بینک، ایف بی آر کو اکاﺅنٹ ہولڈرز کے رقوم‘کریڈٹ کارڈ ‘ قرض اور دیگر معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے

قانون کے تحت ٹیکس حکام کو قومی شناختی کارڈ نمبر، گھر کا پتا، اس شخص کو ادا کی جانے والی رقوم کی تفصیلات، بینک اسٹیٹمنٹ اور دیگر اہم معلومات شامل ہیں.رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 26 ستمبر 2020 14:53

بینک، ایف بی آر کو اکاﺅنٹ ہولڈرز کے رقوم‘کریڈٹ کارڈ ‘ قرض اور دیگر ..
کراچی (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 ستمبر ۔2020ء) پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے درمیان بالآخراس پر اتفاق ہو گیا ہے کہ بینک، ایف بی آر کو کسی بھی اکاﺅنٹ ہولڈر کے رقم نکلوانے، جمع کروانے، کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی اور قرض پر منافع سے متعلق دیگر معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے.

حکام کے مطابق اس عمل سے بینکنگ چینل میں آنے والی غیر دستاویزی اور مشکوک رقوم کی روک تھام ممکن ہو سکے گی یہ معلومات انکم ٹیکس آرڈینینس 2001 کے سیکشن 165 اور 165-اے کے تحت بورڈ آف ریونیو کو فراہم کی جائیں گی اس قانون کے تحت ٹیکس حکام کو قومی شناختی کارڈ نمبر، گھر کا پتا، اس شخص کو ادا کی جانے والی رقوم کی تفصیلات، بینک اسٹیٹمنٹ اور دیگر اہم معلومات شامل ہیں.

قانون کے تحت بینک ایسے اکاﺅنٹ ہولڈرز کی الگ الگ فہرستیں جاری کرنے کے پابند ہوں گے جو 50 ہزار، 10 لاکھ، ایک کروڑ روپے یا اس سے زائد کی رقوم جمع کرتے یا نکلواتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ایک ماہ کے دوران اڑھائی لاکھ روپے تک کی خریداری والے کریڈٹ کارڈز اور ایک سال میں کسی مد میں 5 لاکھ روپے سے زائد منافع حاصل کرنے والوں کی بھی فہرستیں مرتب کی جائیں گی تاہم قانون میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ یہ تمام معلومات خفیہ رکھی جائیں گی اور انہیں صرف ٹیکس مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جائے گا.

اگرچہ یہ قانون کئی سال سے نافذ تو ہے مگر مذکورہ سیکشن پر بینکوں کی مزاحمت کے باعث عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا اور بینکوں نے صارفین کی معلومات افشا ہونے کے نکتے پر ہائی کورٹس سے حکم امتناع حاصل کر رکھا تھا اس بارے میں پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور حکومت پاکستان کے مذاکرات کافی عرصے سے جاری تھے اور گزشتہ سال ہی اس کے متعلق ایسوسی ایشن نے ہائی کورٹ میں اپنی آئینی درخواست واپس لینے کا بھی اعلان کیا تھا.

ایف بی آر کی جانب سے اس مقصد کے لیے تیار کردہ تکنیکی حل بینکوں کو باہم منسلک کرے گا جس کے ذریعے بینک فوری طور پر متعلقہ معلومات ایف بی آر کے ساتھ شئیر کریں گے معلومات کا یہ تبادلہ 18 ستمبر 2020 سے قابل عمل ہو گا ایف بی آر کے مطابق وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سادگی اور ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے ایف بی آر اور بینکوں کے مابین اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے.

بینکنگ کے شعبے سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل کا مقصد جہاں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا ہے وہیں ناجائز یا مشکوک ذرائع آمدنی کے گرد گھیرا تنگ کرنا، بے نامی اکاﺅنٹس کی روک تھام، منی لانڈرنگ یا دہشت گردی کے مقاصد کے لیے رقوم کی منتقلی کو روکنا ہے۔

(جاری ہے)

تاکہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکالا جا سکے سابق بینکر اور معروف ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کے مطابق یہ فیصلہ مناسب ہے، کیوں کہ اس وقت ساری دنیا بالخصوص فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی کوشش ہے کہ منی لانڈرنگ، ناجائز دولت کے دہشت گردی سمیت دیگر جرائم میں استعمال کو روکا جائے.

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس سے عام صارفین پر کوئی زیادہ اثر پڑے گاان کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ بینک نئے اکاﺅنٹ کھولنے سے متعلق پہلے سے زیادہ محتاط ہو چکے ہیں اور نئے اکاﺅنٹ ہولڈر کو مشکوک سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے خیال میں اس بارے میں بینکوں کو زیادہ چوکنا تو رہنا ہو گا مگر اس کے ساتھ حقیقی اور اصل صارف کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ اس کی مدد کرنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ معیشت کو دستاویزی اور سرمائے کو بینکنگ چینل میں لانے میں مدد مل سکے.

بعض ٹیکس ماہرین کے مطابق اس عمل سے لوگوں کی خفیہ معلومات افشا ہونے کا خطرہ موجود ہے اور اس بنیاد پر انہیں بلیک میل بھی کیا جا سکتا ہے ٹیکس معاملات کے ممتاز وکیل محمد ذیشان مرچنٹ کے مطابق اسی نکتے کو بنیاد بنا کر بینک اتنے عرصے سے یہ معلومات دینے سے کترا رہے تھے کہ بینکنگ قوانین کے تحت صارف کی خفیہ معلومات کو افشا ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے.

اس سے قبل اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ یہ معلومات صرف فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور بورڈ ممبران ہی استعمال کر سکیں گے مگر ظاہر ہے کہ جب وہ ممبران یا چیئرمین یہ کام اپنے ماتحت افسران سے کرائیں گے، تو اس سے ڈیٹا لیک ہونے کا خطرہ موجود تھا انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بینکنگ ایسوسی ایشن کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے اور انہیں اعتماد میں لیا گیا ہے کہ یہ ڈیٹا صرف چیف ٹیکس کمشنر ہی استعمال کریں گے اور اس کے تحت بھی صرف مشکوک اکاﺅنٹس کی محدود معلومات ہی کا تبادلہ کیا جائے گا ذیشان مرچنٹ کے مطابق مشکوک ٹرانزیکشنز کی معلومات اگرچہ کسی نہ کسی طرح تو ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے پاس جمع ہوتی ہی رہی تھیں لیکن وہ محدود تھیں اسی طرح یہ بینک قومی شناختی کارڈ کے تحت بھی یہ ظاہر نہیں کرتے تھے کہ کس شخص کے اکاﺅنٹ سے کتنی رقوم کی منتقلی پر ود ہولڈنگ ٹیکس منہا کیا گیا ہے ایسی معلومات کسی ایک جگہ اکھٹی نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس پر کوئی خاص ایکشن لینا کافی مشکل تھا لیکن اس عمل سے یہ مشکل کافی حد تک دور ہو سکے گی.

ذیشان مرچنٹ نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں تقریباََ پانچ کروڑ کے قریب بینک اکاﺅنٹس ہیں جبکہ ملک بھر میں ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد 26 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ٹیکس ادا کرنے والے 26 لاکھ لوگوں کے دس دس بینک اکاﺅنٹس بھی ہیں تو بھی ان کی تعداد دو کروڑ 60 لاکھ کے قریب ہی بنتی ہے ان کے مطابق اگر اس مفروضے پر آگے چلا جائے تو بھی اس کا مطلب ہے کہ اڑھائی کروڑ لوگ ایسے ہیں جو بینک اکاﺅنٹ تو رکھتے ہیں لیکن ان کے ٹیکس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے انہوں نے کہا کہ اگر ان معلومات ہی کو ٹھیک طریقے سے پرکھا جائے کہ کس کے شناختی کارڈ سے اس کا نیشنل ٹیکس نمبر نہیں مل پا رہا مگر اس کی بینک ٹرانزیکشنز بے تحاشا ہو رہی ہیں، تو اس سے بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی باآسانی نشان دہی ہو سکتی ہے جو ٹیکس ادا نہیں کر رہے اور پھر ایف بی آر ایسے لوگوں کے بارے میں نادرا اور اسٹیٹ بینک سے مزید ڈیٹا لے اور انہیں ٹیکس نوٹسز بھجوا سکتا ہے.

ان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے ہو سکتا ہے کہ اکاﺅنٹ ہولڈر بتائے کہ وہ تو فلاں کے پاس ڈرائیور ہیں، باورچی ہے یا وہ پان فرش ہے اور اس کے اتنے ذرائع آمدن ہی نہیں یا اسے کسی اور شخص نے اکاﺅنٹ کھلوا کر دیا تھا اور وہی شخص ہی اس کا اکاﺅنٹ استعمال کر رہا ہے اس سے مشکوک، جعلی یا بے نامی اکاﺅنٹس اور ان میں موجود رقوم کا سراغ بھی لگایا جا سکے گا.

ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ ہدف اگر ٹیکس نیٹ میں توسیع کا ہے تو اس عمل سے مفروضے کے تحت اڑھائی کروڑ لوگوں میں سے 50 لاکھ لوگ بھی اگر خود کو ٹیکس نیٹ میں رجسٹرڈ کرا لیتے ہیں تو یقیناََ حکومت کے لیے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں یہ اضافہ ایک بڑی کامیابی ہو گا. دوسری جانب ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے خیال میں اس عمل سے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے زیادہ امکانات نہیں ہیںڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ہر قسم کی آمدنی کو قابل ٹیکس قرار دیا جانا ضروری ہے اور یہ نکتہ اگرچہ ملک کی تینوں ہی بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں تو شامل ہے لیکن اس میں اصل رکاوٹ جاگیردارانہ سوچ کے ساتھ ساتھ اشرافیہ، بیورو کریسی، کاروباری برادری، مذہبی و سیاسی رہنما، پارلیمنٹیرینز اور حتیٰ کہ اہم ریاستی ستون بھی ہیں.

انہوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ ایک جانب جہاں حکومت دنیا کے دیگر ممالک سے مطالبہ کرتی نظر آتی ہے کہ ہماری لوٹی ہوئی دولت واپس کی جائے، مگر دوسری طرف اپنے ہی ملک میں پیسہ لوٹ کر باہر لے جانے والوں کے لیے عام معافی (ایمنسٹی) کی اسکیمز جاری کی جاتی ہیں تو ایسے موقف پر دنیا ہمارا مذاق ہی اڑائے گی اور اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا.