’میرا جسم میری مرضی‘: خواتین کا عالمی دن متنازعہ

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 23 اکتوبر 2020 18:03

’میرا جسم میری مرضی‘: خواتین کا عالمی دن متنازعہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اکتوبر 2020ء) پاکستان میں 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کے حوالے سے بحث جاری ہے اور ایک ٹی وی پروگرام کے دوران اسی حوالے سے گفتگو کے دوران خاتون سماجی کارکن ماروی سرمد اور ڈرامہ نویس خلیل الرحمان قمر کے درمیان بد کلامی کے بعد سوشل میڈیا میں مارچ کے حوالے سے ایک طوفان برپا ہے۔

گزشتہ برس کے برخلاف اس بار عورت مارچ کی تیاریاں دو ماہ قبل ہی شروع کردی گئی تھیں اور کراچی پریس کلب کے باہر عورت ترانہ کی ریہرسل کی ویڈیو کو لے کر سوشل میڈیا پر مارچ کے حامی اور مخالف سرگرم ہوچکے تھے۔ تاہم مارچ کے حوالے سے آرگنائزنگ کمیٹی کی اراکین شیما کرمانی اور جسٹس ماجدہ سید رضوی نے مشترکہ نیوز کانفرس کے دوران مارچ کا پروگرام اور اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارچ کسی مخصوص جنس یا طبقہ کے خلاف نہیں بلکہ خواتین پر ہونے والے جبر، ظلم اور زیادتیوں کے خلاف ہے اور خواتین کے حقوق کے لیے ہے جسمیں مرد بھی ہماری حمایت میں کھڑے ہیں، جسٹس ماجدہ رضوی کا کہنا تھا کہ ''عورت مارچ گزشتہ تین برس سے ہو رہا ہے جسمیں مرد بھی شریک ہوتے ہیں، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور اپنے حقوق کی لیے جدوجہد کرنا ہر انسان کا بنیاد حق ہے، عورت مارچ خواتین کے لیے مسلسل کم ہوتی اسپیس کے لیے آواز بلند کرنے کا نام ہے، ہمارے چند بنیادی مطالبات ہیں، ہم چاھتے ہیں کہ عورت پر تشدد بند ہو، عورت کو معاشی انصاف ملے اور میڈیا عورت کو مظلوم دکھانا بند کرے۔

(جاری ہے)

‘‘

تاہم عورت مارچ کے حوالے سے مذہبی حلقوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما قاری عثمان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں سب سے زیادہ حقوق خواتین کو حاصل ہیں شادی کے لیے منظوری سے لے کر بچوں کی تعلیم و تربیت تک عورت کا انتہائی اہم کردار ہے۔

قاری عثمان کے مطابق ''میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعروں کی اسلام اجازت نہیں دیتا، مسلم معاشرے میں اگر کوئی ایسی سوچ رکھے تو وہ گناہ کا مرتکب ہوگا، وراثت میں حق کی بات اسلام میں موجود ہے، گھریلو تشدد سے لیکر ہر طرح کی زیادتی پر آواز سب سے پہلے دینی حلقے اٹھاتے ہیں لہذا خواتین کے لیے حقوق کے نام پر پھیلائی جانے والی عریانی اور بے حیائی کی کسی صورت حمایت نہیں کرسکتے، بیرونی قوتیں اپنے آلہ کاروں کے ذریعے عورت مارچ کے نام پر بے حیائی کو فورغ دینا چاہتی ہیں۔

‘‘ قاری عثمان نے اس الزام کی بھی تردید کی کہ انکی جماعت اندرون سندھ غیر مسلم خواتین کے جبری طور پر مذہب تبدیل کرانے میں ملوث ہے۔

تاہم سندھ یونیورسٹی جامشورو سے وابسطہ پروفیسر عرفانہ ملاح کہتی ہیں کہ گزشتہ برس بھی جمیعت علماء اسلام نے سکھر میں عورت مارچ کی عملی مخالفت کی تھی۔ عرفانہ ملاح کے بقول،''اندرون سندھ کاروکاری کے بڑھتے واقعات اور قبائلی رسم و رواج کی وجہ سے خواتین نہ صرف قتل ہورہی ہیں بلکہ انکے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے، عورتوں کو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر حدف تنقید بنایا جارہا ہے۔

‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ اندرون سندھ مذہبی حلقے جبری طور پر ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی تو ان کے مطالبات کی حمایت کرتی ہے، مگر سندھ حکومت کی طرف سے کوئی مثبت پیش رفت سامنےنہیں آئی ہے۔

تاہم دو روز قبل ٹی وی ٹاک شو کے دوران سماجی کارکن ماروی سرمد کے خلاف ڈرامہ نویس خلیل الرحمان قمر کے نازیبا جملوں اور مغلظات کو شہریوں کی اکثریت اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہی۔

شہریوں کے مطابق خلیل الرحمان قمر نے نہ تو اپنے پیشے کی تعزیم کو مقدم رکھا اور نہ ہی مرد برادری کے حوالے سے مشہور وسیع النظری کا مظاہرہ کیا۔ کچھ لوگ یہ سوچ بھی رکھتے ہیں کہ یہ سب مغرب کے 'پبلسٹی اسٹنٹس‘ سے متاثر ہوکر کیا جارہا ہے، کسی 'غیر اشو کو اشوبنانے‘ کے لیے پیسے دے کر مخالفت میں عدالت سے رجوع کروانا، ایسے پیڈ ٹی وی ٹاک شوز کا اہتمام کرانا جس میں ایسے مہمان بلانا جو متنازعہ گفتگو کریں تاکہ توجہ دیگر اہم معاملات سے ہٹ کر غیر اہم معاملات کی طرف مبزول ہوسکے۔

آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شام نے عالمی یوم خواتین کے حوالے سے دو روزہ کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مرد اور عورت مل کر معاشرہ بناتے ہیں، دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے لہذا دونوں کو ایک دوسرے کو حقوق دینا پڑیں گے۔