پشاور میں آرمی پبلک سکول کو یونیورسٹی کا درجہ دینے پر غور

عدالتی کمیشن کی سفارش پر عملدرآمد کے حوالے سے وفاقی حکومت غور کر رہی ہے.سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کا جواب

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 28 ستمبر 2020 14:15

پشاور میں آرمی پبلک سکول کو یونیورسٹی کا درجہ دینے پر غور
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 ستمبر ۔2020ء) وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کے حملے کی تحقیقات کرنے والی عدالتی کمیشن کی سفارش پر عملدرآمد کے حوالے سے وفاقی حکومت غور کر رہی ہے. چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ کو آگاہ کیا گیاہے کہ حکومت حملے کی زد میں آنے والے اے پی ایس ورسک کو اپ گریڈ کرنے اور اس کا نام شہدا اے پی ایس یونیورسٹی رکھنے کی تجویز پر غور کررہی ہے.

(جاری ہے)

16 دسمبر 2014 کو خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں عسکریت پسندوں نے سکول پر حملہ کرکے 132 بچوں سمیت 147 افراد کو شہید کردیا تھا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے شہید ہونے والے سکول کے بچوں کے والدین کی شکایات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ سے 5 اکتوبر 2018 کو کمیشن کے لیے ایک سینئر جج نامزد کرنے کے لیے کہا تھا.

بعد ازاں ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان نے کمیشن کی کارروائی کی اور رپورٹ کو حتمی شکل دی تھی جس میں تحقیقات کے علاوہ چند سفارشات بھی شامل تھیںکمیشن نے جو سفارشات پیش کیں ان میں سے ایک اسکول کو شہدا اے پی ایس یونیورسٹی کے طور پر اپ گریڈ کرنا بھی شامل تھا. وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے بینچ کو آگاہ کیا کہ شہید طلبہ کی قربانیوں کے اعتراف میں اس واقعے کو سکول کے نصاب کا حصہ بنانے پر غور کیا جارہا ہے اپنی رپورٹ میں وفاقی حکومت نے کہا کہ افسوسناک واقعے کے دوران قیمتی جانوں کا ضیاع افسوسناک اور ناقابل تلافی ہے کیوں کہ انسانی اقدام سے سوگوار خاندانوں کے درد اور اذیت کو کم نہیں کیا جاسکتا ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گرفتاری کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے تاکہ واقعے میں ملوث مجرم کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور سزا دے سکیں.

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حملے میں محفوظ رہنے والے افراد کو ریاستی اخراجات پر بہترین دستیاب طبی امداد فراہم کرنے کی کوششیں کی گئیں وفاقی حکومت نے کہا کہ یہ غیر فطری بات نہیں ہے کہ تمام اقدامات اور ریاستی حکام کی کوششوں کے باوجود سوگوار خاندانوں کے کچھ افراد کے پاس ابھی بھی سوالات اور تحفظات ہیں اور انہوں نے اپنی شکایات کے ازالے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا.

جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر حکومت کے ردعمل کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے زخمیوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے اور نفسیاتی علاج کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں انہوں نے خاندانوں کو فلاح و بہبود اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات بھی کیے، اس کے علاوہ مالی اعانت کے ذریعہ ان کے درد اور تکلیف کو دور کرنے کی کوشش بھی کی ہے وفاقی حکومت نے 22 شہدا کو تمغہ شجاعت اور ستارہ شجاعت (سول ایوارڈز) سے بھی نوازا ہے.

کمیشن کی سفارشات کے مطابق چند تعلیمی اداروں کا نام تبدیل کرکے شہدا کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں متعدد فلائی اوور، پارکس اور سڑکوں کا نام سکول کے بچوں کے نام پر رکھا گیا ہے. حکومت نے کہا کہ 6 ستمبر کو ملک کے شہداءکے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس لیے اے پی ایس طلبا کو اس دن خصوصی طور پر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے جبکہ دسمبر کے مہینے میں اے پی ایس میں میں قرآن خوانی کے ساتھ سالانہ یادگار تقریب کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے سکول کی عمارت کے بارے میں حکومت نے کہا کہ آڈیٹوریم کمپلیکس کے ایک حصے کو لائبریری کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جبکہ باقی حصے کو پہلے ہی ایک امتحان ہال میں تبدیل کردیا گیا تھا وفاقی حکومت نے بینچ کو بتایا کہ زخمی طلباءکو انٹرمیڈیٹ کی سطح تک اپنی پسند کے اداروں میں داخلے کے لیے خصوصی کیسز کے طور پر رکھا گیا تھا.

ان کا کہنا تھا کہ کیڈٹ‘ملٹری کالجز جیسے فوج کے زیر انتظام اداروں میں شہدا کے بہن بھائیوں کے لیے مفت سیکنڈری اور اعلی تعلیم کی فراہمی کے لیے بھی ایک شفاف طریقہ کار وضع کیا گیا ہے. بینچ کو بتایا گیا کہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، پشاور اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی، پشاور میں دو، دو نشستیں متاثرہ خاندانوں کے لیے خصوصی کوٹہ کے طور پر مختص کی گئی ہیں واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو 525 صفحات پر مشتمل رپورٹ 25 ستمبر کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا تھا.