بجلی کی ترسیل و تقسیم اور پیداوار کے لیے مختلف کمپنیوں کو اجازت دی جائے ، حافظ نعیم الرحمن

کے الیکٹرک کی اجارہ داری ختم ، 15سال کا فارنزک آڈٹ کرایا جائے ، نیپرا کو تحریری سفارشات ارسال کر دی گئیں کے الیکٹرک جہاں قومی اداروںکانادہندہ ہے وہیں صارفین کے کلاء بیک کی مد میں 42 ارب روپے سے زائد بھی اس پر واجب الادا ہیں

جمعرات 8 اکتوبر 2020 23:45

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اکتوبر2020ء) امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے نیپرا عوامی سماعت میں کے الیکٹرک لمیٹیڈ کے ڈسٹری بیوشن لائسنس میں نیپرا کی مجوزہ ترمیم کے حوالے سے مختلف سفارشات پر مشتمل جماعت اسلامی کا عوامی موقف تحریری طور پر نیپرا کو ارسال کر دیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کے الیکٹرک کا گزشتہ 15 سال کا فرانزک آڈٹ کیا جائے اور اس کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے۔

کے الیکٹرک کی اجارہ داری ختم کی جائے اس کے لیے ٹرانسمیشن ، پیداوار اور ڈسٹری بیوشن کے شعبوں کو علیحدہ کر کے دیگر کمپنیوں کوکام کرنے کی اجازت دی جائے۔ صارفین کو اس بات کا حق حاصل ہو کہ وہ جس کمپنی سے چاہیں بجلی خریدیںاور کمپنیوں کے مابین مقابلے کی صورت میں نہ صرف بجلی کے نظام میں جدت و بہتری آئے گی بلکہ صارفین کو سستی اور بلاتعطل بجلی بھی میسر آئے گی۔

(جاری ہے)

کے الیکٹرک کے ڈسٹری بیوشن لائسنس میں نیپرا کی جانب سے مجوزہ ترمیم کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے اسے فوری طور نافذ العمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ کے الیکٹرک کی اجارہ داری کے باعث کراچی کے صارفین کے استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔حافظ نعیم الرحمن کی طرف سے بھیجی گئی سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک جہاں قومی اداروں، سوئی سدرن گیس اور NTDC کااربوں روپے کا نادہندہ ہے وہیں کراچی کے شہریوں کے کلاء بیک کی مد میں 42 ارب روپے سے زائد کے الیکٹرک پر واجب الادا ہیں۔

کی ای کی نجکاری ہوئے پندرہ برس کا طویل عرصہ گزر گیا مگر کراچی سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ انتہائی قومی اہمیت کے حامل اثاثوںکو ایک آف شور کمپنی کو فروخت کرتے وقت یہ بات بتائی گئی تھی کہ کے ای ایس سی کو ہر سال ایک بڑی رقم بطور سبسڈی دی جاتی ہے جو کہ سرکاری خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہے۔ بجلی کمپنی کمزور اور بوسیدہ ٹرانسمیشن ، پیداوار اور ڈسٹری بیوشن کے نظام کو سرمایہ کاری کر کے بہتر بنائے گی جس کے نتیجے میں کراچی کے شہریوں کو سستی بجلی ملے گی، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا اور حکومت کو سبسڈی نہیں دینی پڑے گی اور ادارہ بھی بجلی کی پیداوارمیں خود کفالت حاصل کرے گا۔

مگر کراچی کے شہری آج بھی بد ترین لوڈ شیڈ نگ ، اوور بلنگ اور فیول ایڈجسٹمنٹ ، سہ ماہی ایڈ جسٹمنٹ کے نام پر آئے دن مہنگی بجلی سے تنگ آچکے ہیں۔ جبکہ کے الیکٹرک ایسے نجی ادارے کو 90 ارب روپے سالانہ تک سرکاری خزانے سے سبسڈی دے کر نواز اجارہاہے۔ نجکاری کا مقصد تو حاصل نہ ہو سکا مگر کے الیکٹرک اپنی اجارہ داری قائم رکھتے ہوئے اربوں روپے کا منافع شہر کراچی سے ہر سال کمارہا ہے اور آج بھی اس کا انحصار NTDC اور IPPsسے حاصل کردہ بجلی پر ہے۔

اس کے باوجود بھی ادارہ بجلی کی پیداوار میں خود کفالت حاصل نہ کر سکا۔ اس کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے بوسیدہ نظام کی وجہ سے ہر سال بارش کے دوران طویل لوڈ شیڈنگ اور بڑی تعداد میں شہری کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ جس کی بڑی بنیادی وجہ ارتھنگ سسٹم کانہ ہونا اور معاہدوں کے مطابق بجلی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مطلوبہ سرمایہ کاری نہ کرنا ہے۔