اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلام آباد میں ہندو مندر اور شمشان گھاٹ کی تعمیر کو جائز قرار دیتے ہوئے، حکومتی فنڈز استعمال کرنے کی مخالفت

گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانس کیخلاف قرارداد منظور

بدھ 28 اکتوبر 2020 19:49

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 اکتوبر2020ء) اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلام آباد میں ہندو مندر اور شمشان گھاٹ کی تعمیر کو جائز قرار دیتے ہوئے اس کیلئے حکومتی فنڈز استعمال کرنے کی مخالفت کردی ہے ،نظریاتی کونسل نے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانس کیخلاف قرارداد منظور کر لی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے تین روزہ اجلاس میں توہین آمیز خاکوں کے معاملے پر فرانس کے خلاف قرارداد منظور کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر کے بیان کو سراہا گیا۔

بریفنگ میں چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی تائید کی ہے۔ مقدس شخصیات، اہل بیت، صحابہ کرام کے حوالے سے لائحہ عمل بھی مرتب کیا ہے۔

(جاری ہے)

قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ غیر مسلمان کی شادی بیاہ کے لیے کمیونٹی سینٹر تعمیر کرنے کی اجازت ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ سرکاری فنڈز کی حمایت نہیں کی جا سکتی اس لیے متبادل تجاویز پیش کی ہیں۔

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ غیر مسلم پاکستان کے شہری ہیں، ان کے حوالے سے ایک الگ بجٹ مختص کیا جائے، وہ اسے اپنے طور پر مصرف کریں۔انہوں نے کشمیر میں بھارت کے مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے پشاور واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایک مربوط پالیسی مرتب کی جائے تاکہ دہشت گردی کو ختم کیا جا سکے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام غیر مسلموں کو اپنے مذہبی عبادات ادا کرنے کا حق حاصل ہے تاہم حکومتی امداد سے ان کی تعمیر جائز نہیں ہے حکومت تمام اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے فنڈز مختص کرکے متعلقہ کمیونٹی کے حوالے کرے۔

وزارت مذہبی امور کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل کو اسلام آباد میںسرکاری فنڈ سے نئی غیر مسلم عبادت گاہ کی تعمیرکے حوالے سے کونسل سے رائے طلب کی تھی اس خط کے مطابق اسلام آباد کی ہندو کمیونٹی کو سیکٹر 2/9-H میں 4 کنال کی زمین االٹ کی گئی، جس پر وہ اپنے فوت شدگان کو نذر آتش کرنے کے لیے شمشان گھاٹ سمیت شادی بیاہ اور تہواروں کو منانے کے لیے کمیونٹی سینٹر اور پوجا پاٹ کے لیے ایک مرکز قائم کرنا چاہتے ہیں جس پر کونسل نے شرعی تقاضوں1950 کے نہرو، لیاقت معاہدے اور1973ئ کے آئین کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی سفارشات تیار کرکے وزارت مذہبی امور کو ارسال کردئیے ہیں سفارشات کے مطابق اسلام آباد میں ہندو کمیونٹی کی حالیہ آبادی کے تناسب کے پیش نظر سید پور میں واقع قدیم مندر اور اسی کے ساتھ ملحق دھرم شالہ کو ہندؤوں کیلئے کھول دیا جائے ،اوروہاں تک ہندو برادری کی رسائی کو ممکن بنایا جائے تاکہ وہاں ہندوکمیونٹی اپنے عقیدے کے مطابق مذہبی عبادات بجاالاسکیں اسی طرح آئینی طور پر ہر مذہبی گروہ کا حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق فوت شدگان کی اخری رسومات اداکرے اس حق کے پیش نظر ہندو کمیونٹی کواسلام آبادمیں شمشان گھاٹ کے لئے موزوں جگہ پرانتظام کرنے کی اجازت ہے،جہاں وہ اپنی مذہبی ہدایات کے مطابق فوت شدگان کی آخری رسومات ادا کرسکیں اسی طرح شادی بیاہ اور مذہبی تہواروں کے لئے ان کو کمیونٹی سینٹر تعمیر کرنے کی اجازت ہے یہ آئینی حق ہے اوراس میں شرعی طورپر کوئی قباحت نہیں ہے کونسل کے مطابق پاکستان میں چونکہ غیرسرکاری عبادت گاہوں کے لئے سرکاری فنڈفراہم کرنے کی بالعموم روایت نہیں رہی ہے،اس لئے اس مندر کے لئے بھی سرکاری فنڈ فراہم کی حمایت نہیں کی جاسکتی ہے تاہم اس مسئلے کے حل کے لیے حسب ذیل متبادل تجاویز پیش کی جاتی ہیں جس کیلئے پہلا ممکنہ حل یہ ہے کہ متروکہ وقف املاک بورڈ کے ایکٹ میں ترمیم کر کے اس میں بوقت ضرورت اضافے کی صورت میں ان کی مذہبی ضروریات پوراکرنے کاا اختیار بھی شامل کیا جائے چونکہ متروکہ وقف املاک بورڈ، نہرو- لیاقت معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان میں قائم کیے گئے ہیں اور ان کا کام یہ ہے کہ بھارت میں مساجد کی دیکھ بھال کریں اور زائرین کو سہولیات فراہم کریں، جبکہ پاکستان میں مندروں اور گوردواروں کی دیکھ بھال اور یاتریوں کو سہولیات فراہم کرنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، پاکستان میں ان کی آمدن کا ذ ریعہ ہندو اور سکھ کمیونٹی کی متروکہ املاک ہیں کونسل کے مطابق مسئلے کا دوسرا ممکنہ حل یہ ہے کہ غیر مسلم چونکہ ملک کے شہری ہیں، ان کی فلاح و بہبود ریاست کی ذمہ داری ہے، حکومت ان کی فلاح و بہبودکے لیے الگ سے رقوم مختص کر دے اور ان کی کمیونٹی کے حوالے کر دے اور متعلقہ کمیونٹی جہاں چاہے خرچ کرے اس سے کوئی شرعی اعتراض الزم نہیں آتا ہے ۔

۔۔۔۔۔اعجاز خان