سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ جاری

جمعہ 25 ستمبر 2020 18:24

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 ستمبر2020ء) سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے، انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس محمد ابراہیم خان کی جانب سے مرتب کردہ یہ رپورٹ پانچ سو پچیس صفحات اور چار حصوں پر مشثمل ہے۔ جمعہ کو یہاں سپریم کورٹ کے حکم پر جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سانحہ اے پی ایس پشاور کے وقت وہاں موجود سکیورٹی کے تین حصے جن میں گیٹ پر موجود گارڈز، علاقہ میں موجود پولیس گشت اور کوئیک رسپانس فورس کی دس منٹ کے فاصلے پر موجودگی اس دھویں کی طرف متوجہ ہو گئی جو دہشتگردوں کے منصوبے کے تحت ایک گاڑی کو آگ لگانے کی وجہ سے اٹھا تھا ،نتیجتاً سکیورٹی کی توجہ آرمی پبلک سکول پشاور سے ہٹ کر دھویں کیطرف ہو گئی اور دہشتگرد سکول میں داخل ہو گئے، سکول کے پیچھے گشت پر موجود فورس جلتی ہوئی گاڑی کی جانب چلی گئی، سکیورٹی فورسز کا دوسرا دستہ بروقت سکول کی حفاظت کو نہ پہنچ سکا،جبکہ دوسرا دستہ ریپڈ رسپانس فورس اور کوئیک رسپانس فورس کے آنے تک دہشتگردوں کو روکنے میں ناکام رہا،نتیجتاً اندوہناک سانحہ رونما ہوا، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسوقت دہشتگردوں کے حملے کی دھمکیوں سے متعلق نیکٹا نے وارننگ جاری کر رکھی تھی، نیکٹا وارننگ کے مطابق دہشتگرد آرمی پبلک سکول کو نشانہ بنا سکتے تھے، نیکٹا وارننگ کے مطابق دہشتگردوں کا مقصد پاک فوج کے افسران و جوانوں کے بچوں کو نشانہ بنانا تھا،دہشتگرد پاک فوج کو آپریشن ضرب عضب اور آپریشن خیبر ون سے روکنا چاہتے تھے، لیکن اس کے باوجود پاک فوج آپریشن ضربِ عضب اور دہشتگردوں کیخلاف شروع کی گئی کاروائیوں میں کامیاب رہی۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اے پی ایس کی سکیورٹی پر تعینات اہلکار نا صرف آنے والے دہشتگرد حملہ آوروں کو روکنے کے لیے ناکافی تھے بلکہ ان کی پوزیشنز بھی ٹھیک نہیں تھیں ، سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی تمام تر توجہ سکول کے مین گیٹ پر تھی جبکہ سکول کا پچھلے حصے پر کوئی سکیورٹی تعینات نہیں تھی جہاں سے دہشتگرد بغیر کسی مزاحمت کے سکول میں داخل ہوئے،سیکورٹی پر مامور اہلکار مزاحمت کرتے تو شاید اتنا جانی نقصان نہ ہوتا ،رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کوئیک رسپانس فورس اور ایم وی ٹی۔

2 کے اہلکاروں نے بچوں کے بلاک کی طرف بڑھتے ہوئے دہشتگردوں کی پیش رفت کو روکا،جبکہ ایم وی ٹی۔1 نے غفلت کا مظاہرہ کیا، ایم وی ٹی۔1 کے اہلکاروں کو غفلت برتنے پر تحقیقات کے بعد سزا دی جا چکی ہے،رپورٹ میں دہشتگردوں کی دھمکیوں سے متعلق جاری کیے گئے الرٹ کے بعد سکو ل سیکورٹی پر گارڈز کی کم تعداد اور درست مقامات پر سیکورٹی اہلکاروں کی عدم تعیناتی سے متعلق نشاند ہی کی گئی ہے ،جبکہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والے سیکورٹی افسران و اہلکاروں کو دی گئی سزا سے متعلق بھی بتایا گیا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ہمارا شمال مغربی بارڈر بہت وسیع اور غیر محفوظ ہے، شمال مغربی بارڈر سے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت ملک میں مہاجرین کی آمد و رفت جاری رہتی ہے،ان حقائق کے باوجود انتہا پسند عناصر کو مقامی آبادی کی طرف سے بھی مدد فراہم کیے جانا ناقابلِ معافی جرم ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب اپنی ہی طرف سے لوگ دغا دیں تو دہشتگردوں کیساتھ مل جائیں تو اے پی ایس پشاور جیسے تباہ کن سانحات رونما ہوتے ہیں، جب اپنا ہی خون دغا دے تو ایسے میں ناصرف محدود وسائل میں سیکورٹی کے لیے کیے گئے انتظامات ناکام ہوتے ہیں بلکہ دشمن کو ناپاک عزائم پورے کرنے میں مدد ملتی ہے،اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیکورٹی ادارے چاہے کتنے ہی وسائل کیوں نہ رکھتے ہو ں ایسے واقعات کو روکنے میں اس وقت ناکام ہو جاتے ہیں جب ملک کے اندر سے ہی مدد فراہم کی گئی ہو۔