سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا اجلاس

سینیٹر میاں رضاربانی کے بجلی کی پیدا وار ، ترسیل اور تقسیم کی ریگولیشن کے ترمیمی بل ،سینیٹر مشاہد اللہ کے 16 ستمبرکو عوامی اہمیت کے معاملہ برائے قومی ایوارڈدینے کے طریقہ کار اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے یکم ستمبرکو بھیجی کی گئی عوامی عرضداشت کے معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا

جمعرات 22 اکتوبر 2020 23:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اکتوبر2020ء) ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر میاں رضاربانی کے بجلی کی پیدا وار ، ترسیل اور تقسیم کی ریگولیشن کے ترمیمی بل 2020 ،سینیٹر مشاہد اللہ کے 16 ستمبر2020 سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے قومی ایوارڈ دینے کے طریقہ کار کے علاوہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے یکم ستمبر2020 کو بھیجی کی گئی عوامی عرضداشت نمبر3260 کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر میاں رضاربانی کے بجلی کی پیدا وار ، ترسیل اور تقسیم کی ریگولیشن کے ترمیمی بل 2020کے حوالے سے سینیٹر میاںرضاربانی نے کہا کہ اس بل کا جائزہ قائمہ کمیٹی نے پہلے بھی لیا تھا اور موجودہ وزیر اطلاعات ونشریات جب قائد ایوان سینیٹ تھے تو انہوں نے بھی اس سے ملتا جلتا ایک بل متعارف کرایا تھا ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی نے دونوں بلوں کا تفصیل سے جائزہ لیا تھا اس کمیٹی کے منٹس بھی ادھر اُدھر ہوئے تھے اور سینیٹر شبلی فراز کا بل سینیٹ میں پاس بھی ہوگیا تھا اور میں سمجھا تھا کہ میرا بل فیلڈ میں نہیںہے ۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کرونا وبا کی وجہ سے کچھ مہینے کمیٹی کے اجلاس نہیں ہو سکے اور کچھ میں سینیٹر میاں رضاربانی تشریف نہیں لائے تھے ۔سینیٹر رضاربانی نے کہا کہ میر اسوال نیپرا بورڈ میں صوبوں کی نمائندگی کے حوالے سے تھا۔یہ تمام چیزیں ریکارڈ پر لانے کے بعد میں بل کو واپس لیتا ہوں ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر مشاہد اللہ کے 16 ستمبر2020 سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے قومی ایوارڈ دینے کے طریقہ کار کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ یہ ایشو کسی ایک خاص بندے کیلئے نہیں ہے بلکہ نہایت اہم قومی مسئلہ ہے ۔ قومی ایوارڈ دینے کے حوالے سے طریقہ کار ، اس حوالے سے کون فیصلے کرتا ہے کہاںسے نامزدگی آتی ہے وغیرہ کی تفصیلات پوچھی تھیں ۔قومی ایوارڈ دینے کے حوالے سے پہلے صوبوں میں کمیٹیاںہوا کرتی تھیں جو نامزدگی بھیجتی تھیں اب شائد طریقہ کار بدل گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جاوید آفریدی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری لائے ہیں اور کرکٹ کے فروغ میں ان کا بہت زیادہ کردار ہے اور ان کے قریبی رشتہ دار نے یہ بھی بتایا ہے کہ انہوں نے 22 ارب روپے کا ٹیکس بھی ادا کیا ہے اس لئے قومی ایوارڈ میں نامزد کیے گئے ہیں ۔سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ ملک میں کرکٹ کے فروغ کیلئے لاہور قلندر کی خدمات بہت زیادہ ہیں مسلسل ہارنے کے باوجود بھی اس اکیڈمی نے بہت سے ممالک میں اپنے کھلاڑی بھیجے ہیں اور ملک میں دیگر بے شمار لوگ ہیں جنہوںنے نمایاں سرمایہ کاری کی ہے ۔

جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ جاوید آفریدی نے 22 ارب روپے کا ٹیکس کتنے عرصہ میں دیا ہے اور جو سرمایہ کاری کی ہے اس کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں ۔ کرکٹ کے فروغ کے حوالے سے کیا دیگر لیگ کی ٹیموں کو بھی زیر غور لایا گیا تھا ۔جس پر جوائنٹ سیکرٹری ایوارڈ بریگیڈیئر طاہر راشد نے بتایا کہ کیبنٹ ڈویژن کو نامزد ایجنسیاں ، جن میں وفاقی وزارتیں ، ڈویژنز، ماتحت ادارے اور صوبائی حکومتیں سول ایوارڈ کیلئے ہر سال دسمبر ، جنوری میں قواعد وضوابط کے مطابق نامزدگی بھیجتی ہیںجو وزیراعظم سے منظور کردہ ایک فارم کے مطابق ہوتی ہیں جو متعلقہ تین ذیلی کمیٹیوں کو بھیجے جاتے ہیں اور وہاں سے منظور ہونے کے بعد مین ایوارڈ کمیٹی کے پاس جاتا ہے ۔

مین ایوارڈ کمیٹی کے بعد سفارشات وزیراعظم کے پاس جاتی ہیں جو صدر پاکستان کو بھیج دی جاتی ہیں ۔قائمہ کمیٹی نے وزیراعظم کے منظور شدہ فارم طلب کر لیا تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ قومی ایوارڈدینے کے معاملے کو مزید موثر بنایا جا سکے ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ جاوید آفریدی کی نامزدگی وزارت منصوبہ بندی سے پبلک سروس کے حوالے سے بھیجی گئی تھی جنہوںنے 2011 میں سری لنکا کی ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد کرکٹ کے فروغ کیلئے کارکردگی کو شامل کیا اور ملک میں چین کی سرمایہ کاری لاکر 30 ہزار افراد کو روزگار کے مواقع بھی دیئے ۔

انہوں نے کرونا وبا کے دوران 36 ہزار خاندانوں میں راشن تقسیم کیا ۔ ایک طریقہ کار کے تحت ان کا نام نامزد کیا گیا تھا۔وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ قومی ایوارڈ مجوزہ طریقہ کار کے تحت دیئے گئے موجود حکومت نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی ۔80 فیصد نامزدگیاں صوبوں سے آتی ہیں ۔جاوید آفریدی کو ان کی 4 سی5 سروسز کے حوالے سے نامزدکیا گیا تھا۔

سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نے جو فارم منظور کیا ہوا ہے اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ قومی ایوارڈ دینے کیلئے جو طریقہ کار وہ ٹھیک ہے یا اس میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔ایڈیشنل سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ قومی ایوارڈ دینے کا ایک مربوط نظام موجود ہے ۔اس میں کئی ماہ لگتے ہیں اور زیادہ تر ان پُٹ صوبوں سے آتی ہے۔قائمہ کمیٹی نے جاوید آفریدی کی ملک میں سرمایہ کاری ، گزشتہ دس سالہ ٹیکس کی تفصیلات ، 30 ہزار افراد کو روزگار دینے اور 36 ہزار راشن کی تفصیلات طلب کر لیں ۔

قائمہ کمیٹی کیبنٹ سیکرٹریٹ نے آرمینیا کی آذربائیجان کے علاقے گانجا میں میزائل حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔ میزائل حملوں میں متعدد شہری ہلاک او رزخمی ہوئے اور آرمینیا کے اس ظلم و بربریت کے خلاف ایک مذمتی قرار داد بھی پیش کی گئی جس میں آذربئیجان کی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی کمیونٹی سے مطالبہ کیا گیا کہ دونوںممالک کے مابین جنگ بند کرانے میں کردار ادا کریں اور آرمینیا کو پابند کیا جائے کہ وہ عوام اور شہرو ںپر میزائل حملوں سے باز رہے ۔

قائمہ کمیٹی نے قرار داد میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کے حل کیلئے کردار ادا کریں اور مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کیا جائے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ کی طرف سے بھیجی کی گئی عوامی عرضداشت کا بھی تفصیل سے جا ئزہ لیا گیا ۔ صوبائی سول سروس کے نمائندہ طارق محمود نے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔

وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ چونکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور قانون کے مطابق کمیٹی اس معاملے کو نہیں دیکھ سکتی ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹیاں ، پارلیمنٹ کی وسعت ہوتی ہیں اور پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کا جائزہ لے سکتا ہے ۔ کمیٹیاں ایسی کوئی سفارشات مرتب نہیںکرتی جو عدالت کے معاملے میں مداخلت پیدا کریں البتہ معاملے کو سنا جا سکتا ہے ۔

سینیٹر مشاہدا للہ نے کہاکہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور ہر چیز کا جائزہ لے سکتا ہے ۔نمائندہ صوبائی سول سروسز طارق محمود نے کہا کہ حکومت نے 14 اکتوبر2020 کو ایک ایس آر او نکالا ہے جو غیر آئینی ہے ۔عدالت میں معاملہ ڈی ایم جی کے خلاف ہے اور ایس آر او میں کچھ چیزیں عدالت میں معاملے کے متعلق بھی ہیں ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے طارق محمود سے کہا کہ تمام چیزیں تحریری طور پر فراہم کریں۔

وزارت قانون کے نمائندے جام محمد اسلم نے کمیٹی کو بتایا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے وہ معاملہ جو عدالت میں بھی ہو کمیٹیاں قانون سازی کے حوالے سے بھی اس کا جائزہ لے سکتی ہیں مگر وہ معاملہ جو آئی ڈینٹیکل ہو اس کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت قانون کے نمائندے کے بیان نے قائمہ کمیٹی کی کارروائی کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے چیلنج کیا ہے ۔

معاملہ چیئرمین سینیٹ کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔ تمام اراکین کمیٹی اس حوالے سے چیئرمین سینیٹ سے بات کریں گے اور سینیٹ سیکرٹریٹ کی لیگل ونگ سے رائے بھی حاصل کی جائے گی ۔ اگر جام محمد اسلم نے قائمہ کمیٹی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے تو ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی تاکہ مستقبل میں کوئی پارلیمنٹ سے غلط بیانی نہ کرے ۔کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز مشاہد اللہ خان، نجمہ حمید،ڈاکٹراسد اشرف، ڈاکٹر اشوک کمار، انور لال دین ، سید مظفر حسین شاہ اور میاں رضا ربانی کے علاوہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، سپیشل سیکرٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن، ایڈیشنل سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن ،ایڈیشنل سیکرٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن،ممبران نیپرا ،جوائنٹ سیکرٹری پاور ڈویژن ، جے ایس ایوارڈ ،ڈپٹی ڈرافٹ مین وزارت قانون محمد اسلم، کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔