لوٹا دو نیلا گگن، پکار دہلی والوں کی

DW ڈی ڈبلیو اتوار 25 اکتوبر 2020 18:00

لوٹا دو نیلا گگن، پکار دہلی والوں کی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اکتوبر 2020ء) 24 مارچ 2020ء کی آدھی رات سے، جب بھارت میں کورونا وائرس کو قابو میں کرنے کے لیے لاک ڈاؤن شروع ہوا، تو زندگی تھم سی گئی۔ میرے شوہر کو گھر سے ہی کام کرنے کی ہدایت موصول ہوئی اور ایک فرماندار بیوی ہونے کے ناطے اب کام کے دوران ان کو وقتاً فوقتاً چائے پلانے کی ذمہ داری بھی آن پڑی، جو اس سے قبل ان کے آفس کینٹین کو اٹھانا پڑتی تھی۔

اس اضافی ڈیوٹی اور سڑکوں پر بے یار و مددگار مہاجر ورکرز اور یومیہ مزدوروں کی حالت زار دیکھ کرمیں لاک ڈاؤن کے خلاف اندر سے کڑھ رہی تھی۔ ایک رات بور ہوکر دہلی میں اپنے فلیٹ کی بالکونی کی ریلنگ سے لگ کر وقت کاٹ رہی تھی کہ میری نگاہ اوپر کی طرف اٹھ گئی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں دارالحکومت دہلی میں بیٹھی ہوں۔

(جاری ہے)

تاروں بھرا آسمان دیکھے کئی دہائیاں بیت چکی تھیں۔

میں اپنی آنکھیں مل رہی تھی کہ یہ کہیں عالم خواب تو نہیں، مگر یہ حقیقت تھی۔ میں بچپن کی ان یادوں میں کھو گئی، جب دہلی سے دور جھاڑکھنڈ میں رات کو اسی طرح تاروں بھرا آسمان نظر آتا تھا۔

کئی دہائیوں کے بعد دہلی کے اوپر نیلا آسمان سائبان کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ گو کورنا وبا اپنے ساتھ خوف و دہشت لے کر آئی تھی، مگر اس نیلے آسمان نے اور پہلی بار برسات میں قوس قزح کے رنگ دیکھ کر تو میری روح میں پر لگ گئے۔

اب شوہر کی بار بار چائے کی فرمائش بری لگ رہی تھی نہ ہی پر اسرار سکوت کھڑک رہا تھا۔ اس نیلے آسمان کو دیکھنے کے لیے ہر سال پہاڑوں پر جاکر کتنے روپے خرچ کرنا پڑتے تھے۔ شمالی بھارت کے دو اہم دریا گنگا اور جمنا جن کو صاف کرنے کے لیے ہر سال حکومت، کئی ملین ڈالر خرچ کرتی ہے، اور پھر وہی ڈھاک کے تین پات والے معاملہ ہوتا ہے، وہ بھی اس لاک ڈاؤن میں خود بخود ہی صاف ہو گئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق مقدس گنگا ندی کا پانی پینے کے لائق ہو گیا تھا۔ پنجاب کے کئی شہروں سے ہمالیہ کی چوٹیاں نظر آنے لگی تھی۔ لاک ڈاؤن کے ایک ماہ بعد امریکی خلائی تحقیقی ادارے NASA نے خلاصہ کیا کہ لاک ڈاون سے دہلی اور شمالی بھارت کے صوبوں میں آلودگی کی سطح پچھلے 20 سالوں میں سب سے کم پائی گئی۔
مگر یہ خوشی زیادہ دیر برقرار نہیں رہی۔ زندگی کی رفتار کو تھاما تو نہیں جاسکتا تھا۔

جہاں دنیا میں پانچ موسم ہوتے ہیں۔ وہیں دہلی میں ایک اورچٹھا موسم انتہائی آلودگی کا موسم ہوتا ہے۔ یہ موسم خزاں کے بعد اور دہلی کی کڑکڑاتی سردی سے قبل تہواروں کے سیزن کے ساتھ آتا ہے۔ اس موسم میں آسمان کو دیکھنا تو دور کی بات، چند گز کی دوری سے سڑک پر کسی چیز کو دیکھنا بھی محال ہوتا ہے۔ دن میں بھی کار کی ہیڈ لائٹس آن رکھنا پڑتی ہیں۔

آلودگی کی چادر سورج کی روشنی تک کو زمین تک پہنچنے نہیں دیتی۔ کھلے آسمان کے تلے اگر تھوڑی دیر بھی ٹھہر لیں، تو آنکھوں میں جلن ہونے لگتی ہے۔ بچے اور عمر رسیدہ افراد پارکوں میں سیر کے لیے نہیں جاسکتے ہیں۔ دمے کے مریضوں کے لیے تو یہ موسم نہایت ہی خطرناک ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہوا میں آلودگی کی سطح 150 مائیکروگرام فی مربع میٹر ہو جائے، تو اس میں سانس لینا خطرے سے کم نہیں ہے۔

مگر اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دیوالی کے آس پاس، جو 14 نومبر کو منائی جائے گی، آلودگی 450 مائیکر و گرام فی مربع میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔ آلودگی کے خلاف اقدامات ہوں یا نہ ہوں مگر ہر سال ستمبر، اکتوبرکا مہینہ آتے ہی اس پر خوب بحث ہوتی ہے، اور پھر اگلے سال تک ادارے پھر خواب خرگوش میں چلے جاتے ہیں۔ دہلی کے ارباب اختیار شمالی ریاستوں پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کو اس صورتحال کی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

وہیں ان ریاستوں کے حکمران مرکزی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا کراپنا دامن چھڑا لیتے ہیں۔ اسی طرح صحافی برادری بھی اس دوران آلودگی کے حوالے سے اسٹوریز کرتے ہیں اور ہر سال اعداد و شمار میں پھیر بدل کر میڈیا ان کو مشتہر کرتا ہے۔

روہنیگا کو اب مون سون سے خطرہ
فضائی آلودگی سے پانچ لاکھ نوزائیدہ بچے ہلاک

دہلی میں خالص آکسیجن میں پندرہ منٹ سانس لیجیے، قیمت چار ڈالر

دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں کوئلے سے چلنے والے کئی بجلی گھر ہیں، جو پورے سال دھواں چھوڑتے رہتے ہیں۔

سال بھر ان کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ شاید دلی والوں کے پھیپھڑوں کو اس دھوئیں کی عادت پڑ چکی ہے۔ جیسے ہی آلودگی کے موسم کا آغاز ہوتا ہے دہلی، مرکزی حکومت اور پڑوسی ریاستوں کے مابین زبانی جنگ شروع ہو جاتی ہے اور ان پلانٹوں کو بند کرنے کے وعدے کیے جاتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ان کو 2015 تک بند کر کے دہلی کو متبادل بجلی کے ذرائع مہیا کیے جائیں گے۔

پھر یہ ڈیڈ لائین 2019 تک بڑھائی گئی۔ مگر اب 2020میں بھی یہ بجلی گھر اسی طرح کوئلہ جلا کر، دھوئیں سے ماحول کو آلودہ کر کے، دہلی کے باسیوں کو بجلی فراہم کرتے ہیں۔ پھر ان مہینوں میں پنجاب اور ہریانہ کے زرعی میدانوں میں چاول کی فصل کی کاشت ہوتی ہے۔ فصل کٹنے کے بعد پودوں کے ٹھونٹھ یا پرالی کھیت میں باقی رہ جاتے ہیں وہ کسانو ں کے کسی کام کی نہیں ہوتے۔

ایسے میں کسانوں کے پاس سب سے آسان راستہ اسکو آگ کے حوالے کر دینا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگلے 10 سے 15 دنوں میں ان کو کھیت صاف کرکے گندم کی بوائی کرنا ہوتی ہے۔ پچھلے سال سپریم کورٹ نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی تھی، کہ ٹھونٹھ جلائے بغیر ضائع کرنے والے کسانوں کو مالی معاوضہ دیا جائے، مگر وہ کسان اب تک اس کے انتظار میں ہیں۔کیونکہ اس طریقہ کار میں خاصی محنت درکار ہوتی ہے۔

کسان بھی یہ قبول کرتے ہیں کہ کھیتوں میں پرالی یا پودوں کے ٹھونٹھ جلانے سے جو کثافت ہوتی ہے اس سے ان کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ مگر جوں جوں گیہوں کی فصل کی بوائی کے دن نزدیک آتے ہیں، ان کے لیے کھیت کو صاف کرنے کے لیے اور کوئی چارہ نہیں بچتا۔ اگر وقت پران کو مناسب مدد مہیا ہو تو ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اس معاملے کو لے کر فائلیں بس ایک میز سے دوسری میز کا چکر لگا رہی ہیں، اور آلودگی کا پہیہ اپنی پوری رفتار سے چلتا رہتا ہے۔


جوں جوں اب دیوالی کا تہوار قریب آرہا ہے، دہلی میں سبھی یہی سوال کرتے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ سردی کے موسم میں یہاں کے ماحول میں ٹھنڈی اور گرم ہوا کی تہہ سی بن جاتی ہے۔ دہلی ا ور اس سے ملحقہ علاقوں کو کالے دھوئیں کے بادل اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ یہ علاقہ ایک بند برتن یا گیس چیمبرمیں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اسپتالوں میں نزلہ، زکام، کھانسی، دمے، پھیپڑوں کے مریضوں اور سانس لینے میں پریشانی کی شکایت کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی سے ہر سال بھارت میں 20 لاکھ لوگ بے وقت مر جاتے ہیں۔ ایک اور عالمی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال بھارت میں ایک لاکھ 16ہزار نو زائیدہ بچے آلودہ ہوا کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے۔ اس سال بھی دہلی میں پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے آلودگی کنٹرول بورڈ نے پانچ نومبر تک سبھی تعمیراتی کاموں پر روک لگا دی ہے۔

دہلی ہی نہیں زیادہ تر بڑے شہروں میں دیوالی کی رات کا جشن فضائی آلودگی کے ریکارڈ توڑتا ہے۔ پچھلے سال سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود دیوالی کی رات کو ہوا اتنی زہریلی ہو گئی کہ ایسا لگا کسی وبائی بیماری نے حملہ کر دیا ہو۔ آلودگی کنٹرول بورڈ کے اعداد وشمار کے مطابق پچھلے سال دیوالی کی رات 10 بجے کلکتہ میں آلودگی کا گراف 863 اور دہلی میں 1263 تھا، جو معمول سے 25 گنا زیادہ ہے۔

دیوالی پر چراغوں کی جگمگاہٹ اور آتش بازی کا میل صدیوں پرانا ہے۔ بھارت میں سالانہ بیس ہزار کروڑ روپے کا پٹاخوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ ہر سال سینکڑوں لوگ پٹاخوں کی وجہ سے جل بھی جاتے ہیں۔ پٹاخوں میں ہری روشنی کے لیے بیریم کا استعمال ہوتا ہے۔ جو ریڈیشن پیدا کرنے کے ساتھ زہریلا بھی ہوتا ہے۔ نیلی روشنی کے لیے کاپر کمپاؤنڈ کا استعمال ہوتا ہے جس سے کینسر کا خطرہ ہوتا ہے۔

پیلی روشنی گندھک سے پیدا کی جاتی ہے جو سانس کی بیماری کو جنم دیتی ہے۔ پٹاخے پھوٹنے کے 100 گھنٹہ بعد تک زہریلے مادے ہوا میں گھلے رہتے ہیں۔ فضائی آلودگی کو پٹاخوں کے علاوہ گاڑیوں سے نکلنے والا کاربن، سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن گیس، پرالی کا دھواں، دھول اور سنگین بناتے ہیں۔
ہیلتھ افیکٹ انسٹی ٹیوٹ اور انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلویشن نے دنیا بھر میں ہوا کے معیار سے متعلق اعداد وشمار پر تفصیلی رپورٹ'اسٹیٹ آف گلوبل ایئر‘ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں فضائی آلودگی سے ہونے والی پانچ ملین اموات میں سے پچاس فیصد صرف بھارت اور چین میں ہوتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں فضائی آلودگی اب صحت کے لیے سب سے مہلک خطرات کے تیسرے پائے تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2017 میں غیر محفوظ کثیف ہوا سے 6 لاکھ 73 ہزار لوگ موت کا شکار ہو گئے تھے۔ نیشنل ہیلتھ پروفائل 2019 کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے ملک کا ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہے۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ دنیا کے آلودہ شہروں کی فہرست میں بھارت کے 10 شہر شامل تھے۔

ماحولیات کے معیار میں گراوٹ سے ملک کو تقریباً 3.75 ٹریلین روپے کا سالانہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ وقت آگیا ہے جب ماحولیات کو صاف ستھرا رکھنے والی اسکیموں کو فائلوں سے نکالا جائے۔ کچرے کو نمٹانے کا بندوبست ہو۔ کنکریٹ کا جنگل کھڑا کرنے کے بجائے ہریالی کو بڑھاوا دیا جائے۔ پہلے پرالی سے مویشیوں کا چارا بنتا تھا۔اب کسان اسکو جلا رہے ہیں اور گائیں کوڑا، پولی تھین کھا رہی ہیں۔

اگر گائے کو تحفظ دینے کے نام پر سیاست کرنے والے اس طرف تھوڑا دھیان دیں تو کسانوں کو پرالی جلانے اور گائیوں کو کوڑا کھانے سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ ماحولیات کو انسانی زندگی کے لیے مفید بنانے کی مہم کا عوام سے جوڑنا ضروری ہے۔ حکومت اور عدلیہ اکیلے اس کام کو نہیں کر سکتے ہیں،کیونکہ یہ سب کی زندگی کا سوال ہے۔ قدرتی وسائل کی حفاظت کی جائے تاکہ آئندہ نسلوں کو کو سانس لینے کے لائق ہوا تو مل سکے۔

اور وہ بھی ساحر لدھیانوی کے اس گیت کو اسی طرح گا سکیں، جس طرح ہم بچپن میں نیلے آسمان کو دیکھ کر گاتے تھے۔

نیلے گگن کے تلے، دھرتی کا پیار پلے

ایسے ہی جگ میں، آتی ہیں صبحیں، ایسے ہی شام ڈھلے
شبنم کے موتی، پھولوں پہ بکھریں

دونوں کی آس پھلے، نیلے گگن کے تلے
بل کھاتی بیلیں، مستی میں کھیلیں

پیڑوں سے مل کے گلے

نیلے گگن کے تلے، دھرتی کا پیار پلے