شہباز شریف کی گرفتاری کی ٹائمنگ پر سوال کرنے والوں کو سینیئر صحافی نے آڑے ہاتھوں لے لیا

جب بھی کوئی گرفتارہو تو کہا جاتا ہے کہ اس گرفتاری کی ٹائمنگ دیکھیں، لیکن ملک لوٹنے کے لیے ٹائمنگ ہی ٹائمنگ ہے

Kamran Haider Ashar کامران حیدر اشعر منگل 29 ستمبر 2020 07:06

شہباز شریف کی گرفتاری کی ٹائمنگ پر سوال کرنے والوں کو سینیئر صحافی ..
لاہور (اردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 ستمبر 2020ء) شہباز شریف کی گرفتاری کی ٹائمنگ پر سوال کرنے والوں کو سینیئر صحافی نے آڑے ہاتھوں لے لیا۔ جب بھی کوئی گرفتارہو تو کہا جاتا ہے کہ اس گرفتاری کی ٹائمنگ دیکھیں، لیکن ملک لوٹنے کے لیے ٹائمنگ ہی ٹائمنگ ہے۔ تفصیلات کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری کی ٹائمنگ پر سوال اٹھانے والے ناقدین کو سینیئر صحافی ارشاد بھٹی نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب بھی کوئی گرفتارہوتی ہے تو پہلی بات ہی یہ کی جاتی ہے کہ اس گرفتاری کی ٹائمنگ دیکھیں، بھلا گرفتاری کی یہ کوئی ٹائمنگ ہے۔

سینیئر صحافی نے ٹوئیٹر پر جاری پیغام میں کہا کہ اس کا مطلب جب چاہو، جس وقت چاہو، ملک لوٹ لو، ملک لوٹنے کے لیے ٹائمنگ ہی ٹائمنگ، مگرملک لوٹنے والوں کو پکڑنے کی ایک مخصوص ٹائمنگ ہونی چاہیے، اور اس ٹائمنگ کا انتظارکرنا چاہیے۔

(جاری ہے)

 

اس قبل بھی انہوں نے شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والی بحث کے تناظر میں ہونے والی بحث پر ٹوئیٹ کیا تھا۔

انہوں نے لکھا کہ بحث جاری ہے کہ ن لیگ سے ش لیگ نکلے گی یا پھر ن لیگ م لیگ بن جائے گی۔ سینیئر صحافی نے اس بحث کو ہدف تنقید بناتے ہوئے لکھا کہ بات تو اس پر ہونی چاہیے کہ پارٹی کے صدر شہبازشریف اس سوال کا جواب کیوں نہ دے سکے کہ انہوں نے پارٹی اکاؤنٹس اپنے ذاتی ملازموں کے نام پرکھول رکھے تھے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ 60 لوگوں نے جو ایک ارب پارٹی فنڈ دیا وہ ہاؤس آف شریف کیوں کھا گیا۔

؟ 
واضح رہے کہ لاہورہائی کورٹ میں منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں عبوری ضمانت خارج ہونے پر نیب نے مسلم لیگ ن کے صدر و قائد حزب اختلاف شہباز شریف کوگرفتار کرلیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے پیر کو شہباز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت کی اور تفصیلی دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے ادوار میں ترقیاتی منصوبوں سے متعلق تفصیلات عدالت میں جمع کروائی گئیں۔ شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف نے قومی خزانے کے ایک ہزار ارب روپے بچائے۔ انہوں نے آج تک بطور ممبر اسمبلی تنخواہ تک وصول نہیں کی۔ شہباز شریف کے وکیل نے مزید کہا شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں بھی کوئی ثبوت موجود نہیں نہ ہی کسی گواہ نے یہ گواہی دی ہے کہ شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کی۔

اس کے برعکس نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں ملزم محمد شہباز شریف نے دیگر شریک ملزمان، اہل خانہ، بے نامی داروں، فرنٹ مین، قریبی ساتھیوں، ملازمین اور منی چینجرز سے ملی بھگت کر کے منی لانڈرنگ کے منظم نظام کے تحت 7328 ملین روپے کے آمدن سے زائد اثاثے بنائے۔ نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں دائر کیے گئے ریفرنس کے مطابق منی لانڈرنگ کے ذریعے اثاثے بنانے میں محمد شہباز شریف کا نمایاں کردار رہا۔

نیب کا کہنا ہے کہ 1990ء میں مذکورہ ملزم نے اپنے نقد اثاثے 2.121 ملین روپے ظاہر کیے تھے جبکہ 1998ء تک اس کے نقد اثاثے (ان کے چھوٹے بچوں کے اثاثی14.865 ملین روپے) تک پہنچ گئے۔ 2008ء سے 2018ء کے دوران سرکاری عہدہ سنبھالنے کے بعد جب ملزم محمد شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو ان کے خاندان نے اس عرصہ کے دوران 7 ہزار 328 ملین روپے کے اثاثے حاصل کیے۔ شریف گروپ آف کمپنیز کے زیر سایہ 13 نئی کمپنیاں قائم کر کے 2770 ملین روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔

ان کمپنیوں میں میسرز شریف فیڈ، میسرز چنیوٹ پاور، میسرز العربیہ شوگر ملز، میسرز شریف ڈیری فارمز اور دیگر کمپنیاں شامل ہیں، ان کمپنیوں کے ذرائع آمدن نامعلوم تھے۔ ملزم نے بے نامی کمپنیاں قائم کیں جن میں میسرز گڈنیچر ٹریڈنگ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ، میسرز یونیتاس سٹیل پرائیویٹ لمیٹڈ، میسرز وقار ٹریڈنگ کمپنی اور میسرز نثار ٹریڈنگ کنسرن (جو کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے ملازمین نثار احمد اور علی احمد کے نام تھی) شامل ہیں۔

ان کمپنیوں نے مبینہ طورپر 2400.088 ملین روپے کی منی لانڈرنگ کی۔ نیب کے مطابق ملزم نے غیر ملکی اثاثوں سمیت 96 ایچ ماڈل ٹاؤن لاہور، نشاط لاج ڈونگا گلی، وائسپرنگ پائینز میں ولاز اور ڈی ایچ اے لاہور میں گھر 619.858 ملین روپے کی لاگت سے خریدا۔ غیر قانونی طورپر حاصل کیے گئے 7328 ملین روپے کے اثاثوں کا جواز پیش کرنے کے تناظر میں ملزم اور اس کے خاندان کے ممبران نے 1597 ملین روپے کے غیر ملکی ترسیلات زر اور 1010 ملین روپے کا قرضہ ظاہر کیا تاہم یہ غلط ثابت ہوا اور ظاہر ہوا کہ مذکورہ ملزم اور اس کے اہل خانہ کو بیرون ملک سے پیسے نہیں بھیجے گئے جبکہ قرضہ بھی جھوٹا ذریعہ ثابت ہوا حالانکہ قرضہ لینے والوں کو شریف گروپ کے ملازمین کی جانب سے رقوم کی ادائیگی کی گئی۔

پس منی لانڈرنگ کی رقم سے حاصل کیے گئے اثاثوں کی ملکیت 6122 ملین روپے بنی جو کہ 2018ء میں 7328 ملین روپے تک پہنچ گئی جبکہ محمد شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے مجموعی ظاہر شدہ اثاثے 584.444 ملین روپے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان اور ان کے اہل خانہ کے یہ اثاثے ان کی آمدن سے زیادہ ہیں۔ نیب کے مطابق ملزمان نے آمدن سے زائد اثاثوں کا جواز پیش کرنے کے لیے آمدن کے جعلی ثبوت پیش کیے۔ انوسٹی گیشن کے دوران معلوم ہوا کہ ملزمان کے ظاہر شدہ اور غیر ظاہر شدہ اثاثے سامنے آ چکے ہیں جو کہ ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے اور ان کے ذرائع آمدن جعلی ثابت ہوئے ہیں۔