سوڈان نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا

امریکا کو 33 کروڑ 50 لاکھ ڈالر زرِ تلافی اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی یقین دہانی پر دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک کے فہرست سے نکالا گیا.رپورٹ مزید 5عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں‘امید ہے سعودی عرب بھی تل ابیب کے ساتھ تعلقات قائم کرلے گا.صدر ٹرمپ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 24 اکتوبر 2020 14:31

سوڈان نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا
واشنگٹن (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 اکتوبر ۔2020ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ سوڈان اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لا رہا ہے اور جلد سوڈان بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مسلمان ملکوں کی صف میں شامل ہوجائے گا. صدر ٹرمپ نے سوڈان کو دہشت گردوں کی سرکاری طور پر سرپرستی کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکال کر ملک میں معاشی امداد اور سرمایہ کاری کو بھی بحال کر دیا ہے امریکی صدر نے کہا کہ مزید پانچ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ پر آمادگی کا اظہار کرچکے ہیں اور جلد یہ پانچ عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے ہیں.

(جاری ہے)

واضح رہے کہ چند ہفتے قبل ہی متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کیے ہیںجس کے بعد یہ دونوں ملک 26 برس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والی پہلی خلیجی ریاستیں بن گئیں ہیں سوڈان اور اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ ایک سہ فریقی اعلامیے میں کہا کہ اگلے چند ہفتوں میںوفود ملاقاتیں کریں گے. بیان کے مطابق راہنماﺅں نے سوڈان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور دونوں اقوام کے درمیان حالت جنگ کو ختم کرنے پر اتفاق کیا‘ 1979 میں مصر جبکہ 1994 میں اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کیے تھے.

افریقی عرب لیگ کے رکن موریطانیہ نے 2009 میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا لیکن 10 سال بعد اس نے تعلقات منقطع کر دیے تھے‘اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات بنانے والے عرب ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد کی فلسطینیوں نے مذمت کی ہے. تاریخی طور پر عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ امن مذاکارت کو 1967 کی جنگ میں مقبوضہ علاقوں سے انخلا اور مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے قیام سے مشروط کر رکھا تھا‘صدر ٹرمپ کے سوڈان کو دہشت گردوں کی سرکاری طور پر سرپرستی کرنے والے ممالک کی امریکی فہرست سے نکالنے کے فوراً بعد واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو اوول آفس لے جایا گیا جہاں صدر ٹرمپ سوڈان اور اسرائیل کے راہنماﺅں کے ساتھ فون پر بات کر رہے تھے.

اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ یہ معاہدہ امن کے لیے ڈرامائی پیشرفت اور ایک نئے دور کا آغاز ہے انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور سوڈان کے وفود تجارتی اور زرعی تعاون پر تبادلہ خیال کے لیے ملاقات کریں گے. سوڈان کے وزیراعظم عبداللہ ہمدوک نے اپنے ملک کو دہشت گردی کی فہرست سے ہٹانے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سوڈان کی حکومت بین الاقوامی تعلقات کے لیے کام کر رہی ہے جو ہمارے عوام کی بہترین خدمت کے لیے ہے‘سوڈان کے سرکاری ٹی وی نے کہا کہ جارحیت کی حالت ختم ہو جائے گی.

اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں سعودیہ عرب بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لے آئے گا امریکی صدر کے معاون جوڈ ڈیری نے کہا کہ سوڈان کا معاہدہ ’مشرق وسطی میں امن کی راہ میں ایک اور اہم قدم ہے جس کے مطابق ایک اور ریاست نے ابراھیم معاہدوں میں شمولیت اختیار کی ہے، یہ اصطلاح اسرائیل کے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ معاہدوں کے لیے استعمال ہوتی ہے.

تاہم فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی فلسطینیوں کی جانب سے بولنے کا حق نہیں حماس جو غزہ کو کنٹرول کرتا ہے نے کہا کہ یہ ایک سیاسی گناہ ہے‘اسرائیل نے کہا کہ وہ متحدہ عرب امارات کو اعلی درجے کے فوجی ہارڈویئر کی امریکی فروخت کی مخالفت نہیں کرے گا امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بعد متحدہ عرب امارات کو ایف 35 لڑاکا طیارے خریدنے کی اجازت دینے پر غور کرنے پر اتفاق کیا تھا.

تاہم اسرائیل نے کہا تھا کہ مشرق وسطی کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں فوجی فائدہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے لیکن اس ہفتے کے شروع میں کہا گیا تھا کہ امریکہ اسرائیلی فوجی صلاحیتوں کو اپ گریڈ کرنے پر راضی ہو گیا ہے 1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد سے سوڈان اسرائیل کا دشمن رہا ہے سوڈان ہی وہ مقام ہے جہاں 1967 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے خلاف اعلامیہ پیش کیا گیا تھا دارالحکومت خرطوم میں عرب لیگ نے اسرائیل کے ساتھ امن نہیں‘ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا اور اس کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیںکا حلف لیا تھا.

سوڈان نے 1948 اور 1967 میں اسرائیل کے خلاف جنگیں بھی لڑی ‘طویل عرصے تک سوڈان کے حکمران رہنے والے عمر البشیر کے اقتدار کے خاتمے اور اس کی جگہ عبوری سویلین ملٹری کونسل کے باعث ملک کے سیاسی محرکات میں تبدیلی آئی ہے جسے شامی اپوزیشن کی طرزپر امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی ممالک کے ہر طرح سے مدد اور تائید حاصل تھی. سوڈان میں حقیقی طاقت کے مالک جرنیلوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی حمایت کی ہے تاکہ سوڈان پر امریکی پابندیاں ختم ہو جائیں اور بری طرح سے معاشی بدحالی کے شکار ملک میں امداد کی راہیں کھل سکیں اس ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ افریقہ میں امریکی سفارتخانوں پر حملوں کا 33 کروڑ 50 لاکھ ڈالر زرِ تلافی ملنے کے بعد سوڈان کو دہشت گردوں کی سرکاری طور پر سرپرستی کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکال دیا جائے گا.

1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں یہ حملے القاعدہ نے کیے تھے جب اس تنظیم کے رہنما اسامہ بن لادن سوڈان میں مقیم تھے سوڈان نے ان حملوں کے متاثرین کے لیے یہ رقم ایک خصوصی ہولڈنگ اکاﺅنٹ میں جمع کروا رکھی ہے.