سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس

جیل اصلاحات کے علاوہ وفاقی دارالحکومت میں کورونا کے پھیلائو اور موجودہ صورتحال کے حوالے سے اقدامات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ظلم وبربریت ، انسانی حقوق کی پامالی اور معصوم کشمیریوں کو قید و بند کے حوالے سے مذمتی قرار دادبھی پیش افسوس کی بات ہے پاکستان اور ترکی کے علاوہ اقوام متحدہ کی کسی بھی رکن نے کشمیر میں بھارتی مظالم پر آواز نہیں اٹھائی، چیئرمین کمیٹی حکومت پاکستان سے مودی کیخلاف اقوم متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں جانے کا مطالبہ

جمعہ 9 اکتوبر 2020 23:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اکتوبر2020ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر محمد جاوید عباسی کی طرف سے 13 جولائی 2020 کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری کریمنل پراسیکویشن سروس (آئین ،فنگشنزاور اختیارات)ترمیمی بل 2020 ، سینیٹر محمد جاوید عباسی کی طرف سے 24 اگست2020 کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری واٹر سائیڈز سیفٹی بل 2020 ، سینیٹر محمد جاوید عباسی کی طرف سے 24 اگست2020 کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے کوڈ آف کریمنل پروسیجر ترمیمی بل2020 ، سینیٹر محمد جاوید عباسی کی طرف سے 13 جولائی2020 کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے بل اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری لاء آفسیر بل 2020 ، وزارت داخلہ سے ملک بھر کی جیل اصلاحات کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کرونا وبا کے پھیلائو اور موجودہ صورتحال کے حوالے سے اقدامات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ظلم وبربریت ، انسانی حقوق کی پامالی اور معصوم کشمیریوں کو قید و بند کے حوالے سے مذمتی قرار داد پیش کی گئی ۔قرار داد میں مقبوضہ کشمیر میں جاری کرفیو کے دنوں کوتاریخ کے سیاہ ترین ایام میں شمار کیا گیا اور قرارداد میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اقوام متحدہ تقریر کی مذمت کی گئی جس نے مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر تقریر میں نظر انداز کیا ۔

قرار داد میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر اور ترکی کی کشمیریوں کے حوالے سے آواز اٹھانے کو سراہا گیا اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو تسلسل جاری ہے اس کو مزید برقرار رکھا جائے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان اور ترکی کے علاوہ اقوام متحدہ کی کسی بھی رکن نے کشمیر میں بھارتی مظالم پر آواز نہیں اٹھائی۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی اقوام متحدہ سے اپنے سلامتی کونسل کے منظور کردہ قراردادوں پر عمل کروانے کا مطالبہ کرتی ہے اورحکومت پاکستان سے مودی کیخلاف اقوم متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں جانے کا مطالبہ کرتی ہے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر محمد جاوید عباسی کی طرف سے 13 جولائی 2020 کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری کریمنل پراسیکویشن سروس (آئین ،فنگشنزاور اختیارات)ترمیمی بل 2020 کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کمیٹی کو بل لانے وجوہات بارے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں پروسیکیوشن برانچ نہیں ہے ۔باقی صوبوں میں یہ برانچیں موجود ہیں ۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی فرد جرم کرتا ہے تو اس کو سزا دلوائے مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس اچھا وکیل حاصل کرنے کے وسائل نہیںہوتے اس بل کی اشد ضرورت ہے ۔

دنیا بھر میں ایسا طریقہ کار ہے ۔ ہمارے صوبوں کے پاس سسٹم ہے مگر آئی سی ٹی میں نہیں ہے ۔آئینی برانچ ہونا چاہیے ۔ سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ حرارکی ہونا چاہے اور طریقہ کار کو واضح کرنا چاہیے ۔ سینیٹر کہدہ بابر نے کہا کہ ایک لیگل ایڈ اتھارٹی بھی ہے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لیگل ایڈ اور پراسیکویشن برانچ کو ساتھ چلنا ہے ۔

قائد ایوان سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ وزارت داخلہ اور وزارت قانون سے نہ ہی ورکنگ پیپر آئے ہیں نہ ہی رائے دی گئی ہے ۔ ان کی تجاویز کا جائزہ لے کر پھر فیصلہ کیا جائے ۔جس پر کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت داخلہ وزارت قانون کے ساتھ مل کر ایک ہفتے کے اندر رپورٹ فراہم کرے ورنہ ایک ہفتے کے بعد اس بل کو منظور سمجھا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اسلام آباد ایک صوبے کی شکل اختیار کرچکا ہے مگر قانونی لوازمات پورے نہیں ہوئے ہیں۔

وقت کی ضرورت ہے کہ اسلام آباد ایڈمنسٹریشن و عملے کی قانونی مشکلات دور ہو۔سینیٹر محمد جاوید عباسی کی طرف سے 24 اگست2020 کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری واٹر سائیڈز سیفٹی بل 2020کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ دنیا بھر میں دریائوں ، ندی ، نالوں میں جانے کیلئے حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ دیگر معلومات بھی لکھی ہوتی ہیں ۔

مگر پاکستان میں ہر سال بے شمار افراد پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ اس بل کی پورے ملک کو ضرورت ہے مگر ابھی اس کو اسلام آبا د کی حد تک محدود رکھا گیا ہے ۔سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ نے کہا کہ اچھا بل حالات کے مطابق ہونا چاہیے مگر یہ قوانین انتظامیہ میں شامل ہیں اگر یہ قانون بنایا گیا کہ تو اتھارٹی یا کمیشن بنانا پڑے گا ۔ قائد ایوان سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ محکمے پر محکمہ اور ملازمین بھرتی کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔

لوکل باڈیز کے بل میں ترمیم کر کے اس کو شامل کیا جا سکتا ہے ۔لوکل حکومت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے ان کے انڈر میں بھی یہ چیزیں لائی جا سکتی ہیں تاکہ مسائل حل ہو سکیں ۔انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ اور وزارت قانون نے اس بل کے حوالے سے بھی ورکنگ پیپر اور رائے نہیں دی ۔ چیف کمشنر اسلام آباد نے کہا کہ سی ڈی اے کے ریگولیشن میں بھی دیا جا سکتا ہے ۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قانون بن جاتے ہیں رولز نہ ہونے کی وجہ سے عملدرآمد میں مشکلات سامنے آتی ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے وزارت داخلہ اور وزارت قانون کو ہدایت کہ ایک ہفتے کے اندر پر رائے دی جائے ورنہ اس بل کو پاس تصور کیا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ متعلقہ ادارے تیاری کے ساتھ کمیٹی کو بریف کریں اور ورکنگ پیپر بروقت کمیٹی کو فراہم کیے جائیں اور آئندہ احتیاط اختیار کی جائے ۔

سینیٹر محمد جاوید عباسی کی طرف سے 24 اگست2020 کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے کوڈ آف کریمنل پروسیجر ترمیمی بل2020 کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ جہاں جرائم ہوتے ہیں اور سزا دی جاتی ہے تو وہی سے سزائوں میںکمی یا سزا ختم کرنے کا میکنزم موجود ہونا چاہے ۔اسلام آباد ہائیکورٹ تو بن گیا مگر سزائوں میں کمی یا ختم کرانے کے حوالے سے صوبے کے پاس جانا پڑتا ہے ۔

جس پر چیف کمشنر اسلام آباد نے کمیٹی کو بتایا کہ چیف کمشنر آفس صدارتی آرڈنینس کے تحت کام کر رہا ہے جہاں فیڈرل ٹیرٹری ہوگی وہاں چیف کمشنر ہوگا اور جہاں صوبائی حکومتیں نہیں ہوگی وہاں بھی وفاقی چیف کمشنر ہی ہوگا ۔ہوم ڈیپارٹمنٹ کے اختیارات چیف کمشنر آفس استعمال کر رہا ہے ۔جس پر سینیٹر رحمان نے کہاکہ چیف کمشنر آفس کتنا آزاد ہے اس کا جائزہ لینے کیلئے چیف کمشنر اسلام آباد، سینیٹر محمد جاوید عباسی کے ساتھ مل کر جائزہ لیں کہ آئین پاکستان کے تحت اس کو کس طرح آزاد اور خود مختار بنایا جا سکتا ہے ۔

کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں صدارت آرڈنینس بھی طلب کر لیا ۔ قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اور سیکرٹری قانون کو طلب کر لیا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلا س میں سینیٹر محمد جاوید عباسی کی طرف سے 13 جولائی2020 کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے بل اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری لاء آفسیر بل 2020 کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بنایا گیا تو ایک آرڈر کے ذریعے ایڈووکیٹ جنرل لگایا گیا جو کہ غیر قانونی تھا ۔

ایڈووکیٹ جنرل کا ایک آفس ہوتا ہے جس میں صوبے کے کیسز بھی دیکھے جاتے ہیں ۔آرٹیکل140 کے تحت ایڈووکیٹ جنرل کی تقرری اور دیگر چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ ایڈووکیٹ جنرل کے نیچے دیگر ملازمین بھی ہوتے ہیں ایک پورا سسٹم ہے جس کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔لاء آفسیر کا بل پاس ہونا چاہیے ۔جس پر چیف کمشنر اسلام آباد نے کمیٹی کو بتایا کہ 2015 کے صدارتی آرڈنینس کے ذریعے ایڈووکیٹ جنرل لگایا گیا تھا ۔

قائمہ کمیٹی کے صدارتی آرڈنینس طلب کر لیااور کثرت رائے سے بل کی منظوری بھی دے دی ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کی جیلوں میں اصلاحات کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قیدیوں کے بھی حقوق ہیں جن کا ہم نے خیال رکھنا ہے۔ قیدیوں سے ناروا سلوک کی شکایت پہلے بھی کمیٹی کو موصول ہوئے ہیں۔ کمیٹی برائے داخلہ خواتین قیدیوں کے لئے علیحدہ انتظامیہ کی سفارشات کر چکی ہے اوروقت کی ضرورت ہے کہ قیدی خواتین کیلئے علیحدہ جیل اور خواتین عملہ و انتظامیہ ہو۔

قائمہ کمیٹی نے سینیٹر رانا مقبول احمد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی سے جیل اصلاحات کے حوالے سے رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کر دی ۔ قائمہ کمیٹی نے ذیلی کمیٹی کو چاروں صوبوں کے ہوم سیکرٹریز ، آئی جیز اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر جیل اصلاحات پر رپورٹ تیار کرنے کی سفارش کر دی اور ملک کی کسی بھی جیل کا اچانک دورہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا تاکہ قیدیوں کی حالات زار اور قید خانوں کے حوالے سے معلومات حاصل کی جا سکیں ۔

سینیٹر کلثوم پروین نے کہاکہ پاکستان کے جیل خانوں کے علاوہ دارالامان کی حالت زار بھی انتہائی افسوسناک ہے ۔ وہاں عورتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اور خواتین کے حقوق کا جو استحصال کیا جاتا ہے وہ بیان بھی نہیں کیا جا سکتا ۔قائمہ کمیٹی نے دارالامان کا بھی اچانک دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں کرونا وبا کی دوسری لہر اور خاص طور پر وفاقی دارالحکومت میں کرونا کیسز کی موجودہ صورتحال اور اس کے تدارک کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آبا د نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد میں 527 ایکٹو کیسز ہیں اور آج کے دن 100 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ۔ اسلام آباد میں 4 لاکھ افراد کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور 2 فیصد سے کم مثبت کیسز آئے ہیں ۔ اب تک 186 اموات ہوئی ہیں اور لوگ ایس او پیز پر عمل کریں ۔ لوئی بھیر ، جی نائن ، جی ٹین اور جی سکس میں زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں ۔

وہ علاقے جہاں ہسپتال قائم ہیں وہاں بھی کیسز سامنے آئے ہیں ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ اب تک متعدد سکولوں اور دکانوں کو سیل کیا گیا ہے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ میں نے پیشنگوئی دی تھی کی سردیوں کیساتھ کورونا کے کیسز میں مزید اضافہ ہوگا۔انہوںنے کہا کہعوام میں اب تک کورونا کے متعلق غلط فہمی پائی جاتی ہے۔میڈیا کے ذریعے عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ عوام میں کورونا کے متعلق آگاہی پیدا کی جائے اورعوام سے اپیل ہے کہ کورونا وائرس کیخلاف اختیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرے۔

عوام جان لے کہ کورونا کا خاتمہ نہیں ہوا ہے بلکہ وقتی کمی پیش آئی ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ چین کے شکرگزار ہیں جنہوں کے کورونا کیخلاف لڑنے میں ہماری بھرپور مدد کی اورقائمہ کمیٹی نے اسلام آباد انتظامیہ ، وزارت صحت ، نیشنل کمانڈ اینڈ کنڑول سینٹر اور قومی ادارہ صحت کے کرونا وبا کیخلاف انتظامات اور اقدامات کو سراہا ۔چیئر مین قائمہ کمیٹی داخلہ نے بول ٹی وی کے وائس پریذیڈنٹ کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ سے رپورٹ طلب کرلی۔

قائمہ کمیٹی کے جمعہ کے اجلاس میں قائد ایوان سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم ،سینیٹرز کلثوم پروین ، محمد جاوید عباسی ، میاں محمد عتیق شیخ ، رانا مقبول احمد ، کہدہ بابر ، سردار محمد شفیق ترین کے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ ، لیگل ایڈوائز وزارت قانون ،چیف کمشنر اسلام آباد ، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ، اے آئی جی اسلام آباد پولیس اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔