لاپتہ ہونے والی کتابیں اور لمس کی یاد داشتیں

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 23 اکتوبر 2020 18:02

لاپتہ ہونے والی کتابیں اور لمس کی یاد داشتیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اکتوبر 2020ء) جان کاری کی تو پتہ چلا کہ ان کی عمر بھر کی کمائی ان کے بھائی نے ایک ہی پھونک میں اڑا دی ہے۔ دوچار نہیں، پانچ سو سے زائد کتابوں کا پورا ذخیرہ انہوں نے کوڑیوں کے دام بیچ دیا ہے۔ کیونکہ یہ کتابیں اب گھر والوں کے لیے ایک بوجھ بن گئی تھیں۔

لیاری میں گبول پارک کے سامنے کی خستہ شکستہ اور پیچدار گلیوں میں تنگ و تاریک سا ایک مکان ہے۔

اس مکان میں کامریڈ واحد بلوچ رہتے ہیں، جن کے کمروں میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ چھوٹے سے مہمان خانے میں الماری کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے دیواریں کتابوں سے ڈھک جاتی ہیں۔ مہمان زیادہ ہوجائیں تو تکیوں کی گنجائش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ پھر کتابوں سے ٹیک لگا کر بیٹھنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ کتابیں انہوں نے ٹرانسپورٹ کے پیسے بچا بچا کر ریگل چوک کے فٹ پاتھوں سے خریدی ہیں۔

جی ہاں! وہ نوکری کے لیے پیدل آنا جانا کرتے ہیں۔ جو پیسے دو پیسے بچتے ہیں وہ کتابوں پر لگ جاتے ہیں۔

کچھ برس قبل وہ لاپتہ افراد میں شامل ہو گئے۔ ایک شام دروازے کو لات مار کر کچھ رینجرز اہل کار گھر میں داخل ہوئے اور چیخ چلا کر بولے، اسلحہ کہاں رکھا ہے تم لوگوں نے؟ واحد بلوچ کی اہلیہ پان چباتی ہوئی ان بندوق برداروں کو بالائی منزل پر لے گئیں۔

ایک نیم تعمیر کمرے میں کتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کر کے بولی، یہ رہا اسلحہ۔

بلوچ دانشور صبا دشتیاری نے ملیر میں کتب خانے کی بنیاد رکھی تو واحد بلوچ نے ذاتی ذخیرے سے پانچ ہزار کتابیں دینے کا وعدہ کیا۔ جس دن کتابیں نکل رہی تھیں، اس دن گھر میں سوگ کا عالم تھا۔ ایک بیٹی نے تو روتے دھوتے سامنے کھڑی ہو کر کہا، ابو آپ یہ کتابیں نہیں لے جا سکتے۔

ملیر کتب خانے کی دیکھا دیکھی کچھ اور کتب خانے کھلے تو واحد بلوچ نے دو تین ہزار کتابیں انہیں بھی دان کر دیں۔

صبا دشتیاری قتل کر دیے گئے اور یہاں وہاں بنے کتب خانے ویران سے ہو گئے۔ لیاری کی طرف جانے والی بس پرانا گولیمار پر رکی تو واحد بلوچ فٹ پاتھ پر رکھی کچھ کتابیں دیکھ کر ٹٹھک سے گئے۔ فورا بس سے اتر گئے، جا کر دیکھا تو بیشتر کتابیں اس میں وہ نکلیں، جو واحد بلوچ نے ذاتی خزانے سے کتب خانوں کے لیے وقف کر دی تھیں۔

اپنی ہی کتابیں دکھے دل کے ساتھ دوبارہ خرید کر وہ گھر لے آئے۔ یہ بات واحد بلوچ جب ہمیں بتا رہے تھے تو ساتھ بیٹھی ان کی بیٹی کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں آنسو تھے۔

تازہ زمانے کا انسان سوچتا ہے کہ جب کتب خانوں کے کتب خانے چھ انچ کی ہارڈ ڈِسک میں سما جاتے ہیں تو لوگ پھٹی پرانی اور بھاری بھرکم کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھائے پھرتے ہیں۔

گھر والوں نے کتابیں بیچ ڈالی ہیں تو کیا ہوا؟ وائی فائی کی سیڑھیاں لگائیں، ایک سے بڑھ کر ایک کتاب اتارتے جائیں اور کمپیوٹر جیسی کرشماتی لائبریری میں رکھتے جائیں۔ آپ کتابیں اتار اتار کے تھک جائیں گے، کرشماتی لائبریری "ساقیا اور پلا اور پلا" گاتے نہیں تھکے گی۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ گھر کے کسی گوشے میں کتب خانہ رکھنے کا فائدہ بھی کیا ہے۔

جتنی دیر میں انسان شوکت صدیقی کا "جانگلوس" آدھا نمٹا سکتا ہے اتنی دیر شیلف میں کتاب ڈھونڈنے میں لگ جاتی ہے۔ کتب خانے کا معاملہ تو یہ ہے کہ جس کتاب کی ہنگامی بنیادوں پر آپ کو ضرورت ہوتی ہے، وہی کتاب شیلف سے غائب ہوجاتی ہے۔ حالانکہ وہ کتاب ابھی کل رات ہی آپ نے سامنے والی شیلف میں بچشمِ خود دیکھی ہوتی ہے۔

جیسے ہی ضرورت ختم ہوتی ہے، وہی کتاب سلیمانی اوڑھنی اتار کے کہیں سے سامنے آجاتی ہے۔

کبھی تو گھنٹوں سرکھپائی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کتاب تو ایک ایسا ناہنجار دوست اٹھا کر لے گیا ہے، جو اس بے زریں قول پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ کتاب واپس کرنا حماقت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ شیلف میں کتاب اگر مل بھی جائے تو اس بات کا کتنا امکان ہے کہ وہ کتاب آپ ریل سٹیشن، بس ٹرمینل، ایئرپورٹ یا کسی شفا خانے کی انتظار گاہ میں چھوڑ کر نہیں آئیں گے؟

اس کے برعکس آپ ای بُکس کا کمال دیکھیے۔

جس کتاب کا جب مطالعہ کرنا ہو، کمپیوٹر کھولیں، پردہِ سیمیں پر کتاب کا نام لکھیں، کتاب حاضر۔ ای بُک واحد دولت ہے، جس کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بانٹنے سے کم نہیں ہوتی، بڑھتی ہے۔ ایک ذاتی خزانے میں ہوتی ہے، دوسری کسی ای میل کے سینٹ آئٹم میں ہوتی ہے، تیسری کسی چیٹ بکس میں رکھی ہوتی ہے۔ کمپیوٹر کے پردے پر ایک وقت میں پانچ کتابیں کھول کر بیٹھ جائیں تو بھی الجھن نہیں ہوتی۔

جگہ گھِرتی ہے اور نہ ہوا سے صفحے الٹتے ہیں۔ پھٹتی ہیں اور نہ پانی میں گیلی ہوتی ہیں۔ دھول مٹی پڑتی ہے اور نہ دیمک کی خوراک بنتی ہیں۔ اگر آپ کرایے دار ہیں تو گھر بدلتے ہوئے کتابوں کو دیکھ دیکھ کر ہول بھی نہیں اٹھتے۔ پھر بھی کچھ دقیانوس ہیں جو دھول میں اٹی ہوئی کتابوں کو روتے ہیں، آخر کیوں؟

رونے والے شعوری یا غیر شعوری طور پر کتابوں کو نہیں روتے، لمس میں لپٹی ہوئی یادوں کو روتے ہیں۔

میموری کارڈ کی ہزاروں جی بیز میں لاکھوں کتابیں تو سمائی جا سکتی ہیں، مگر لمس میں محفوظ ہونے والی یادوں کا ریکارڈ اس میں نہیں رکھا جا سکتا۔ احساس کا ضخیم ریکارڈ لمس کی یاد داشتوں میں ہی درج ہوتا ہے۔ لمس اگر اپنی یاد داشت کھو دے تو وابستگیوں کے معانی یکسر بدل جائیں گے۔ یہ لمس کا حافظہ ہی ہے، جو مصروف دل کو بیٹھے بٹھائے یاد دلا دیتا ہے کہ حضور! شام ہو گئی ہے، ذرا بے چین بھی ہو لیجیے۔

بات یہ ہے کہ انسان جسے چھو نہیں سکتا اسے خدا کہتا ہے۔ خارج میں ہم کسی خدا کا تصور کرتے ہیں تو اسے چھونے کے لیے جستجو ہمیں بے تاب کر دیتی ہے۔ خداوں سے نسبت رکھنے والی مذہبی علامات کو چھونے اور چومنے کی یہ روایت کیا ہے؟ عبادت اپنی جگہ، مگر لوگ بہانے سے اپنے اپنے خدا کو چھونے کی حسرت پوری کرتے ہیں۔ دور اپنی کسی دنیا میں پوجا بھی ہو جاتی ہے، سجدے بھی ہو جاتے ہیں۔

دھڑکن تو مگر تب ہی خطا ہوتی ہے، جب قریب جاکر کسی بت، کسی شبیہ، کسی دیوار اور کسی جالی کو چھونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اقبال کا شعر پڑھیے

خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر

مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر

جب ہم جانتے ہیں کہ نعش مٹی میں گھل مل کر فنا ہو جاتی ہے تو پھر قبروں کا یہ تکلف کیسا؟ یہ بھی ملنے ملانے اور چھوکر محسوس کرنے کے بہانے ہی تو ہیں۔

بچھڑے ہووں کی تصویریں دل کوایک حد تک ہی بہلا سکتی ہیں۔ دل کا بوجھ تب ہی ہلکا ہوتا ہے، جب بچھڑے ہوئے کی قبر سے لپٹ کر کلام ہوتا ہے۔

کبھی مقبرے پر ایک ہاتھ پھیر لینا بھی کافی ہو جاتا ہے۔ دور بیٹھے ہوئے کسی پیارے کی تصویروں میں تسکین کا بہت سامان ہوتا ہے، یہ سچ ہے۔ اس سے بھی بڑا سچ مگر یہ ہے کہ تصویریں طلب کی آنچ کو بے قراری کے شعلے میں بدل دیتی ہیں۔

بے قراریوں کو قرار تب ہی آتا ہے، جب لمس میسر ہوتا ہے اور مہک سانسوں میں اترتی ہے۔

بات پہنچانے کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک ذریعہ سائنس نے ہمیں عطا کر دیا ہے۔ اب تار بھیجنے کی اور خط لکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ مگر جو دوچار دیوانے خط لکھتے لکھاتے ہیں کیا وہ سائنسی کرشمہ سازیوں کا انکار کرتے ہیں؟ نہیں، وہ لمس اور مہک میں لپٹے ہوئے کاغذ کو چھوکر کسی کو لفظ لفظ اپنے دل میں اترتا ہوا محسوس کرنا چاہتے ہیں۔

اسی لیے تو میسج ڈیلیٹ کرنے میں اور خط جلانے میں آگ اور پانی کا فرق ہے۔

کمپیوٹر پر ٹائپ کیے ہوئے پیغام لرزشوں اور لغزشوں سے پاک صاف ہوتے ہیں۔ کوئی جملہ مٹانا ہو تو ایک بٹن دبایے اور مٹا دیجیے۔ ایسے مٹ جائے گا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ یہ سہولت ہے، بالکل سہولت ہے۔ مگر خط میں لکھنے والے نے لکھ کر جو جملہ مٹایا ہوتا ہے، دل کو اس سے بھی تو بہت گہرا معاملہ ہوتا ہے۔

کمپیوٹر کے برقی صفحوں کے معجزے کم نہیں ہیں، یہ ہم مانتے ہیں۔ مگر پسیجے ہوئے ہاتھوں کی مہک محفوظ کرنے کا بندوبست اس کے پاس نہیں ہے، یہ آپ مان لیجیے۔

گاوں دیہاتوں میں کبھی پیاسے مٹکے بغل میں اٹھاکر پانی کے پاس جاتے تھے۔ حالات بدل گئے، اب پانی خود چل کر پیاسوں کے پاس آتا ہے۔ جو لوگ چشموں اور مٹکوں کو یاد کرتے ہیں، وہ سہولتوں کی ناقدری نہیں کرتے۔

وہ تو بس کھوئی ہوئی اُن شاموں کی جستجو کرتے ہیں، جس میں مٹکے کی تھاپ پر لڑکیاں محبت کے گیت گاتی تھیں اور لڑکے لنگڑی پالا کھیلتے تھے۔ کولر جب پانی کو دیر تک ٹھنڈا رکھتا ہے تو زندگی شکر بجالاتی ہے۔ مگر جب یہ کمبخت مٹکے کی طرح بجتا نہیں ہے تو شامیں اداس ہو جاتی ہیں۔

کاغذ گتے کی گمشدہ کتابوں کو رونے والے در اصل الفاظ کے کسی مجموعے کو نہیں رو رہے۔

وہ لمس کے ڈیٹا بیس میں موجود یادوں کے ذخیرے کو رو رہے ہیں۔ یادوں کے اس ذخیرے میں معصومیت کا ایک دور ہوتا ہے، بے فکری کا زمانہ ہوتا ہے، بے یقینی کا عالم ہوتا ہے، علم کی جستجو ہوتی ہے، غربت کا ریکارڈ ہوتا ہے، محنت کا روزنامچہ ہوتا ہے، ترک اور اختیار کا سفر ہوتا ہے، معصومیت کے چھنے جانے کی داستان ہوتی ہے، ٹوٹے ہوئے بتوں کا ملبہ ہوتا ہے، ناتمام حسرتوں اور ادھورے خوابوں کا سلسلہ ہوتا ہے، کچھ لگاوٹیں ہوتی ہیں اور کچھ جدائیاں ہوتی ہیں، کچھ پھول ہوتے ہیں، کچھ کتابیں ہوتی ہیں اور ٹوٹے پھوٹے سے کچھ چراغ ہوتے ہیں۔

ای بُک میں سہولت کے سارے ہی رنگ ہوتے ہیں، مگر سوکھے ہوئے پھولوں کی خوشبو تو صرف کتابوں میں ہوتی ہے۔ پردہِ سیمیں پر ٹائپ کی ہوئی نظمیں بے تول نہیں ہوتیں، مگر ٹشو پیپر پر لکھے ہوئے کسی مصرعے کی طرح انمول بھی تو نہیں ہوتیں۔

دی ہوئی کتابیں واپس نہیں آتیں، نا قدریوں کی شکار کتابیں البتہ واپس آجاتی ہیں۔ واحد بلوچ کی بھولی بھٹکی کتابوں نے بھرے بازار میں کندھے پر ہاتھ رکھا تھا، واحد بلوچ نے فورا پہچان لیا تھا۔ آج ہو یا کل، قاسم یعقوب کی کچھ کتابیں بھی چلتی پھرتی واپس آجائیں گی۔ لمس کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے۔ یاد داشت بہت اچھی ہوتی ہے!