عورت مارچ کے خلاف جامعہ حفصہ کا مورچہ

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 23 اکتوبر 2020 18:03

عورت مارچ کے خلاف جامعہ حفصہ کا مورچہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اکتوبر 2020ء) پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس سال خواتین کے عالمی دن کے مارچ کا انعقاد عوامی ورکرز پارٹی اور سول سوسائٹی کی کئی تنظیمیں کر رہی ہیں۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس مارچ کی حمایت کر چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ سمیت کئی جماعتوں نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

تاہم جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ، جامعہ حفصہ اور کالعدم سپاہ صحابہ، جو اب اہل اسنت والجماعت کے نام سے کام کر رہی ہے، اس سمیت کئی مذہبی تنظیمیں اس مارچ کی شدو مد سے مخالفت کر رہی ہیں۔ جمیعت علماء اسلام اور ماضی میں لال مسجد سے منسلک شہداء فاونڈیشن نے اس مارچ کے خلاف اسلام آباد کی انتظامیہ کو ایک درخواست دی ہے، جس میں انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اس مارچ کو روکیں۔

(جاری ہے)


جے یو آئی ایف کے رہنما مولانا تنویرعلوی نے اس درخواست کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عورت مارچ خواتین کے حقوق کے لیے نہیں بلکہ ملک میں فحاشی اور عریانی پھیلانے کے لیے کیا جارہا ہے، جس میں ملک کے اسلامی تشخص کو بگاڑنے کی کوشش کی جائے گی اور مادر پدر آزادی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اس لیے ہم نے اس کو رکوانے کے لیے درخواست دی ہے۔

‘‘


شہدا فاونڈیشن کے حافظ احتشام نے اس مارچ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر دی ہے، جس کی سماعت ممکنہ طور پر کل ہوگی۔ حافظ احتشام نے ضلعی انتظامیہ کو بھی ایک درخواست میں اس مارچ کو رکوانے کی استدعا کی ہے۔ لیکن ملک کے کئی حلقوں کو سب سے زیادہ تشویش اس اعلان پر ہے جو اسلام آباد کی لال مسجد سے وابستہ جامعہ حفصہ کی طالبات کی طرف سے کیا گیا ہے۔

اعلان میں کہا گیا کہ ہے کہ امت مسلمہ کے غیرت مند بھائی اور بہنیں اس مارچ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اعلان میں مذید کہا گیا ہے کہ آٹھ مارچ کو عورت کی آزادی کا نام دیا جا رہا ہے، دراصل میں یہ ایک مغربی تہوار کا پرچار ہے۔‘‘ اعلان کے مطابق، ’’اس مارچ کے خلاف جامعہ حفصہ/لال مسجد کے غیور طلبا وطالبات اور معلمات حیا مارچ کا اعلان کرتی ہیں۔

حکومت کو بھی اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ اس فحاشی کو روکے۔‘‘


اعلان کے مطابق ایک ریلی لال مسجد سے اور دوسری جامعہ حفصہ 6-F اسلام آباد سے نکالی جائے گی اور وہ نیشنل پریس کلب کا رخ کرے گی، جہاں عورت مارچ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ اس لیے اسلام آباد کے کئی شہری اس بات پر فکر مند ہیں کہ کہیں یہ ریلیاں تصادم کی شکل اختیار نہ کر جائیں۔

واضح رہے اسلام آباد انتظامیہ اور لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کے درمیان پہلے ہی سے سرد جنگ چل رہی ہے اور جامعہ حفصہ کے دو سو سے زائد طالبات مولانا اور ان کی زوجہ کے ساتھ لال مسجد میں ٹہرے ہوئے ہیں، جہاں سے پولیس ان کو کئی ہفتوں سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جامعہ حفصہ کی طالبات کی تعداد بارہ سو کے قریب ہو سکتی ہے جب کہ مذہبی تنظیموں کے ہزاروں کارکنان بھی ممکنہ طور پر وہاں پہنچ سکتے ہیں۔


جامعہ حفصہ کی پرنسپل ام حسان نے اس ریلی کی مخالفت کی وجوہات بتاتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ تمام علماء اکرام کا یہ فیصلہ ہے کہ اس مارچ کی مخالفت کی جائے، یہ عورت مارچ نہیں بلکہ یہ جنسی آزادی کا مارچ ہے کیونکہ یہ نام نہاد عور ت کی آزادی کی علمبردارمغرب زدہ ہیں۔‘‘ ام حسان کا مزید کہنا تھا کہ عورت مارچ کے بینرز اور پلے کارڈز پرانتہائی بے ہودہ نعرے ہیں۔

’’ یہ نعرے اتنے بے ہودہ ہیں کہ میں لفظوں میں بیان بھی نہیں کر سکتی۔ تو ہم اس کی بھر پور مزاحمت کریں گے اور ان کے خلاف مارچ کریں گے۔‘‘
اس مارچ کے خلاف کالعدم سپاہ صحابہ نے کل مذہبی تنظیموں کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔ جے یو آئی ایف کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری کوشش ہے کہ اس مارچ کے خلاف ایک بڑا مشترکہ جلوس نکالا جائے اور بے حیائی پھیلانے والوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ یہاں مغربی ایجنڈا نہیں چلے گا۔

‘‘
اس صورت حال نے اسلام آباد کی انتظامیہ کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، جس نے اس حوالے سے کل بھی کئی اجلاس منعقد کئے اور آج بھی اس بات پر اجلاس جاری رہے کہ آیا اس مارچ کی اجازت دی جائے یا نہیں۔ کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ مقامی انتطامیہ پر مذہبی تنظیموں کا سخت دباؤ ہے کہ وہ اس مارچ کی اجازت نہ دے۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کی اس مخالفت کے پیچھے ملک کی طاقت ور ترین اسٹیبلشمنٹ ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار فرمان علی کا کہنا ہے کہ سب کو پتہ ہے کہ جامعہ حفصہ، لال مسجد اور دیگر مذہبی تنظیموں کو کس کی حمایت حاصل ہے۔ ’’اس مارچ کو عوامی ورکرز پارٹی لیڈ کر رہی ہے، جس نے پی ٹی ایم کی کھل کر حمایت کی۔ کے پی، بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے آواز اٹھائی، جس کی وجہ سے اس کے کارکنان پر غداری کے مقدمات بنائے گئے۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ان مقدمات کے خاتمے نے غیر مرئی طاقتوں کو آگ بگولہ کر دیا ہے، اس لیے وہ انتقام لینا چاہتے ہیں اور اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جامعہ حفصہ اور مذہبی تنظیموں کے ذریعے اس مارچ کو خراب کیا جائے۔‘‘