پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس

بدھ 7 اکتوبر 2020 16:00

اسلام آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 اکتوبر2020ء) : پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان نور عالم خان، شاہدہ اختر علی، سید نوید قمر، مشاہد حسین سید، سیمی ایزدی، ریاض فتیانہ، سید حسین طارق، خواجہ شیراز محمود، سردار ایاز صادق، سینیٹر طلحہ محمود، خواجہ محمد آصف اور حنا ربانی کھر سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

ایچ بی ایل پی پی او ڈی الائنس کے حوالے سے سیکرٹری مواصلات نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے گرے لسٹ میں ڈالا گیا۔ 40 نکات میں سے 13 پاکستان پوسٹ سے متعلقہ تھے۔ پوسٹل سروس اب بھی مینوئل طریقے سے کام کر رہی ہے کیونکہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارے پاس وقت کم تھا اس لئے ہم نے حبیب بنک کے ساتھ اشتراک کیا۔

آئین کے تحت ہم سٹیٹ بنک کے زیر نگرانی آجائیں گے۔ 3 جون 2020 میں ہمارا حبیب بنک سے معاہدہ ہوا ہے۔حبیب بنک مالیاتی ٹرانزیکشنز کے لئے ڈیجیٹل سسٹم فراہم کرے گا۔ ہمیں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دی گئی 30 ستمبر سے پہلے کام مکمل کرنا تھا۔ یہ الائنس ایک الگ کمپنی کے تحت کام کرے گا۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ سکیورٹی اور ایف اے ٹی ایف کے نام پر ہمیں بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔

سردار ایاز صادق نے کہا کہ اس معاہدے میں پیپرا رولز کو نظر انداز کیا گیا ہے اور لا ڈویڑن کی طرف سے دی گئی سفارشات سمیت نیب آرڈیننس کو کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ ہمیں اس معاہدے میں سنگین بے قاعدگیاں نظر آئی ہیں۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان پوسٹ نے حبیب بنک کو اپنے ہاتھ کاٹ کر دے دیئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب کا نمائندہ یہاں موجود ہوتا ہے ان کیسز کا انہیں نوٹس لینا چاہئے۔ یہ صرف سیاستدانوں کے خلاف کاروائی کرتے ہیں۔ سید نوید قمر نے کہا کہ کل معاہدہ کتنی مالیت کا ہے واضح نہیں ہے۔ بغیر قواعد کے پارٹنرشپ کرنے کا اتنا بڑا معاہدہ کیسے ہو سکتا ہے۔ آڈٹ حکام نے سردار ایاز صادق کی معاہدے کے حوالے سے چارج شیٹ کے حوالے سے پی اے سی کو بتایا کہ15 دنوں میں اٹھائے گئے نکات کو مد نظر رکھ کر دوبارہ رپورٹ پی اے سی میں پیش کریں گے۔

پی اے سی نے آڈٹ کو ہدایت کی کہ لا ڈویڑن سمیت تمام سرکاری اداروں سے معاونت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ گرینڈ حیات ہائٹس کے ڈویلپر کمپنی کے سی ای او عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ عدالت کے حکم پر قائم تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کسی بے قاعدگی کی نشاندہی نہیں کی۔ جب سے کیس شروع ہوا ہے ہمیں نقصان ہو رہا ہے۔ رقم اس لئے نہیں دے رہے کہ نیب کے پاس کیس ہے۔

رانا تنویر حسین نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پہلی قسط بھی ادا نہیں کی گئی۔ پہلی قسط ادا کریں تا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نظر آئے۔ پی اے سی مسئلہ حل کرانے میں کردار ادا کرے گی۔ چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ ڈویلپر کے ساتھ مل بیٹھ کر ہم پیمنٹ شیڈول ایک ماہ میں بنا لیتے ہیں۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ گرینڈ حیات ہائٹس کے متاثرین کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔