نیب نے سندھ روشن پروگرام میں بر آمد کی گئی رقم سندھ حکومت کے حوالے کر دی

میگا کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا نیب کی اولین ترجیح ہے، نیب کا کسی سیاسی جماعت، گروپ یا فرد سے کوئی تعلق نہیں ہے، چیئر مین نیب بدعنوان عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور لوٹی گئی رقم برآمد کرکے قومی خزانہ میں جمع کرانے کیلئے شاندار کوششوں پر ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی کی تعریف

پیر 26 اکتوبر 2020 17:47

نیب نے سندھ روشن پروگرام میں بر آمد کی گئی رقم سندھ حکومت کے حوالے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 اکتوبر2020ء) قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے 224.071 ملین روپے کا چیک چیف سیکرٹری سندھ ممتاز علی شاہ کے حوالہ کر دیا، انہیں یہ چیک روشن پروگرام کے تحت سولر سٹریٹ لائٹس کی تنصیب کے غیر قانونی ٹھیکوں میں لوٹی گئی رقم کو وصول کرکے دیا گیا اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل اکائونٹیبلٹی سیّد اصغر حیدر، چیف سیکرٹری سندھ ممتاز علی شاہ، ڈی جی آپریشن نیب ظاہر شاہ، ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی اور دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے۔

ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی نے اجلاس کے دوران بتایا کہ نیب راولپنڈی نے سندھ روشن پروگرام کے تحت میونسپل اور ٹائون کمیٹیوں میں سولر سٹریٹ لائٹس کی تنصیب کیلئے غیر قانونی ٹھیکوں کی تحقیقات سے شروع کیں۔

(جاری ہے)

یہ تحقیقات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے انکوائری کیلئے بھجوائی گئیں۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی فائنڈنگز میں 19 ٹھیکیداروں کی جانب سے مختلف جعلی بینک اکائونٹس میں کک بیکس جمع کرانے کی نشاندہی کی تھی، موجودہ تحقیقات سے تین ٹھیکیداروں، ودود انجینئرنگ سروس پرائیویٹ لمیٹڈ ایم جے بی کنسٹرکشن کمپنی اور ظفر انٹرپرائزز (جے وی) کو محکمہ دیہی ترقی سندھ کے افسران و اہلکاران کی جانب سے روشن سندھ پروگرام کے تحت سندھ کی میونسپل اور ٹائون کمیٹیوں میں سولر سٹریٹ لائٹس کی تنصیب کے منصوبہ میں 6 ٹھیکے غیر قانونی طور پر دیئے گئے۔

پاکستان کونسل آف رینیو ایبل انرجی ٹیکنالوجیز (پی سی آر ای ٹی) اسلام آباد کے ماہرین اور نیب کی ٹیم نے مل کر حیدرآباد،سکھر اور لاڑکانہ سے سولر لائٹس اکٹھی کیں اور ان کے پی سی آر ای ٹی اسلام آباد میں ٹیسٹ دیئے گئے۔ سولر لائٹس سے متعلق ٹیکنیکل رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سولر پینل، بیٹری، چارج کنٹرولر اور ایل ای ڈی پی سی ون کے برعکس مربوط انداز میں تیار کئے گئے جبکہ پی سی ون میں یہ الگ الگ آئٹمز ظاہر کئے گئے تھے اور ان کی علیحدہ علیحدہ قیمتیں طے کی گئی تھیں۔

ماہرین نے سولر لائٹ کی مارکیٹ کی بنیاد پر قیمتوں کا تعین کیا جس سے ظاہر ہوا کہ ٹھیکیداروں نے بھاری منافع کمایا جو آئٹم پی سی ون میں 600 سے 2000 کا تھا وہ دستاویزات میں 10 ہزار کا دکھایا گیا اور حقیقت میں سولر چارجر کنٹرولر آئٹم خریدے ہی نہیں گئے۔ اس منصوبہ میں 401.2 ملین روپے کی لائٹس پر بھاری منافع کے علاوہ افسران کو 22.3 ملین روپے کے کک بیکس دیئے گئے،سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن نے مبینہ طور پر 77 ملین روپے غیر قانونی طور پر وصول کئے جو جعلی بینک اکائونٹ میں جمع کرائے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ منصوبہ کی مجموعی واجب الادا رقم 505 ملین روپے ہے، ملزمان نے اپنا جرم تسلیم کیا اور پلی بارگین کی درخواست دی، ملزمان سے وصول کی گئی رقم 305 ملین روپے ہے جبکہ آج چیف سیکرٹری سندھ کے حوالہ 224.071 ملین روپے کا چیک دیا گیا ہے۔ قبل ازیں نیب جعلی بینک اکائونٹ سکینڈل میں 11.66 ارب روپے وصول کرکے واپس کر چکا ہے۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ میگا کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا نیب کی اولین ترجیح ہے، نیب کا کسی سیاسی جماعت، گروپ یا فرد سے کوئی تعلق نہیں ہے، نیب کا ایمان کرپشن فری پاکستان ہے، نیب افسران اس کو قومی فرض سمجھ کر ادا کر رہے ہیں، نیب نے سندھ میں شوگر سکینڈل میں 10 ارب روپے ریکور کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائے ہیں جو سندھ حکومت کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔

نیب نے جعلی اکائونٹ کیسز میں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر 23 ارب روپے وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائے ہیں۔ نیب نے روشن سندھ پروگرام میں لاکھوں روپے وصول کرکے سندھ حکومت کے حوالے کئے ہیں۔ نیب نے 50 کروڑ روپے مالیت کے دو قیمتی پلاٹ سندھ حکومت کے حوالے کئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور کاکا نے پاکستان سٹیل ملز کی 506 ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر الاٹ کی، اس میں سے 300 ایکڑ اراضی جس کی مالیت 100 ارب روپے بنتی ہے سندھ حکومت کو واپس کی گئی ہے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کراچی سولر لائٹس کیس فیز ون اور ٹو کی تنصیب کی انکوائری کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی شاندار پراسیکیوشن کے باعث متعلقہ احتساب عدالت کراچی نے پاکستان سٹیٹ آئل کیس میں ملزم کامران افتخار لاری کی 1.27 ارب روپے کی پلی بارگین کی درخواست قبول کر لی ہے۔ نیب سندھ بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کی کمی کے کیس کی بھی تحقیقات کر رہا ہے کیونکہ سندھ حکومت صحت عامہ کیلئے شہریوں کو یہ ویکسین فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے تاہم شکایات کی بنیاد پر لاڑکانہ ڈویلپمنٹ پیکیج کے علاوہ دیگر سرکاری ہسپتالوں میں یہ ویکسین اب بھی دستیاب نہیں ہے۔

اس موقع پر چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے 224.071 ملین روپے کا چیک چیف سیکرٹری سندھ ممتاز علی شاہ کے حوالہ کیا ہے، انہیں یہ چیک روشن پروگرام کے تحت سولر سٹریٹ لائٹس کی تنصیب کے غیر قانونی ٹھیکوں میں لوٹی گئی رقم کو وصول کرکے دیا گیا ہے۔ چیف سیکرٹری سندھ ممتاز علی شاہ نے 224.071 ملین روپے کا چیک دینے پر چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کا شکریہ ادا کیا اور بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے نیب کی کوششوں کی تعریف کی۔ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے بدعنوان عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور لوٹی گئی رقم برآمد کرکے قومی خزانہ میں جمع کرانے کیلئے شاندار کوششوں پر ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی اور نیب راولپنڈی کی تعریف کی۔