قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فکر و عمل کی بنیاد قرآنِ مجید کی تعلیمات اور حضور اقدسؐ کی سیرتِ طیبہ پر تھی، پروفیسر عطاء الرحمن

منگل 20 اکتوبر 2020 18:55

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 اکتوبر2020ء) قائداعظم محمد علی جناحؒکے فکر و عمل کی بنیاد قرآنِ مجید کی تعلیمات اور حضور اقدسؐ کی سیرتِ طیبہ پر تھی۔ انہیں اسلامی تاریخ و تہذیب کا گہرا شعور تھا اور اسی بنیاد پر اُنہوں نے مسلمانوں اور ہندوئوں کو دو علیحدہ قومیں ثابت کیا۔ مجید نظامی مرحوم نے اپنے خونِ جگر سے نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کی آبیاری کی اور اس کے منصوبے ایوانِ قائداعظمؒ کو پروان چڑھایا جو اِن شاء اللہ افکار قائداعظمؒ کے ابلاغ کا عالمی مرکز اور کارکنان تحریک پاکستان کے خوابوں کی تعبیر ثابت ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار ممتاز دانشور‘ صحافی اور روزنامہ نئی بات کے گروپ ایڈیٹر پروفیسر عطاء الرحمن نے ایوانِ قائداعظمؒ فورم کی گیارہویں ماہانہ نشست میں کلیدی مقرر کے طور پر ’’قائداعظمؒبحضور سرور کائناتؐ‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے تحت اس نشست کا انعقاد ایوانِ قائداعظمؒ، جوہر ٹائون‘لاہورمیں ہوا جس کی نظامت کے فرائض ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے سرانجام دیے۔

نشست کا آغاز حسب معمول تلاوتِ قرآن حکیم‘ نعت رسول مقبولؐ اور قومی ترانے سے ہوا۔ تلاوت اور بارگاہِ رسالت مآبؐ میں گلہائے عقیدت پیش کرنے کا شرف محمد بلال ساحل نے حاصل کیا۔ اس موقع پر سابق صوبائی وزیر تعلیم میاں عمران مسعود‘ معروف مذہبی سکالر بیگم خالدہ جمیل‘ ڈاکٹر بلال افضل‘ احمد تاثیر انور اور منظور حسین خان بھی موجود تھے جبکہ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول‘ علی رضا آباد‘ رائیونڈ روڈ لاہور کے طلبہ نے بھی اپنے ٹیچر صوفی وقار احمد کی قیادت میں اس نشست میں شرکت کی۔

پروفیسر عطاء الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ قوم سازی میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ ایوانِ قائداعظمؒ دراصل ایک نظریاتی یونیورسٹی ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ ابھی اس نے تدریجاً بہت سارے مراحل طے کرنے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ آپؐ کے طفیل ہمیں نہ صرف اخلاقیات‘ روحانیت‘ بندگی کا شعور ملا بلکہ آپؐ اعلیٰ درجے کے منتظم بھی تھے۔

اُنہوں نے ایک ریاست قائم کی اور کامیابی سے اسے چلا کر دکھایا۔ وہ ایک اسلامی‘ فلاحی ریاست تھی۔ آپؐ کی مثالی ریاست خواب یا خیال کی ریاست نہیں تھی بلکہ وہ عملی طور پر ظہور پذیر ہوئی۔ اُنہوں نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بے لوث اور بے باک قیادت میں ہم پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بانئ پاکستان جب لندن پڑھنے گئے تو وہاں بھی عیدمیلاد النبیؐ کی تقریبات میں شرکت کی۔

ان کی زندگی میں جب بھی عیدمیلادالنبیؐ کا موقع آیا تو اُنہوں نے اسے ضرور منایا۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے سیاست دان اور روشن دماغ انسان تھے۔ ان کے سامنے حضورؐ کی سیرت کا ہر پہلو روزِ روشن کی مانند عیاں تھا۔ وہ اپنی کمیونٹی میں آپؐ کے اخلاق و فضائل بھی بیان کرتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آپؐ کے فضائل بیان کئے ہیںاورقائداعظم محمد علی جناحؒ نے آپؐ کی ذات کو اپنا محور و مرکز مان لیا تھا اور وہ اس سے رہنمائی لیتے تھے۔

وہ نہ سیکولرتھے‘ نہ کٹر ملا اور نہ شخصیت پسند آمر تھے۔ اُنہوں نے ’’لنکنزان‘‘ میں اسی لئے داخلہ لیا تھا کہ وہاں دنیا کے عظیم قانون دانوں کی فہرست میں حضرت محمدؐ کا اسم گرامی بھی درج تھا۔ وہ اسلام اور مسلمان کی نشاةِ ثانیہ پر یقین رکھتے تھے۔ وہ اس بات کے سختی سے قائل تھے کہ مسلمان‘ ہندوئوں کے ساتھ ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ اگر یہ دونوں ایک ساتھ رہیں گے تو دو قدم اکٹھے نہیں چل سکتے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ قائداعظمؒ اپنا لائحہ عمل اور جذبہٴ محرکہ قرآنِ مجید اور آپؐ کے ارشادات کی روشنی میں طے کرتے۔ وہ اسلامی جزا اور سزا کے قائل تھے۔ وہ قرآن مجید کی اس آیت (ترجمہ)’’جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ(ہی) ہمارا رب ہے پھر اس پر قائم رہتے ہیں تو ان پر فرشتے اترتے ہیں اور ان کو کوئی غم اور خوف نہیں ہوتا‘‘ کی عملی تفسیر تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو مختلف ترغیبات کے ذریعے لالچ دیا گیا کہ کسی طرح وہ مطالبہٴ پاکستان سے پیچھے ہٹ جائیں لیکن اُنہوں نے سب کچھ ٹھکرا دیا۔

وہ ذاتی طور پر اقتدار یا مفاد کی خواہش نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ مسلمانانِ ہند کے لیے ایک الگ ریاست کے خواہاں تھے جو بالآخر اُنہوں نے پالی۔ قائداعظمؒ نے مسلمانانِ برصغیر کو قومیت کی اس لڑی میں پرودیا جس کا حکم آپؐ نے خطبہٴ حجة الوداع کے دوران دیاتھا۔ اُنہوں نے کہا کہ بانی پاکستان نے زندگی گزارنے کا شعور اسلام اور اسلامی تعلیمات سے ہی اخذ کیا تھا۔

آج کچھ لوگ قائداعظمؒ کی تقاریر کو اپنے رنگ ڈھنگ سے پیش کرکے انہیں سیکولر ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جوقابل مذمت اور قابل نفرت ہے۔ بانئ پاکستان نے سٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسلامی اقتصادی نظام چاہتے ہیں کیونکہ دنیا میں رائج دوسرے نظام ناکام ہوچکے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ ایوانِ قائداعظمؒ جناب مجید نظامی اور تحریک پاکستان کے کارکنوں کے ویژن کے مطابق آگے بڑھے گا۔

میاں عمران مسعود نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نسل نو میں پاکستانیت نقش کرنے اور قائم ودائم رکھنے کے لیے نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ اور مرحوم مجید نظامی کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ آج ہمیں نوجوان نسل کو ایک سمت دینے کی اشد ضرورت ہے اور وہ سمت سوائے اسلام کے اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بھی انہی اصولوں پرعمل کیا جو اسلام نے متعین کررکھے تھے۔

قائداعظمؒ نے نوجوانوں کو بار بار مخاطب کیا اور انہیں تعلیم پر توجہ دینے کو کہا۔ یہ مہینہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اسلامی قوانین اور ضابطوں کو اپنائیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نسل نو کی تربیت کریں۔ ہماری ایک ہی پہچان ہے اور وہ پاکستان ہے۔ اسی طرح مسلمان ہونا بھی ایک انعام ہے۔ مجھے کامل اُمید ہے کہ ہم نسل نو تک اپنا پیغام کامیابی سے پہنچا کر دم لیں گے۔

بیگم خالدہ جمیل نے کہا کہ ہم اس وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب آپؐ کے اسوہٴ حسنہ پر عمل کریں گے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے قرآنِ مجید کے زریں اصولوں پر زندگی گزاری۔ نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تمام تر توجہ نئی نسلوں کی تعلیم و تربیت پرہے۔ نئی نسل پرجوش اور پرعزم ہے۔ہم اس کے دل و دماغ میں حضور اقدسؐ کی محبت اور عظمت نقش کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کے لئے جشن عیدمیلاد النبیؐ کی مناسبت سے مختلف النوع پروگرام ترتیب دیے ہیں۔

ایوانِ قائداعظمؒ اس نظریاتی تعلیم و تربیت کاایک گہوارہ ثابت ہوگا۔ ہم اپنے وسائل کے مطابق پوری کوشش کررہے ہیں کہ نسل نو کی ذہنی آبیاری کریں۔ قائداعظمؒ اورپاکستان کے متعلق جو ابہام پھیلایا جارہا ہے‘ اس کے خلاف نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے توانا اور بلند ترآواز اِن شاء اللہ ہر دور میں گونجتی رہے گی۔ ہم سب مل جُل کر پاکستان کی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچائیں گے۔