شوگر ملزنے کاشتکاروں کی اربوں روپے کی ادائیگیا ں روک لیں

مل مالکان مارکیٹ میں چینی پر مرضی کا ریٹ لے رہے ہیں مگر کسانوں کو ادائیگیاں روک رکھی ہیں‘حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے. رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 5 اکتوبر 2020 15:44

شوگر ملزنے کاشتکاروں کی اربوں روپے کی ادائیگیا ں روک لیں
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 اکتوبر ۔2020ء) جنوبی پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے گنے کے کاشتکاروں کو شوگر ملز سے اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے کیونکہ صوبائی حکومتیں 8.7 فیصد سے زائد سوکروز مواد والے گنوں پر کٹائی کے وقت معیاری پریمیئم دینے کے لیے ملز مالکان کو پابند کرنے کا قانون نافذ کرنے میں ناکام ہیں.

(جاری ہے)

صوبائی شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 میں کہا گیا ہے کہ ’صوبائی حکومت کرشنگ سیزن کے اختتام پر فیکٹریوں کو معیاری پریمیم ادا کرنے کی ہدایت کر سکتی ہے جس کی قیمت سوکروز ریکوری کے تناسب کے حساب سے صوبائی حکومت طے کرسکتی ہے معیاری پریمیم 1980 کی دہائی کے اوائل میں متعارف کرایا گیا تھا تاکہ کاشت کاروں کو سوکروز مواد کو بڑھانے کے لیے مختلف اقسام میں سے بہتر گنا کاشت کرنے کی ترغیب دی جائے.

معیاری پریمیم متعارف کرانے کے پیچھے دوسری وجہ یہ تھی کہ گنے کی قیمت میں انصاف کی ضمانت دی جاسکے کہ کاشتکاروں کو ان کی فصل کے سوکروز مواد کی بنیاد پر قیمت ملے نہ کہ صرف اس کے وزن کی بنیاد پر واضح رہے کہ کوالٹی پریمیم کسانوں کو اعلی سوکروز مواد کے لیے دی جانے والی اضافی قیمت ہے. رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ایک کاشت کار نے بتایا کہ گنے کی کم سے کم قیمت صوبائی حکومتوں نے 20سوکروز مواد کی سطح کی بنیاد پر طے کی ہے لہذا اس کی وجہ سے بیس سطح کے سوکروز کے مواد سے زیادہ بہتر اقسام کی کاشت کرنے والے کسانوں کو ان کی بہتر کاشت کے بدلے زیادہ معاوضہ دیا جانا چاہیے‘ان کے مطابق سندھ اور جنوبی پنجاب میں شوگر ملز 8.7 فیصد کی بنیادی سطح کے خلاف 11.5-12 فیصد تک سوکروز حاصل کر رہی ہیں.

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملرز گنے کی اتنی ہی مقدار سے بہت زیادہ چینی بناسکتے ہیں جو دیگر ملز 20 لیول کے گنوں سے بنارہے ہیں لیکن اس کے لیے وہ ہمیں ادائیگی نہیں کررہے ہیں، اگر ہمیں اس کا معاوضہ نہیں ملتا ہے تو ہمیں فصل پر زیادہ خرچ کرنے اور زیادہ محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے ایک کسان نے کہا کہ مارچ 2018 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے باوجود نہ ہی پنجاب اور نہ ہی سندھ معیاری پریمیم قانون نافذ کررہے ہیں.

انہوں نے بتایا کہ اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی سپریم کورٹ کے بینچ نے معیاری پریمیم کو آئینی اور قانونی طور پر قابل نفاذ قرار دیا تھا عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ معیاری پریمیئم سے انکار غیر منصفانہ ہوگا کیونکہ یہ اعلی سطح کے سوکروز مواد کو حاصل کرنے میں کاشتکاروں کی شراکت کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے جس کا براہ راست نتیجہ اعلی چینی کی پیداوار میں ہوتا ہے.