بینک، ایف بی آر کو اکاﺅنٹ ہولڈرز کے رقوم‘کریڈٹ کارڈ ‘ قرض اور دیگر معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے
قانون کے تحت ٹیکس حکام کو قومی شناختی کارڈ نمبر، گھر کا پتا، اس شخص کو ادا کی جانے والی رقوم کی تفصیلات، بینک اسٹیٹمنٹ اور دیگر اہم معلومات شامل ہیں.رپورٹ
میاں محمد ندیم ہفتہ 26 ستمبر 2020 14:53
(جاری ہے)
تاکہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکالا جا سکے سابق بینکر اور معروف ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کے مطابق یہ فیصلہ مناسب ہے، کیوں کہ اس وقت ساری دنیا بالخصوص فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی کوشش ہے کہ منی لانڈرنگ، ناجائز دولت کے دہشت گردی سمیت دیگر جرائم میں استعمال کو روکا جائے.
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس سے عام صارفین پر کوئی زیادہ اثر پڑے گاان کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ بینک نئے اکاﺅنٹ کھولنے سے متعلق پہلے سے زیادہ محتاط ہو چکے ہیں اور نئے اکاﺅنٹ ہولڈر کو مشکوک سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے خیال میں اس بارے میں بینکوں کو زیادہ چوکنا تو رہنا ہو گا مگر اس کے ساتھ حقیقی اور اصل صارف کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ اس کی مدد کرنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ معیشت کو دستاویزی اور سرمائے کو بینکنگ چینل میں لانے میں مدد مل سکے. بعض ٹیکس ماہرین کے مطابق اس عمل سے لوگوں کی خفیہ معلومات افشا ہونے کا خطرہ موجود ہے اور اس بنیاد پر انہیں بلیک میل بھی کیا جا سکتا ہے ٹیکس معاملات کے ممتاز وکیل محمد ذیشان مرچنٹ کے مطابق اسی نکتے کو بنیاد بنا کر بینک اتنے عرصے سے یہ معلومات دینے سے کترا رہے تھے کہ بینکنگ قوانین کے تحت صارف کی خفیہ معلومات کو افشا ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے. اس سے قبل اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ یہ معلومات صرف فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور بورڈ ممبران ہی استعمال کر سکیں گے مگر ظاہر ہے کہ جب وہ ممبران یا چیئرمین یہ کام اپنے ماتحت افسران سے کرائیں گے، تو اس سے ڈیٹا لیک ہونے کا خطرہ موجود تھا انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بینکنگ ایسوسی ایشن کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے اور انہیں اعتماد میں لیا گیا ہے کہ یہ ڈیٹا صرف چیف ٹیکس کمشنر ہی استعمال کریں گے اور اس کے تحت بھی صرف مشکوک اکاﺅنٹس کی محدود معلومات ہی کا تبادلہ کیا جائے گا ذیشان مرچنٹ کے مطابق مشکوک ٹرانزیکشنز کی معلومات اگرچہ کسی نہ کسی طرح تو ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے پاس جمع ہوتی ہی رہی تھیں لیکن وہ محدود تھیں اسی طرح یہ بینک قومی شناختی کارڈ کے تحت بھی یہ ظاہر نہیں کرتے تھے کہ کس شخص کے اکاﺅنٹ سے کتنی رقوم کی منتقلی پر ود ہولڈنگ ٹیکس منہا کیا گیا ہے ایسی معلومات کسی ایک جگہ اکھٹی نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس پر کوئی خاص ایکشن لینا کافی مشکل تھا لیکن اس عمل سے یہ مشکل کافی حد تک دور ہو سکے گی. ذیشان مرچنٹ نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں تقریباََ پانچ کروڑ کے قریب بینک اکاﺅنٹس ہیں جبکہ ملک بھر میں ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد 26 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ٹیکس ادا کرنے والے 26 لاکھ لوگوں کے دس دس بینک اکاﺅنٹس بھی ہیں تو بھی ان کی تعداد دو کروڑ 60 لاکھ کے قریب ہی بنتی ہے ان کے مطابق اگر اس مفروضے پر آگے چلا جائے تو بھی اس کا مطلب ہے کہ اڑھائی کروڑ لوگ ایسے ہیں جو بینک اکاﺅنٹ تو رکھتے ہیں لیکن ان کے ٹیکس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے انہوں نے کہا کہ اگر ان معلومات ہی کو ٹھیک طریقے سے پرکھا جائے کہ کس کے شناختی کارڈ سے اس کا نیشنل ٹیکس نمبر نہیں مل پا رہا مگر اس کی بینک ٹرانزیکشنز بے تحاشا ہو رہی ہیں، تو اس سے بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی باآسانی نشان دہی ہو سکتی ہے جو ٹیکس ادا نہیں کر رہے اور پھر ایف بی آر ایسے لوگوں کے بارے میں نادرا اور اسٹیٹ بینک سے مزید ڈیٹا لے اور انہیں ٹیکس نوٹسز بھجوا سکتا ہے. ان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے ہو سکتا ہے کہ اکاﺅنٹ ہولڈر بتائے کہ وہ تو فلاں کے پاس ڈرائیور ہیں، باورچی ہے یا وہ پان فرش ہے اور اس کے اتنے ذرائع آمدن ہی نہیں یا اسے کسی اور شخص نے اکاﺅنٹ کھلوا کر دیا تھا اور وہی شخص ہی اس کا اکاﺅنٹ استعمال کر رہا ہے اس سے مشکوک، جعلی یا بے نامی اکاﺅنٹس اور ان میں موجود رقوم کا سراغ بھی لگایا جا سکے گا. ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ ہدف اگر ٹیکس نیٹ میں توسیع کا ہے تو اس عمل سے مفروضے کے تحت اڑھائی کروڑ لوگوں میں سے 50 لاکھ لوگ بھی اگر خود کو ٹیکس نیٹ میں رجسٹرڈ کرا لیتے ہیں تو یقیناََ حکومت کے لیے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں یہ اضافہ ایک بڑی کامیابی ہو گا. دوسری جانب ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے خیال میں اس عمل سے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے زیادہ امکانات نہیں ہیںڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ہر قسم کی آمدنی کو قابل ٹیکس قرار دیا جانا ضروری ہے اور یہ نکتہ اگرچہ ملک کی تینوں ہی بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں تو شامل ہے لیکن اس میں اصل رکاوٹ جاگیردارانہ سوچ کے ساتھ ساتھ اشرافیہ، بیورو کریسی، کاروباری برادری، مذہبی و سیاسی رہنما، پارلیمنٹیرینز اور حتیٰ کہ اہم ریاستی ستون بھی ہیں. انہوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ ایک جانب جہاں حکومت دنیا کے دیگر ممالک سے مطالبہ کرتی نظر آتی ہے کہ ہماری لوٹی ہوئی دولت واپس کی جائے، مگر دوسری طرف اپنے ہی ملک میں پیسہ لوٹ کر باہر لے جانے والوں کے لیے عام معافی (ایمنسٹی) کی اسکیمز جاری کی جاتی ہیں تو ایسے موقف پر دنیا ہمارا مذاق ہی اڑائے گی اور اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا.مزید اہم خبریں
-
ایرانی میزائلوں نے کس طرح اسرائیلی کثیر الجہتی، مربوط خودکار فضائی دفاعی نظام کے حصار کو کیسے توڑا؟ حملہ کتنا کامیاب رہا سیٹلائٹ تصاویر سے جائزہ
-
ٹک ٹاک کی نئی ایپ پر یورپی یونین کا کمپنی کو الٹی میٹم
-
شہریوں کو آئین و قانون کے تحت دستیاب سہولیات سے روگردانی نہیں ، لاپتہ افراد کے مسئلہ کا سیاسی حل بھی نکالناہو گا، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ
-
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی خاتون وائس چانسلر
-
پاکستان چھوڑنے والے غیرقانونی افغانیوں کی تعداد 5لاکھ 42ہزار سے متجاوز
-
اٹک ،پب جی گیم نے دوست کے ہاتھوں دوست کا قتل کروا دیا،ملزم گرفتار
-
بشریٰ بی بی مکمل فٹ قرار، طبی رپورٹ اعلیٰ حکام کو ارسال
-
پاکستان کو 1.1 ارب ڈالرقسط کی منظوری کیلئے آئی ایم ایف بورڈ اجلاس 29 اپریل کو ہوگا
-
جون تک زرمبادلہ کے ذخائر9 سے 10 ارب ڈالرتک پہنچ جائیں گے، محمد اورنگزیب
-
وزیرِاعظم محمد شہبازشریف کا چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو اسلام آباد اور متعلقہ افسران معطل کر کے انکوائری کا حکم
-
وفاقی وزیر سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکرٹری کی ملاقات
-
بھارت کے انتخابات میں ڈیپ فیک کا بڑھتا خطرہ
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.