پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، پی ایس ایل میں مالی بے قاعدگیوں کی ایک ماہ میں مکمل تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

بدھ 30 ستمبر 2020 13:06

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، پی ایس ایل میں مالی بے قاعدگیوں کی ایک ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 ستمبر2020ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان نور عالم خان، خواجہ محمد آصف، سردار ایاز صادق سید نوید قمر حنا ربانی کھر ،سیمی ایزدی، شاہدہ اختر علی اور مننزہ حسن سمیت دیگر ارکان اور متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

پی اے سی کے چیئر مین نے کہا کہ ایسے آڈٹ اعتراضات جو نہیں نمٹائے جا سکتے انہیں ایوان میں پیش کر دیا جائے کیونکہ ان سے متعلقہ لوگ یا تو وفات پا چکے ہیں یا نہیں مل رہے۔ آڈیٹر جنرل نے ان کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ایک خاص رقم کی حد مقرر کرکے ایسے کیس ڈی اے سی کی سطح پر نمٹائے جائیں۔

(جاری ہے)

پرنسپل اکائونٹنگ افسران اپنی برادری کا ساتھ دیتے ہیں۔

اجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے پی ایس ایل 1 اور2 سے متعلقہ 2018-19 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ آڈیٹر جنرل نے کہا پہلے تو ہمیں دستاویزات نہیں مل رہی تھیں اب ہم نے آڈٹ شروع کر دیا ہے۔اگلی رپورٹ بھی جلد پیش کر دیں گے۔ سیکرٹری آئی پی سی غفران میمن نے کہا کہ ہمیں پی سی بی کی طرف سے ورکنگ پیپر نہیں ملا اس لئے ڈی اے سی نہیں ہو سکی۔ چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے کہا ہمیں علم نہیں تھا کہ ہمیں ان سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ معاملات مجھ سے پہلے کے ہیں۔ پی اے سی کے ارکان نے ان کی اس بات پر برہمی کا اظہار کیا۔ پی اے سی کے چیئرمین نے کہا کہ چیئرمین پی سی بی ادارے کے سربراہ ہیں انہیں ایک ایک پائی کا حساب دینا پڑے گا۔ سیکٹری آئی پی سی پی سی بی کو بلا کر بریف کریں اور انہیں بتائیں کہ یہ معاملات کیسے چلتے ہیں۔ احسان مانی نے کہا کہ انہیں سپیشل آڈٹ کے حوالے سے ایجنڈا فراہم نہیں کیا گیا۔

ہمیں جو نوٹس ملا اس میں پی ایس ایل کے آڈٹ اعتراضات کا ذکر تھا پی سی بی کی سپیشل آڈٹ رپورٹ کا ذکر نہیں تھا۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ پی ایس ایل کے دونوں ٹورنامنٹس کے حوالے سے آڈٹ اعتراضات کی مالیت 2 ارب 77 کروڑ ہے۔ پی ایس ایل کی 3 فرنچائزز کم قیمت پر نیلام کیں جس سے 11 لاکھ ڈالر کا سالانہ نقصان ہوا۔ چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے کہا پی سی بی پر پیپرا قواعد لاگو نہیں ہوتے تاہم اس وقت حالات ایسے تھے کہ پی ایس ایل کرانا ضروری تھا۔

سید نوید قمر نے کہا کہ پی سی بی خود مختار ہوگا مگر یہ ادارہ حکومت کی ملکیت ہے۔ سیکٹری آئی۔ پی سی نے کہا کہ پیپرا قواعد میں اب ترمیم ہوئی ہے پہلے والے قواعد کے مطابق پی سی بی پر لاگو نہیں تھے ترمیم کے بعد لاگو ہوئے ہیں۔ شیری رحمان نے کہا کہ اگر خودمختار ادارے کے قواعد سرکاری قواعد سے مطابقت نہیں رکھتے تو قانون کے تحت اس پر وفاقی سرکاری قواعد بالادست ہوتے ہیں۔ نور عالم خان نے کہا کہ یہ تیاری کے ساتھ نہیں آئے کوئی بھی خودمختار سرکاری ادارہ ہو اس کا آڈیٹر جنرل آفس آڈٹ کر سکتا ہے۔ پی اے سی نے سیکٹری آئی پی سی کو پی ایس ایل میں مالی بے قاعدگیوں کی ایک ماہ میں مکمل تحقیقات کرکے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی رپورٹ پیش کی جائے۔