بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف چلائی جانے والی مہم کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے،سیدہ شہلارضا

جب تک ہم اجتماعی طور پر اس مرض سے متعلق آگاہی کو فروغ دینے کیلئے اپنا کردار ادانہیں کریں گے اسطرح کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرسکتے،صوبائی وزیر

بدھ 21 اکتوبر 2020 23:26

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اکتوبر2020ء) سندھ کی صوبائی وزیر برائے ترقی نسواں سیدہ شہلا رضانے بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف چلائی جانے والی مہم کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا کہ اس مرض کا سدباب اسی صورت ممکن ہے جب ہم اس مرض سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی کوفروغ دیں گے۔خواتین کو چاہیئے کہ ہر ماہ باقاعد گی کے ساتھ اس حوالے سے ٹیسٹ کرائیں کیونکہ بروقت تشخیص کی صورت میں ہی اس مرض پر قابوپایاجاسکتا ہے۔

ہمیں اس مرض میں مبتلا افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے،جب تک ہم اجتماعی طور پر اس مرض سے متعلق آگاہی کو فروغ دینے کے لئے اپنا کردار ادانہیں کریں گے ہم اس طرح کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ہمیں اس مرض کی علامات کو چھپانے کے بجائے اس کی بروقت تشخیص اورعلاج کو یقینی بنانا چاہیئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس مرض سے متعلق مختلف ویب سائٹ بشمول پنک پاکستان کی ویب سائٹ پر ویڈیوز موجود ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں آپ اس سے نہ صرف خودمعلومات حاصل کرسکتے ہیں بلکہ آگاہی کو فروغ دینے کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے دفتر مشیر امورطلبہ جامعہ کراچی اور پنک پاکستان ٹرسٹ کے اشتراک سے کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں منعقدہ بریسٹ کینسر آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سیمینار کے آغاز سے قبل سیدہ شہلا رضا،شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی اور پنک پاکستان ٹرسٹ کی بانی ڈاکٹر زبیدہ قاضی نے کراچی یونیورسٹی کلینک میں قائم کئے جانے والے بریسٹ کینسر آگاہی مرکز کا افتتاح بھی کیا۔

سیدہ شہلارضا نے مزید کہا کہ 35 سال سے زائد عمر کی خواتین کو اپنا میموگرام لازمی لازمی کراتے رہنا چاہیئے اورکراچی یونیورسٹی میں قائم ہونے والے بریسٹ کینسر آگاہی مرکز سے تمام طلبہ کو استفادہ کرناچاہیئے۔پنک پاکستان ٹرسٹ کی بانی و صدر ڈاکٹر زبیدہ قاضی نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پربریسٹ کینسر سے متعلق آگاہی اور بروقت تشخیص کی بناء پر اس مرض میں 30 فیصد کمی آئی ہے،جبکہ ایشیاء اور بالخصوص پاکستان میں اس مرض میں اضافہ ہورہاہے جس کی بڑی وجہ آگاہی کا فقدان ہے۔

پاکستان 22 کروڑ آبادی والا ملک ہے اور اس میں تقریباً 49 سے پچاس فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے جس میں سے تقریباً تین ملین خواتین کی عمریں 40 سے 45 سال کے درمیان ہیں اور اس عمر میں بریسٹ کینسر کے خطرات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ڈبلیو ایچ او اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہرسال تقریباً 90 ہزار خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جبکہ تقریباً50 ہزار خواتین اس مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

ہمیں اس سلسلے میں آگاہی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ڈاکٹر زبیدہ قاضی نے مزید کہا کہ میں شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کی تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں جامعہ کراچی اور پنک پاکستان ٹرسٹ کے اشتراک سے جامعہ کراچی جیسی عظیم درسگاہ میں بریسٹ کینسر آگاہی مرکزکے قیام کی منظوری دی۔جامعہ کراچی میں موجود طلبہ کی رضاکارانہ خدمات اور آگاہی کو فروغ دینے کی بدولت اس مرض سے متعلق آگاہی کو پاکستان کے کونے کونے تک پہنچایا جاسکتا ہے کیونکہ اس مرض سے متعلق آگاہی کو فروغ دینے کے لئے سرکاری اداروں اور بالخصوص جامعات سے بہتر جگہ کوئی نہیں ہوسکتی ۔

بریسٹ کینسر آگاہی مرکز کے قیام کا مقصد یہاں پر زیر تعلیم طلبہ کو بریسٹ کینسر کی علامات،جانچ کاطریقہ کار،بروقت تشخیص اور علاج سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تربیت بھی فراہم کرنا ہے۔جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ تدریس وتحقیق کے ساتھ ساتھ جامعات کا کردار معاشرتی مسائل کی نشاندہی اور حل میں بھی کلیدی ہے۔

بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا فیملی ممبر کی نہ صرف بحیثیت فیملی ممبر بلکہ بحیثیت انسان مدد اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہمیں اپنے خاندان والوں کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی اس حوالے آگاہی فراہم کرنی چاہیئے ،اسی صورت ایک صحت مند معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ہمیں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مرض کے سدباب کے لئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

جامعہ کراچی منی پاکستان ہے ،یہاں پر پورے پاکستان کے مختلف حصوں سے طلباوطالبات حصول علم کے لئے آتے ہیں اور یہ طلبہ ہی پورے ملک میں اس مرض سے متعلق آگاہی کو فروغ دینے کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔ہمیں آگاہی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مرض کے سد باب کے لئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔انہوںنے مشیر امورطلبہ ڈاکٹر سید عاصم علی،پنک پاکستان ٹرسٹ کی بانی ڈاکٹر زبیدہ قاضی اور ان کی ٹیم کو کامیاب سیمینار کے انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے سیمینار کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تقریب کے اختتام پر جامعہ کراچی کے طلبہ کی جانب سے بریسٹ کینسر سے متعلق چھ مختلف زبانوں پر مشتمل آگاہی پیغام کی ویڈیوں بھی دکھائی گئی جس کو حاضر ین نے بیحد سراہا۔علاوہ ازیں مقابلہ بعنوان: ’’پینٹ دی لینڈ پنک ‘‘ میں پہلی ،دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو بدست سیدہ شہلارضا اور شیخ الجامعہ ڈاکٹر خالد محمودعراقی ٹرافیوں سے نوازاگیا۔

مشیر امورطلبہ ڈاکٹر سید عاصم علی نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ جامعہ کراچی کے طلبہ بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کے سد باب کے لئے رضاکارانہ طوپر خدمات انجام دے رہیں ۔ہمارے نوجوان ہی ہمارا مستقبل ہیں اورطلبہ کے مثبت کردار کے ذریعے ہی ایک فلاحی معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔سیمینار سے دیگر ڈاکٹر ز جس میں پنک پاکستان ٹرسٹ کی ڈاکٹر فاریہ عثمان،جناح اسپتال کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کوثر عباس اورلیاقت نیشنل اسپتال کی ڈاکٹر صدف ناصر نے بھی سیمینار سے خطاب کیا اور حاضر ین کو بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کی علامات،جانچ کاطریقہ کار،بروقت تشخیص اور علاج سے متعلق آگاہی فراہم کیں۔