کارکن ہماری رہائی کے لیے کوئی مطالبہ نہ کریں،اپنے اس مطالبے میں شدت لائیں کہ ہمارے آزادی مارچ کو اب بھی پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد جانے دیا جائے،محمد صغیر خان

منگل 27 اکتوبر 2020 20:48

پلندری(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 اکتوبر2020ء) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئر مین محمد صغیر خان نے کہا ہے کہ کارکن ہماری رہائی کے لیے کوئی مطالبہ نہ کریں بلکہ اپنے احتجاج کے ذریعے اس مطالبے میں شدت لائیں کہ ہمارے آزادی مارچ کو اب بھی پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد جانے دیا جائے تاکہ ہم وہاں پر یہ یاداشت پیش کریں کہ 1947؁ء میں بننے والی آزادانقلابی حکومت کو بحال کیا جا سکے ۔

پلندری تھانہ میں آئے کارکنان سے ملاقات کرتے صغیر خان نے کہا کہ کل ایک طرف پُرامن دھرنے میں سوئے ہوئے ہم لوگوں کو گرفتار کیا گیا ۔ اس گرفتاری میں آلہ کار بننے والی مظفرآباد کی نام نہاد حکومت کے صدر اور وزیر اعظم نے اسی گرفتاری کے دن مشرکہ طور پر میڈیا میں اپنا یہ موقف سامنے لایا کہ مسئلہ کشمیر کی نمائندگی اور اُس کے اصل حل کے لیے کشمیری قیادت کوحق حکمرانی دے کر باہر بھیجا جائے ۔

(جاری ہے)

اسی نمائندگی کے لیے جب ہم پُرامن مارچ لے جا رہے تھے تو ہمارے ساتھ یزیدیت برتی گئی یہی ہماری جیت ہے کہ حکمران طبقہ ہمارے ہی موقف کی خود بھی مانگ کرنے پر مجبور ہے ۔ اس موقع پر صغیر خان کا کہنا تھا کہ پُر امن اور جمہوری انداز میں ہم اپنا پیغام لیکر جارہے تھے اگر ہم رکاوٹیں ہٹاتے تو ہمارا پُر امن احتجاج تشدد میں بدل جاتا اور ہمیں معلوم تھا کہ آبپارہ کے حکم پر ریاستی انتظامیہ یہاں قتل و غارت کرتی اس سازش کے خلاف ہم نے اپنا کندھا استعمال نہیں ہونے دیا ہم صرف 47میں بننے والی انقلابی حکومت کی نمائندہ حیثیت کی بحالی چاہتے تھے ۔

پہاڑیاں اور کنٹینر کھڑے کرکے ہمارا راستہ روکا گیا دھرنا سے ہٹ کر ہمارے پاس کوئی چارہ نہ تھا ۔ یہی ہماری فتح ہے کہ ہمارے آزا دی مارچ سے خائف ہو کر گلگت سے کرایہ پر لوگ لانے کی کوشش کی گی وہاں کی با غیرت عوام نے اس آلہ کاری سے انکار کیا تو جنوبی پنجاب کے چند مزدوروں کو ہزاروں روپے دیکر اسلام آباد میں گلگت صوبہ بنانے کا ناٹک رچایا گیا ۔

ہم آج بھی کہتے ہیں کہ ہم گلگت صوبہ بنانے کے مخالف نہیں لیکن ہمارا دو ٹوک موقف ہے کہ گلگت اور آزاد کشمیر میں دو صوبے بنا کر انکو انقلابی حکومت کے ماتحت کیا جائے ۔ یہ صوبہ ریاست جموں کشمیر کا ہو کسی پڑوسی ملک کا صوبہ نہیں بننا چاہیے ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان آزادکشمیر کا نہیں بلکہ ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے اسلام آباد جب اقوا م متحدہ میں خود جی بی کو متنازعہ ریاست کا حصہ مان کر آیا ہے تو پھر کس حیثیت سے اور کسی منہ سے وہ اسے اپنا صوبہ بنا سکتا ہے ۔

اُن کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر گلگت پر مشتمل انقلابی حکومت کے قیام منگلا ، نیلم جہلم سمیت تمام آبی ذخائر کی ملکیت مظفرآباد حکومت کو دلوانے آزاد کشمیر گلگت کو بجلی فری لوڈ شیڈنگ زون قرار دلوانے دیامر ڈیم کی ملکیت جی بی حکومت کو دلوانے استور مظفرآباد سڑک کی فوری تعمیر کروانے بھارتی مقبوضہ کشمیر جی بی اور آزاد کشمیر میں غیر ملکیوں کو زمینوں کی الاٹ منٹ بند کروانے اور اسٹیٹ Subject Rulesکی بحالی کے لیے اور ریاست کے تمام حصوں میں گرفتار اسیران وطن محمد یاسین ملک ، فاروق ڈار ( بٹہ کراٹے ) ، ظہو ر احمد بٹ، شبیر شاہ ، تنویر محمود ، بابا جان ، افتخار کربلائی سمیت سیاسی قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کے لیے اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا شکار ہم وطنوں سے اظہار یکجہتی 47میں بنی آزاد کشمیر ریگولر فورس کی بحالی اور اس کی سیز فائر لائن پر تعیناتی بابر قادری ایڈووکیٹ کی سازشی شہادت کے خلاف اور کوہلہ ہائیڈل پراجیکٹ کی منسوخی متاثرین زلزلہ 55ارب روپے کی حکومت پاکستان سے واپسی جیسے مطالبات پر اسلام آباد Parlimentکی طرف آزادی مارچ کرکے وہاں یاداشت پیش کرنا تھی ۔

اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا فیصلہ 47میں بننے والی انقلابی حکومت کی بحالی اور پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے دونوں خطوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر مشتمل با اختیار صوبوں کے قیام کے مطالبے کو منوانے کیا گیا۔ جے کے ایل ایف مطالبہ کیا ہے جنوبی ایشاء کو ہولناک ایٹمی جنگ سے بچانے ،پاکستان فوری طور پر 47میں بننے والی جموںکشمیر کی انقلابی حکومت کی حثیت بحال کرے تاکہ کشمیری اپنی آزادی کی جنگ خود لڑ سکیں ۔

بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے تمام خطوں کے عوام کی حالیہ جدو جہد کا نتیجہ ہے کہ ہم ایک ہو کر حقیقی آزاد ی کے لیے سامنے آئے انہوں نے وادی کی عوام کی جرات اور استقامت کو خصوصی خراج تحسین پیش کیا JKLF نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے زیر انتظام نام نہاد آزاد کشمیر اور اور جی بی کو دو با اختیار صوبے بنا کر کشمیر کی انقلابی حکومت بنائی جائے حکومت پاکستان پہلے اسے خود تسلیم کرے تاکہ دنیا میں کشمیر اپنی وکالت خودکرسکے چین کو وکالت دینے کے بعد اب چین کی طرف سے لداخ پر حملے پر خاموشی اور آئی ایس پی آر کے ترانہ میں صرف وادی کی آزادی کا مطالبہ کرنا ریاست کے باقی خطوں سے دستبرداری ہے ثابت ہوا کہ اسلام آباد خود ناا ہل ہے اور جموں کشمیر کی تقسیم پر راضی ہے ۔

پاک و ہند کے بعد لداخ پر حملے کے بعد اب چین بھی جموںکشمیر پر نیا قابض بن کر سامنے آیا ہے ۔اس کی وکالت کسی صورت قبول نہیں انہوں نے کہا یک طرفہ طور پر سیز فائز لائن توڑنے کو کوئی فائدہ نہیں اس کا فائدہ صرف بھارت کو ہوگا۔جب ریاست کے تمام خطوںسے آ ر پار مار چ ہوگا۔تب ہی آزادی کی تحریک کے لیے سود مند ہوگاJKLF نے یہ مطالبہ بھی کیا سیٹٹ سجبیکٹ قانون بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ GBاور پاکستانی کشمیر کو بحال کیا جائے گلگت اور راولاکوٹ میں زمینوں کی الاٹ منٹ منسوخ کیا جائے انہوںنے متنبہ کے کشمیر میں اب کوئی اور پراکسی وار نہیں کھیلنے دیں گے مقبول بٹ ،کیپٹن حسین خان شہید ،سجاد افعانی ،کرنل حسن مرزا ،خان آف منگ کی سرزمین پر حافظ سعید ،مسعود اظہر ،سراج الحق ،فضل الرحمان خلیل کو کسی صورت محمد بن قاسم نہیں بننے دیں گے ان کی وجہ سے پہلے بھی تحریک پر دہشت گردی کا لیبل لگاا نہوں نے پاک و ہند سے مطالبہ کیا برصغیر کو ہولناک ایٹمی جنگ سے بچانے اور اربوں بے گناہ انسانوں کو لقمہ اجل بننے سے روکنے فوری پاک ہند اور چین اپنی افواج نکال کر ریاست جموں کشمیر کو آزاد ملک تسلیم کریں ۔

ان گرفتاریوں کی اطلاع ملتے ہی راولاکوٹ، ہجیرہ، منگ ، ناڑ،کوٹلی،دھیرکوٹ میں ہنگامہ خیز احتجاجی مظاہرے کیے گئے ۔ راولاکوٹ مین چوک میں دھرنا دیکر نظام زندگی چند گھنٹوں کے لیے مفلوج کیا گیا ۔ لبریشن فرنٹ کے رہنمائوںعثمان چغتائی، عبدالحمید خان ، عمر نذیر کشمیری ، عابد خان ، نذر کلیم ، JKNSFکے، اسفند فاروق، رضوان رشید فاران مشتاق JKSLFکے احسن اسحاق نیشنل عوامی پارٹی کے عامرر شاہد، انجمن تاجران کے صدر افتخار فیروز ، راولاکوٹ انجمن تاجران کے ڈپٹی سیکرٹری شاہد خورشیدنے حکومت کو آزادی مارچ کو جلوس کی صورت میں پارلیمنٹ ہائوس جا کر یاداشت پیش کرنے کی مہلت دی ہے بصورت دیگر جو حالا ت پیدا ہونگے اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی ۔

دو روز قبل آزادی مارچ کو اسلام آباد داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا ۔ گوئیں نالہ روڈ کی پہاڑیوں سمیت مختلف بلند مقامات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی آزاد پتن پل اور چینی تعمیراتی کمپنی کو بھاری فورسز لگا کر حفاظت میں لے لیا گیاتھا۔ JKLFکے کارکنوں کے راولپنڈی راولاکوٹ مین شاہراہ پر دھرنے کے باعث آزاد کشمیر کے دو اضلاع پونچھ اور فاروڈ کہوٹہ کا راولپنڈی سے رابطہ منقطع رہا۔

راولاکوٹ تا پلندری ، تھوراڑ ، منگ اور آزاد پتن رابطے بھی منقطع رہے ، جگہ جگہ بھاری بھر پتھر ، چٹانیں اور کنٹینر لگا کر راستے بند کردیے گے تھے۔پُر امن احتجاج کو روک کر ریاستی دہشت گردی کی گی اب ہم 1955کی تاریخ دوہرانے پر مجبور کیے جارہے ہیں ۔ طاقت و اختیارات کے سہار ے ہمیں 55کی طرف لے جانے والے یاد رکھیں کہ اس وقت ان کی فورسز کی پتلونیں اُتاروا کر ہمارے آباو اجداد نے انھیں واپس بھیجوایا تھا ۔

چیئرمین صغیر خان کا اعلان رات بھر ٹھنڈی سردی میں صغیر خان ہم کیا چاہتے آزادی دہلی اسلام آباد نہیں کشمیر ہماری ماں ہے مقبول بٹ تیرا قافلہ رکا نہیں جھکا نہیں کہ نعروں سے ماحول گرم رہا ۔ کرنے راولاکوٹ سے نکلنے والا آزادی مارچ ، ضلع پونچھ کی حدود سے نکلتے ہی ضلع سدھنوتی میں روک دیا گیا تھا۔ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں کرفیو کی شکاراور شمالی کشمیر ( GB) کی ہم وطن قوم سے اظہار یک جہتی کے لیے راولاکوٹ میں بیسوں ہزار افراد کا آزادی مارچ تقسیم کشمیر کے خلاف اور آزادی کشمیر کے حق میں نعرہ بازی سے شہر گونج اُٹھا ۔

حسین خان شہید پوسٹ گریجویٹ کالج کے گرائونڈ جہاں 31جولائی 88کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونے والی گوریلہ جنگ کا بھی وار ڈیکلریشن جاری ہوا تھا ۔ اسی گراونڈ سے جب آزادی مارچ کا آغاز ہوا تو سخت جذباتی ماحول دیکھنے ملا ۔ تاجران نے شٹر ڈائون کرکے مارچ کا استقبال کیا ۔ آزادی مارچ مختلف شاہراوں سے ہوتا ہوا 10کلو میٹر دور بلدیہ اڈا تک پیدل گیا ۔

پیر و جوان کی بھر پور شرکت سے راولاکوٹ مقبول آباد میں بدل گیا تھا ۔ خواتین اور طالبات کی بڑی تعداد میں شرکت کی پیش کش کو JKLFکی قیادت نے شکریہ کے ساتھ یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا کہ آج صرف دعائوں کی ضرورت ہے ۔ آنے والوں وقتوں اپنی مائوں ، بہنوں ، بیٹیوں کو ان کی خواہش کے مطابق تقسیم کشمیر کی سازشوں کو ناکام بنانے میدان میں اُتاریں گے ۔

آزاد کشمیر کے قومی پرچم JKLFاور JKNSFکے جھنڈے اُٹھائے ہونے والے اس آزادی مارچ کی قیادت جے کے ایل ایف کے چیئرمین محمد صغیر خان کررہے تھے ۔ جبکہ ان کے ہمراہ JKLFکی قیادت سینئر وائس چیئرمین راجہ مظہر اقبال سیکرٹری جنرل شعیب خان زونل صدر انصار احمد خان ، ایس ایل ایف کے چیئرمین راجہ عابد مرکزی لیڈر عبدالحمید خان ، عمر نذیر کشمیری ، راجہ اشفاق باغی ، انجینئر جاوید ، NSFکے سابق صدر ، طلحہ خان ، توصیف عبدالخالق ، فاران مشتاق ، انجمن تاجران آزاد کشمیر کے صدر افتخار فیروز، راولاکوٹ انجمن تاجران کے آرگنائزر وسیم خورشید ، JKPNPکے سیکرٹری جنرل ناصر لبریز بھی تھے ۔

ریلی کے شرکا ء نے محمد مقبول بٹ کے بڑے بڑے پوٹریٹ اور اس کے ساتھ گل نواز بٹ، فہیم اکرم، اور ارشد بلو کی تصاویر اُٹھا رکھی تھی آزاد کشمیر گلگت پر مشتمل انقلابی حکومت کے قیام منگلا ، نیلم جہلم سمیت تمام آبی ذخائر کی ملکیت مظفرآباد حکومت کو دلوانے آزاد کشمیر گلگت کو بجلی فری لوڈ شیڈنگ زون قرار دلوانے دیامر ڈیم کی ملکیت جی بی حکومت کو دلوانے استور مظفرآباد سڑک کی فوری تعمیر کروانے بھارتی مقبوضہ کشمیر جی بی اور آزاد کشمیر میں غیر ملکیوں کو زمینوں کی الاٹ منٹ بند کروانے اور اسٹیٹ Subject Rulesکی بحالی کے لیے اور ریاست کے تمام حصوں میں گرفتار اسیران وطن محمد یاسین ملک ، فاروق ڈار ( بٹہ کراٹے ) ، ظہو ر احمد بٹ، شبیر شاہ ، تنویر محمود ، بابا جان ، افتخار کربلائی سمیت سیاسی قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کے لیے اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا شکار ہم وطنوں سے اظہار یکجہتی 47میں بنی آزاد کشمیر ریگولر فورس کی بحالی اور اس کی سیز فائر لائن پر تعیناتی بابر قادری ایڈووکیٹ کی سازشی شہادت کے خلاف اور کوہلہ ہائیڈل پراجیکٹ کی منسوخی متاثرین زلزلہ 55ارب روپے کی حکومت پاکستان سے واپسی اسلام آباد Parlimentکی طرف آزادی مارچ بلدیہ اڈا سے گاڑیوں پر آخری اطلاع کے مطابق پارلمینٹ ہائوس اسلام آباد یاداشت پیش کرنے کے لیے روانہ ہوگیا ۔

اس موقع پر JKLFنے یہ مطالبہ بھی کیا سیٹٹ سجبیکٹ قانون بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ GBاور پاکستانی کشمیر کو بحال کیا جائے گلگت اور راولاکوٹ میں زمینوں کی الاٹ منٹ منسوخ کیا جائے انہوںنے متنبہ کے کشمیر میں اب کوئی اور پراکسی وار نہیں کھیلنے دیں گے مقبول بٹ ،کیپٹن حسین خان شہید ،سجاد افعانی ،کرنل حسن مرزا ،خان آف منگ کی سرزمین پر حافظ سعید ،مسعود اظہر ،سراج الحق ،فضل الرحمان خلیل کو کسی صورت محمد بن قاسم نہیں بننے دیں گے ان کی وجہ سے پہلے بھی تحریک پر دہشت گردی کا لیبل لگاا نہوں نے پاک و ہند سے مطالبہ کیا برصغیر کو ہولناک ایٹمی جنگ سے بچانے اور اربوں بے گناہ انسانوں کو لقمہ اجل بننے سے روکنے فوری پاک ہند اور چین اپنی افواج نکال کر ریاست جموں کشمیر کو آزاد ملک تسلیم کریں ۔

روانگی سے قبل جموں کشمیر لبریشن فرنٹ، کے چیئرمین محمد صغیر خان نے کہا ہمارا آزادی مارچ تاریخ کا دھارا پلٹے گا۔ 73سال قبل 04اکتوبر کو بننے والی باغی انقلابی حکومت جس کی آج دن 24اکتوبر کو تشکیل نو ہوئی تھی اور آج کی یہ ڈکلریشن جاری ہوا تھا کہ یہ باغی انقلابی حکومت ساری ریاست کی نمائندہ آزاد انقلابی حکومت ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ یکم نومبر 47کو گھنسارہ سنگھ کی فوجوں کو شکست دیکر بننے والی گلگت کی حکومت نے بھی اس آزاد حکومت کو خود میںضم کردیا تھا ۔

لیکن پہلے معاہدہ کراچی اور بعد میں ایکٹ 74جیسے رسوا ئے زمانہ معاہدے کرکے اس آزاد حکومت کی حیثیت کو ختم کرکے اس کو کٹ پتلی بنا دیا آزاد حکومت محض نام نہاد آزاد کشمیر کی حکومت بن گئی جہاں اصل حکمرانی وزارت امور کشمیر اور لینٹ آفیسران کی ہے ۔ آجکا لانگ مارچ اس نمائندہ حیثیت کی بحالی کے لیے ہے ۔ تب ہی مسئلہ کشمیر عوامی خواہشات کے ساتھ حل ہوگا اور ساتھ شمالی کشمیر ( GB) کے لوگوں کے حقوق بھی ملیں گے ۔

اس مارچ کو اگر روکا گیا تو 55کی تاریخ دوہرانے پر مجبور ہونگے ۔ اب کوئی نیا معاہدہ کراچی نہیں ہونیں دینگے ۔ نا کسی کو کرزئی کا کردار ادا کرنے دیں گے ۔ قبا ئلیوںکی یلغار سے جموں کشمیر تقسیم ہوا جس کی سزا لوگ آج بھی بھگت رہے ہیں ۔ کرونا کی آڑ میں لاک ڈائون جبری طور پر راستوں کی بندش شاہرات پر رکاوٹوں کرفیو سمیت کوئی بھی سطحی حربہ حصول آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔

پُر امن لانگ مارچ کا مقصد صرف اپنے مقاصد کے لیے پاکستانی پارلیمنٹ کو یاداشت پیش کرنا تھا ہمیں روکا گیاقانون ہم اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں ہمیں اس کا بھی ادراک ہے کہ آبپارہ اور راولپنڈی کی ہدایت پر لینٹ آفیسروں کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کی گی اور بے گناہ اور معصوم آزادی پسندوں کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ہے لیکن ہم اپنی ہی پولیس کے کندھوں پر رکھ کر کی گی بندوق کے ذریعہ کیے گے فائر کے قائل نہیںنہ ہم ایک اور نعیم بٹ کی قربانی چاہتے ہیں اب ہم پر امن دھرنے کے ذریعے وکیل کے روپ میں بیٹھے غاصب کو پوری دنیا میں بے نقاب کریں گے ۔

طلبہ تنظیموں ، تاجر تنظیموں ، وکلاء ، ٹرانسپورٹر اور تما م انسان دوست تقسیم کشمیر مخالف قوتوں نے حمایت کا اعلان کیا تھا ۔ راولاکوٹ کے کچہری چوک میں اسٹال لگا کر ترانوں کے ذریعے ماحول گرمایا جاتا رہا ۔ خواتین کی طرف سے جمع پونجی سے بھر پورعطیات دیے جانے سے ماحول انتہائی جذباتی رہا ۔ شہر بھر کو مقبول بٹ کے بڑے بڑے پوٹریٹ سے آویزاں کردیا گیاتھا ۔ جے کے ایل ایف نے اسلام آباد کی طرف سے جموں کشمیر کے نئے جاری نقشے کو مسترد کرتے ہوئے اس کو چین کی ایماء پر تقسیم کشمیر کی سازش قرار دیا۔ اور ساتھ ہی 24اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ اور کہا کہ اس نقشے میں لداخ اور اکسائی چن سے دستبرداری اختیار کر کے اسلام آباد تقسیم کشمیر مان چکا ہے۔