاس کی ملک کی 95فیصد سیاسی پارٹیاں اور عوام اٹھارویں آئینی ترمیم کے حق میں ہیں اور مزید اس طرح کی ترامیم چاہتی ہیں۔

برسراقتدار پارٹی کو یہ شکایت ہے کہ مذکورہ ترمیم پر ڈبیٹ نہیں ہوئی ہے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آئین میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے وقت آج کی برسراقتدار پارٹی کے اکثر ممبران پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلزپارٹی میں نہیں تھے بلکہ انہوں نے خود اس کے پاس ہونے میں میںبھر پور کردار ادا کیا۔ مذکورہ ترمیم کے لئے سیاسی پارٹیوں نے 9مہینے تک کام کیا اور اس پر کھل کر بات ہوئی اور ملک سے 5ہزار تک رائے آئی۔

معاملات تب صحیح ہوں گے، ایک متنازع مسئلہ کالا باغ ڈیم جس پر سندھ اور خیبر پختونخوا کا واضح موقف ہے اب 18 ویں ترمیم کو بھی متنازعہ بنایا جا رہا ہے اگر اس کو رول بیک کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا ملک کو تجربہ گاہ بنادیا گیا ہے سانحہ بنگال سے سبق حاصل نہیں کیا گیا اگر نواب اکبر بگٹی کے واقعے پر ایکشن لیا جاتا تو آج بلوچستان کی یہ حالت نہ ہوتی ، ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ الیٹیبلز کو اپنی پارٹی میں نہیں رکھنا چاہیے اگر کوئی آتا ہے تو اس سے قرآن پر حلف لینا ہوگا ملک کے حکمرانوں چاہیے اسٹیبلشمنٹ ہو یا سلیکٹڈ معاملات کو اس ڈگر پر نہیں لے جانا چاہیے ، کیپٹن صفدر آج باچا خان اور ولی خان کو ان کی سیاسی بصیرت اور اصولی موقف پر سلام پیش کررہے ہیں۔

نہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ و صوبائی مشیر عبدالخالق ہزارہ نے کہاکہ ایچ ڈی پی 2003ء میں بنی ایک وقت تھا جب ہر دن لوگ مرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے تو میرے لیے تو آج کی حکومت موجود ہیں بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں جو بھی حکومتیں آئی ہیں ہر ایک نے اس ملک کو غیر یقینی صورتحال پیدا کی جس سے ہمارے ادارے کمزور ہوتے گئے پہلے ایک بیان پر ایکشن ہوا کرتا تھا لیکن آج ٹی وی میں پروگرام ہو تب بھی ایکشن نہیں ہوتی ملک کو ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جاتا رہا آئین میں صوبائی خود مختاری واضح ہے لیکن لوگ آج بھی خود مختاری کی بات کررہے ہیں ویلفیئر سٹیٹ نہیں لیکن نیشنل سکیورٹی سٹیٹ موجود ہیں ہمیں قومی انٹرسٹ کو دیکھنا ہوگا جس میں ہم سب اور اس ملک کے مفادات محفوظ ہوں غلطیاں ہوئی ہیں کس جماعت نے کیا کیا اور کس نے کیا کیا اس بات سے آگے کا سوچنا ہوگا 18 ویں ترمیم ختم نہیں ہوگا اگر ہوگا تو بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہوں گی آئین کی بالا دستی سے ہی ہم بہتری کی طرف جائیں گے 1973 کے آرٹیکل 140 میں لکھا ہے کہ ہر صوبہ بلدیاتی نظام بنائیں لیکن اس پر کہاں تک عمل ہوا ہے نہ صرف 18 ویں ترمیم بلکہ لوکل گورنمنٹ جس سے کلی گائوں ٹائون کے لوگ یہ سوچیں کہ ان کی زندگیاں بدل رہی ہے۔

نپاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر حاجی میر علی مدد جتک نے کہاکہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کاآئین بنایالیکن 1977 میں آمریت کی وجہ سے آئین کااصل شکل بحال نہ ہوسکا بے نظیر بھٹو کو کام کرنے نہیں دیا گیا آصف علی زرداری نے اپنے اقتدار میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر 18 ویں ترمیم دی مگر موجودہ حکومت میں شامل سلیب اس کو ختم کرنے کے درپے ہیں اگر ایسا ہوا تو یہ ملک ایک ساتھ نہیں رہ سکتا راتوں رات بیٹھ کر پارٹی بنائی گئی اور نام باپ دیا گیا مگر یہ باپ یتیم ہونے جا رہا ہے این ایف سی کی مد میں ملنے والے فنڈز لیپس ہوتے ہیں، میاں نواز شریف کو لانے والے پرویز مشرف کو تو لائیں پیپلز پارٹی کو 18 ویں ترمیم کی سزا دی جارہی ہے ہم آمریت کے پیدواروں کا مقابلہ کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے بلوچستان حکومت وٹس ایپ، ٹویٹر پر چل رہا ہے 2018 کا الیکشن فراڈ ہے کوئی جیتا نام دوسرے کا آیا قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر اسٹے پر چل رہا ہے آل پارٹیز کانفرنس پر موجودہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے ، عمران خان کے بیٹے رشتے دار سب لندن میں ہے وہ سب کو چھوڑ کر چلا جائے گا ان کا بسترہ گول ہے 18 ویں ترمیم کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے کشمیر گنوانے کے بعد صدارتی نظام کیلئے آپ کو چھوڑے گا کون اپوزیشن متحد ہیں ان نااہل حکمرانوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے اگر کوئی اخبار مالک ان کے حق میں نہیں لکھتا تو انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے مولانا فضل الرحمان کا اے پی سی میں کردار پر نیب کی پرچی آگئی یتیم ہونے کے بعد باپ والے سوتیلا باپ ڈھونڈنے جائیں گے لیکن سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ ان کو جگہ نہ دیں۔

پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی صدر و سابق صوبائی وزیر شیخ جعفر مندوخیل نے کہاکہ 18 ویں ترمیم کے خاتمے کی باتیں کی جا رہی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہو سکتا ہوں لیکن یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ 18 ویں ترمیم کا خاتمہ ملک کیلئے خطرناک ہوگا کسی کیلئے آئین ردی کا ٹکڑا لیکن ہمارے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ہم نے یہاں رہنا ہے اور ہم یہاں رہتے ہیں ایک مقدس دستاویز جس کے تحفظ کیلئے سب کو کردار ادا کرنا چاہیے، ملک میں ایسے مسائل پیدا نہ کئے جائیں کہ ملک رک جائیں ملک کو چلنے دیا جائے، چھوٹے ترمیم کے بہانے 18 ویں کا حلیہ نہ بھگاڑ دیا جائے۔

ڈی ایچ اے کے بل میں شامل کیا کہ شابان سے کچلاک تک زمین ڈی ایچ اے کی زمین ہے جس پر کوئی تعمیر نہیں کیا جا سکتا آج جمہوری حکومت نہیں مسلط کردہ حکومت ہے ایسے لوگوں کو اسمبلی بھیجا گیا ہے جو بلوچستان کے حقوق پر بات بھی نہیں کر سکتے ، ہوش کے ناخن لیا جائے موجودہ حکومت کے وزرا کا مذاق اڑایا جاتا ہے آواز اٹھانے والوں کو حکومت سے الگ رکھا گیا ہے 18 ویں ترمیم کی حفاظت کرنا ہوگی بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے چھوٹے صوبوں کو اختیارات ملنے چائیے صوبوں میں چیزوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی رہنما سعید احمد ہاشمی نے کوئٹہ پریس کلب کے 50 سال پورے ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرٹ اور پارلیمان کا وقار اس وقت بلند ہوگا جب ہم میرٹ پر کام کریں گے ایک رات میں ڈاکومنٹس کا نتیجہ شابان سے کچلاک تک بھگت رہے ہیں جمہوری جماعتوں میں میرٹ نہیں ہوگا پارلیمان مضبوط نہیں ہوگا اور اس طرح ہم کسی کا مقابلہ نہیں کرسکتے جمہور ایک دوسرے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالقادر لونی نے پریس کلب کے 50 سال مکمل ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے شہید صحافیوں کی مغفرت کی دعا کی اور قربانی پر سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہیں پریس کی ضرورت آج کے دور میں سب سے زیادہ ہے 18 ویں ترمیم چھوٹے صوبوں کیلئے بیش بہا تحفہ ہے جس میں چھوٹے صوبوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا گیا لیکن آج بھی چھوٹے صوبے اپنے حقوق سے محروم ہیں کیا قومی اسمبلی کی نشستیں بلوچستان کیلئے کافی ہے ہم واضح کرتے ہیں کہ نہ ہی ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان کیلئے کام کیا ہے نہ ہی موجودہ حکومت کررہی ہے اورنج ٹرین لاہور میں چل سکتی ہے تو بلوچستان میں کیوں نہیں ، سی پیک بلوچستان میں لیکن آصف علی زرداری اس کے منصوبے سندھ اور میاں نواز شریف منصوبہ پنجاب لے گئے بلوچستان کو کچھ نہیں ملا 18 ویں ترمیم کے خاتمے کی جمعیت علمائے اسلام نظریاتی بھرپور مخالفت کریگی، جب سیاسی جماعتیں بھیک مانگیں گی تو با اثر قوتیں من مانیا کریں گے ہمیں اپنے حقوق پر کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے ہمیں ایک جان بننا پڑے گا سب کو ذاتی مفادات کی بجائے بلوچستان کے مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔

جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی نے کہا کہ 50 سالوں میں صحافیوں پر جو کچھ گزرا ہے اور جو دہشتگردی کا نشانہ بنے ہیں اللہ شہداء کی مغفرت فرمائے۔ 18 ویں ترمیم کو بہت پہلے کرنے کی ضرورت تھی اس نے آمروں کے ظلم کی تاریخ ختم کردی لیکن اس کے بعد اس پر عمل کرنے کی ضرورت تھی لیکن مجموعی طور عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کرپشن بڑھ گئی عالمی اداروں کی رپورٹ ہے بلوچستان میں 65 فیصد فنڈز کرپشن کی نظر ہوئی ہے ہمیں اپنی اہلیت برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ایک ٹھنڈے مزاج کے ساتھ عوام کی ترقی کیلئے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی آپ کے اختیارات پر ہاتھ نہ ڈال سکیں۔

پاکستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل آصف بلوچ نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کوئی احسان نہیں بلکہ اس کو ایکسٹینشن کی ضرورت ہے بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ ہمیشہ محرومیوں کا اظہار کرتے آرہے ہیں حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو باریک بینی سے جائزہ لیکر دیکھنے کی ضرورت ہے یہ سیاسی منظر نامہ آج کا نہیں آزادی کے دن سے دستوری طور پر چلا آرہا ہے ہم مصلحت پسندی کے شکار ہوئے ہیں جو شاہد ہی کچھ عرصہ تک چل سکیں اپوزیشن پاکستان کی تاریخ کا مضبوط ترین اپوزیشن ہے جن کے کردار سے ہی سلیکٹرز کے کردار کو سیاست سے ختم کیا جا سکتا ہے 18 ویں ترمیم کو مزید ایکسٹینڈ اور صوبوں کو اختیارات دینے کی ضرورت ہے اسلام آباد جس کو بلوچستان کے طول و عرض، کلچر کو پتہ نہیں بلوچستان کے فیصلے کرتا ہے آئندہ قانون سازی ملک کے مستقبل کیلئے ہوگی، پریکٹس کا سلسلہ جاری رہا تو مشکل ہے کہ حالات بہتر ہو اور ملک بہتری کی طرف جائیں، ملک کیلئے سیاسی جماعتوں اور کارکنوں نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے ایڈیشنل سیکرٹری نصیر خان نے کہاکہ جو حالات ہے اس پر ہم سب کو اکھٹا ہونا پڑے گا۔ اٹھارویں ترمیم صدارتی نظام کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، انہوں نے کہا کہ کردار کشی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی مسلم لیگ کے قائدین کو بے جا جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کوئٹہ ریجن کے صدر ڈاکٹر منیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کا واضح موقف ہے کہ 18 ویں ترمیم کے خاتمے کا پروپیگنڈہ غلط ہے تاہم اس میں ترامیم کی جائے گی سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاملات حل نہیں کریں گے تو حالات گھمبیر ہوں گے ہم چاہتے ہیں کہ برابری کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے بدقسمتی سے ہم ایسی قوم ہے طاقت کے ذریعے ہی حکمرانی کی جا سکتی ہے بلدیاتی نظام بہتر ہونے سے ہی ہم ترقی کر سکتے ہیں اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو منظم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، مسائل کسی ایم پی اے یا ایم این اے کے بس کی بات نہیں بلکہ کونسلر جو علاقے سے واقف ہوں بنیادی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔

سینئر صحافی انور ساجدی نے کہا کہ ملک کے حالات کمپلیکس اور کنفلیکٹ کا شکار ہے، بدقسمتی سے یہ ریاست دو رائے پر کھڑی ہے جن کے پاس کوئی پروگرام اور وڑن نہیں ہے، صدارتی نظام پاکستان کے موجودہ حالات کے حق میں نہیں جمہوری نظام سے ہی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے مگر یہاں رویہ غیر جمہوری ہے نظام کا کوئی تعین نہیں ہے، مختلف ادوار میں سنسر شپ جاری رہی لیکن موجودہ حالات میں میڈیا میں بدترین سینسر شپ کی جا رہی ہے ، موجودہ حکومت نے میڈیا کے شعبے کو اختہ کردیا ہے عوام شعور رکھتی ہے صدراتی نظام، 18 ویں ترمیم کا خاتمہ ہوا تو یہ ملک نہیں چل سکتا، سچ بات نہیں کریں گے تو ہم اپنے قوم کے مجرم ہوں گے، 73 کے آئین کو چھیڑنے سے منفی اثرات مرتب ہوں گے 18 ویں ترمیم سے صوبے خود مختار اور وفاق پر بوجھ کم ہوا حالات کو دیکھتے ہوئے میں بلوچستان کے مستقبل سے مایوس ہوں انہوں نے کہا کہ گوادر سے لوگوں کے انخلا کی صورت میں لوگ کہاں جائیں گے آمریت میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اب بھی موقع ہے کہ سیاست دان سوال اٹھائیں سی پیک سے بلوچستان کے عوام کا مستقبل کیسے تبدیل ہوگا جہاں زندگی جینے کا حق نہ ہو۔

ترقی کے نام پر بلوچستان کو آدھا ملک ہے کی توہین کی جا رہی ہے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے حقیقی کردار کی ضرورت ہے افغانستان میں امن سے ہی یہاں امن قائم ہوگا۔ کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن نے کہا کہ کوئٹہ پریس کلب نے بلوچستان کی عوام کی خدمات کے 50 سال پورے کئے، ہمارے سینئرز نے صوبے کی عوام کیلئے کھوڑے کھائے اور جیلیں کاٹی انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم اہم کردار ادا کررہا ہے اس حوالے سے بلوچستان کے سیاسی قیادت کا موقف اہم ہی