ایبٹ آباد کے اراکین اسمبلی کی عدم دلچسپی کے باعث ہاکی سٹیڈیم گندگی اور غلاظت کے جوہڑ اور فلتھ ڈپو میں منتقل ہو گیا

وزیراعلیٰ محمود خان بلیو ٹرف بچھانے، نئے شیڈز اور پویلین بنانے سمیت دیگر کاموں کی سرانجام دہی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں, عوامی حلقے

منگل 29 ستمبر 2020 22:35

ایبٹ آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 ستمبر2020ء) ایبٹ آباد سے اراکین اسمبلی کی عدم دلچسپی اور سپورٹس ڈائریکوریٹ خیبر پختونخوا کی بے توجہی کی بناء پر ایبٹ آباد ہاکی سٹیڈیم گندگی اور غلاظت کے جوہڑ اور فلتھ ڈپو میں منتقل ہو گیا ہے، گذشتہ تین سالوں سے نئی آسٹروٹرف کی منظوری اور بچھانے کا عمل خواب سے تعبیر کی راہوں میں گم ہو کر رہ گیا ہے اور ابھی تک کسی مسیحا کا منتظر ہے، دوسری جانب وفاق اور صوبائی حکومتیں نئی ٹرف کی فراہمی پر متفق ہی نہیں ہو سکیں اور یہ ٹرف دونوں حکومتوں کے درمیان ایک سینڈوچ بن چکی ہے جس سے ہاکی کا تباہ حال کھیل مزید پستی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے اور ایبٹ آباد کی کھیلوں کی مختلف تنظیموں نے اس حکومتی بے حسی پر سخت غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر نئی آسٹرو ٹرف اور ہاکی سٹیڈیم کی حالت زار بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

ہزارہ کا تاریخی ایبٹ آباد ہاکی سٹیڈیم جس میں 2006ء میں آسٹروٹرف بچھائی گئی تھی، کے بعد یہ سٹیڈیم تقریباً 10 سال سے زائد تک قومی ہاکی سرگرمیوں کا مرکز و محور رہا جہاں پاکستان سینئر، پاکستان وائٹ، پاکستان جونیئر ٹیموں کے لاتعداد تربیتی کیمپس کے انعقاد سمیت لاتعداد آل پاکستان ہاکی تورنامنٹس، نیشنل سینئر اور جونیئرز چیمپئن شپس اور قومی کھیلوں کے ہاکی ایونٹ کی میزبانی کا شرف بھی اپنے نام رکھتا ہے اور اپنے معتدل موسم کی بناء پر ایبٹ آباد کو ہمیشہ دیگر شہروں پر فوقیت حاصل رہی لیکن 2011ء میں ہونے والی شدید برفباری سے پہلے ناقص شیڈز برف کا بوجھ برداشت نہ کر پائے اور زمین بوس ہو گئے، پھر نئے شیڈز کی منظوری کے نعرے شروع ہو گئے، پھر اسی طرح 2017ء کے برسات کے موسم میں شدید بارشوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔

برسات کے بپھرے پانی نے نہ صرف سٹیڈیم کی دیوار کو ملیامیٹ کرتے ہوئے پوری آسٹروٹرف اور سٹیڈیم کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا، اس کے بعد دیوار تو لگا دی گئی لیکن سٹیڈیم میں پانی کی نکاسی کے بدستور عمل کو نہیں روکا جا سکا، اب حالت یہ ہے کہ مذکورہ سٹیڈیم تباہ حالی کا ایسا نمونہ بن چکا ہے جہاں کوئی چیز سلامت نہیں، سپورٹس آفس اور اس کا کثیر تعداد میں موجود سٹاف کے ہونے کے باوجود حفاظتی گرل، سٹیڈیم میں نکاسی کی نالیوں پر موجود لوہے کے سیوریج کورز بھی غائب ہونے کے علاوہ سٹیڈیم کو نصب شدہ فائبر کرسیاں جہاں تباہ حالی کا منظر پیش کر رہی ہیں وہاں دوسری جانب کیچڑ، دلدل، گندگی، غلاظت کچھ اور ہی بتا دے رہی ہیں اور پرانی نامکمل ٹرف اپنے نئے مکین اور مسکن کی راہ تک رہی ہے لیکن اسے کوئی مکین اور مسکن نہیں مل رہا۔

سپیکر خیبر پختونخوا کے بارہا وعدوں کے باوجود اور سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے اعلیٰ حکام، ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ کی مکمل بے حسی، بے توجہی اور مقامی ہاکی ایسوسی ایشن کا غیر فعال کردار بہت سے سوالات اٹھا رہا ہے کہ شہر کے اہم ورثہ کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے اور ہزاروں گرائونڈز بنانے کے نعرے لگانے والے کیا ایک موجودہ گرائونڈ اور ورثہ کو نہیں سنبھال سکتے وہ مزید کھیل کی ترقی کیلئے کیا کریں گے اور نئی بلیو ٹرف بچھانے کی ذمہ داری وفاق یا صوبہ میں سے کون نبھائے گا، اس کا جواب تاحال سوالیہ نشان ہے۔

اسی طرح لولی پاپ دینے کا عمل بھی بدستور جاری ہے اور صوبہ کے بعض سیاسی زعماء کے نعروں کی پھر گونج سنائی دے رہی ہے کہ اب صوبہ اس پراجیکٹ کو مکمل کرے گا لیکن اس کے آثار تاحال فائلوں تک ہی محدود ہیں۔ دوسری جانب ایبٹ آباد سپورٹس کونسل کے ترجمان نے حکومتی ذمہ داران اور وزیراعلیٰ محمود خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے فوری طور پر ایبٹ آباد ہاکی سٹیڈیم کی حالت زار کو بہتر بنانے سمیت نئی بلیو ٹرف بچھانے، نئے خوبصورت شیڈز اور پویلین بنانے سمیت دیگر کاموں کی سرانجام دہی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھیل کو پنپنے کا موقع دیں، اگر ایسانہ ہوا تو ایبٹ آباد کی سپورٹس تنظیمیں بھرپور احتجاج پر مجبور ہوں گی۔