گذ شتہ دو برسوں سے چھاتی کے کینسر بارے زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہیں، ثمینہ عارف علوی

ہر سال ہزاروں خواتین اس بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں،خاتون اول بیگمکا بریسٹ کینسر بیداری سے متعلق ڈیجیٹل میڈیا ایونٹ سے خطاب

بدھ 28 اکتوبر 2020 22:08

گذ شتہ دو برسوں سے چھاتی کے کینسر بارے زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کرنے ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 اکتوبر2020ء) خاتون اول بیگم ثمینہ عارف علوی نے کہا ہے کہ گذ شتہ دو برسوں سے چھاتی کے کینسر بارے زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہیں، ہر سال ہزاروں خواتین اس بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز بیما (BIMA)کے زیر اہتمام بریسٹ کینسر بیداری سے متعلق ڈیجیٹل میڈیا ایونٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

خاتون اول نے کہا کہ چھاتی کے کینسر سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کرنے کے لئے ڈاکٹر ، مخیر حضرات ، سول سوسائٹی ، فوجی ادارے ، اسپتال ،سکول ، یونیورسٹیاں اور این جی اوز نے بھرپور تعاون کیا۔ انہوں نے میڈیا کے کردار کو بھی سراہتے ہو ئے کہا کہ اخبارات اور سوشل میڈیا کی بھی اس سلسلے میں نمایاں خدمات ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ خبروں اور مضامین کو قومی اور عالمی ذرائع ابلاغ نے بخوبی شائع کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی مہم نے زور پکڑ لیا ہے۔

بیگم ثمینہ عارف علوی نے میڈیا پر زور دیا کہ وہ سال بھر اس بیماری سے متعلق عوام میں شعور بیدار کرتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کی رسائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے ،اس کی مدد سے آگاہی کے پیغام کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چھاتی کا کینسر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہے،عالمی سطح پر ہر سال چھاتی کے کینسر کی 13 لاکھ مریضوں کی تشخیص ہوتی ہے، پاکستان میں اس بیماری کی تشخیص کرنے والے مریضوں کی صحیح تعداد دستیاب نہیں ہے ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی سال 2018 کی رپورٹ کے مطابق ہر سال لگ بھگ 34000 خواتین میں اس بیماری کی تشخیص ہوتی ہے اور اس بیماری سے 17000 سے ز ائد خواتین کی موت واقع ہوتی ہے جبکہ دوسرے تخمینے کے مطابق ہر سال90000 خواتین میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جبکہ 40000 اس مہلک بیماری سے ہلاک ہو جاتی ہیں۔

انہوںنے کہا کہ عالمی سطح پر چھاتی کے کینسر کی اموات کی شرح 3 سے 4 فیصد کے لگ بھگ ہے جبکہ پاکستان میں یہ تقریبا 45 فیصد ہے جو واقعی ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ خاتون اول نے بتایا کہ چھاتی کے کینسر سے اموات کی بلند شرح کے پیچھے بیداری کا فقدان ایک اہم عامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں اس بیماری کے بارے میں بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ ماہرین کے مطابق اگر بیماری کی تشخیص پہلے مرحلے میں کی جائے تو 95 فیصد زندہ رہنے کے امکانات موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ بیماری کی ابتدائی علامات کے بارے میں خواتین کو تعلیم دینے سے اموات کی شرح کو کم کیا جاسکتا ہے،پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے مریضوں کے لئے صحت کی سہولیات میں کمی موت کی شرح میں اضافے کی ایک اہم وجہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ دور دراز علاقوں کی خواتین اہم شہروں میں دستیاب سہولیات تک جانے سے قاصر ہیں