ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرمیانوالی نے بچے کو سکول لانے پر خاتون ٹیچر کو معطل کردیا

خاتون ٹیچرعشرت ستار اپنے بچے کو سکول لائی، کہ دوران وزٹ ڈی ای او نے خاتون ٹیچر کے خلاف ایکشن لے لیا، عوام کی جانب سے اداروں میں ڈےکیئرسنٹر قائم کرنے کا مطالبہ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ اتوار 27 ستمبر 2020 23:37

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرمیانوالی نے بچے کو سکول لانے پر خاتون ٹیچر کو ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔27 ستمبر2020ء) وزیراعظم عمران خان کے آبائی شہر میانوالی میں خاتون ٹیچر کا اپنے معصوم بچے کو سکول لانا جرم بن گیا، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرمیانوالی نے بچے کو سکول لانے پر خاتون ٹیچر کو معطل کردیا، خاتون ٹیچرعشرت ستار اپنے بچے کو سکول لائی، کہ دوران وزٹ ڈی ای او نے خاتون ٹیچر کے خلاف ایکشن لے لیا۔

تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک نوٹیفکیشن گردش کر رہا ہے، جس کے میں کہا گیا کہ 23ستمبر کو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیس میانوالی نے تحصیل پپلاں کے گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری سکول کا وزٹ کیا، جہاں پر ایک خاتون ٹیچر اپنے بچے کو سکول لائی تھی اور بچے کے ساتھ کھیل بھی رہی تھی، جو کہ ڈی ای او کو ناگوار گزار اور ڈی ای او نے خاتون ٹیچر کو معطل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔

(جاری ہے)

سوشل میڈیا صارفین نے خاتون ٹیچر کو معطل کرنے پر ڈی ای او ایجوکیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اورمطالبہ کیا ہے کہ خاتون ٹیچر کو فوری بحال کیا جائے۔ 
 
دوسری جانب اگر تعلیمی اداروں ، دفاترز یا کسی پبلک سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین کو دیکھیں تو ہمارے سامنے کچھ مثالیں موجود ہیں، جب خواتین نے بچوں کے ساتھ بہترین خدمات سرانجام دیں۔

جیسا کہ پشاور کی ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر سارہ کی تصویر وائرل ہوئی جس میں اس کے عزم وہمت کو دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنے بچے کے ساتھ اپنی فرائض منصبی بخوبی سرانجام دے رہی ہیں۔ اسی طرح ایک خاتون پولیس آفیسرعائشہ بٹ پولیس اسٹیشن میں اپنے معصوم بچے کے ساتھ اپنی خدمات کو بہترین انداز میں نبھا رہی ہیں۔ یہ تو پاکستان کی مثالیں ہیں، 
 
ہمارا شمار بھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے، جہاں شرح تعلیم انتہائی کم ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے اور اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو اتنا شعور نہیں ہوتا، یا پھر ایسے لوگوں کی پرورش پسماندہ علاقوں میں ہوئی ہوتی ہے کہ ان کو والدین اور بچوں کے رشتوں کا احساس نہیں ہوتا، یہ بات ہر تعلیم یافتہ یا بڑے عہدے پر بیٹھے افسر کی نہیں ہے، بلکہ چند لوگ ضرور ہیں، جن کو عہدے یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا بڑارُعب ہوتا ہے۔

 
 
اگر ہم ان ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ معاشروں کی بات کریں جہاں تعلیم عام ہے، لیکن وہاں پر بھی ایسے نہیں ہوتا کہ والدہ کو بچے سے دور رکھنے کا کہا جائے بلکہ ڈے کیئر سنٹر بنائے جاتے ہیں، کہ ماں بچہ ساتھ ساتھ رہیں، کیونکہ یہ ماں بچے کے انسانی حقوق میں شامل ہے۔ 
 
ایک مثال نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کی ہے کہ وہ اپنی ننھی معصوم بچی کو نہ صرف اپنے دفتر یا میٹنگز میں ساتھ لے جاتی، بلکہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی ساتھ لے گئی تھیں اور یوں ان کی بچی دنیا کی وہ پہلی بچی بنی تھیں جو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہوئی تھیں۔

اسی طرح نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے اسپیکر تریور ملارد نے بھی اجلاس کے دوران اپنے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے اسمبلی اجلاس کی کارروائی چلا کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے رکن اسمبلی تماتی کافی نے ایک ماہ کے بچے کو فیڈر کے ذریعے دودھ پلایا۔ جب وہ اسمبلی میں بحث کے دوران تقریر کرنے لگے۔ تو اسپیکر نے انہیں بچہ ان کے حوالے کرنے کی پیش کش کی جو رکن اسمبلی نے مان لی۔

 
 قابل ذکر بات یہ ہے کہ والدہ کیلئے بچے کے ساتھ کام کرنا اور اپنے فرائض سرانجام دینا بہت ہی اچھا ہوسکتا ہے، بجائے اس کے ایک والدہ اپنے دفتر میں ہو، سکول میں ہو، یا کسی بھی پبلک سیکٹر میں نوکری کررہی ہو، لیکن اس کا بچہ اس سے دور گھر میں ہو، یا کسی رشتہ دار کے سہارے ہو، ایسے میں خاتون ملازم یا استاد، یا آفیسر کا دھیان اپنے بچے کی جانب رہے گا۔

کہ اس کا بچہ پتا نہیں کس حال میں ہوگا اس نے کچھ کھایا پیا بھی ہے یا نہیں، اس کی درست طریقے سے دیکھ بھال کی جارہی ہے یا نہیں، اگر بیمار ہے تو والدہ شدید پریشانی میں ہوگی، ایسے میں ایک والدہ کس طرح اپنی ڈیوٹی کے ساتھ انصاف کرسکے گی؟ حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں، دفاترز، پرائیویٹ یا سرکاری اداروں کے اندر”ڈے کیئر سنٹر “قائم کرنے چاہئیں، تاکہ مائیں اپنے بچوں کو وقفے وقفے کے ساتھ دیکھ سکیں، اور ان کا حال معلوم کرسکیں۔ اس طرح ماں بھی مطمئن رہے گی اور اپنی ڈیوٹی کرنے میں بھی اس کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔