بلوچستان اسمبلی اجلاس، وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کے جزائر سے متعلق جو آرڈیننس جاری کیاگیاہے وہ غیر آئینی ہے ،نصر اللہ زیرے

؁18ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کی کوششوں پر ناکامی پر اب چھوٹے صوبوں کے وسائل پر قبضے کی کوششیں کی جارہی ہے ،اصغر خان اچکزئی ۵صدارتی آرڈیننس سے صوبوں میں بے چینی اور احساس محرومی پائی جاتی ہے ،ملک نصیر شاہوانی کا اسمبلی میں خطاب

جمعہ 30 اکتوبر 2020 17:00

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 اکتوبر2020ء) بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیر صدارت تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا تو اجلاس میں سندھ اور بلوچستان کے جزائر سے متعلق گزشتہ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ کی لائی گئی قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرے نے کہاکہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کے جزائر سے متعلق جو آرڈیننس جاری کیاگیاہے وہ غیر آئینی ہے جزائر صوبوں کی ملکیت ہے وفاقی حکومت کے فیصلے سے جزائر پرموجود آبی حیات کا خاتمہ ہوگا اور ماحولیات پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوںگے ،سندھ حکومت نے صدارتی آرڈیننس سے مذمتی قرارداد منظور کرائی ہے انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی کابینہ کے ممبران کو چاہیے تھاکہ جس دن صدارتی آرڈیننس جاری ہوا اسی دن اس کے خلاف بیان دیتے مگر وہ خاموش رہے عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈراصغر خان اچکزئی نے کہاکہ 18ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کی کوششوں پر ناکامی پر اب چھوٹے صوبوں کے وسائل پر قبضے کی کوششیں کی جارہی ہے ،انہوں نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں عدالتی فیصلہ آنے کے بعد صدر کو اخلاقی طورپر مستعفیٰ ہوناچاہیے انہوں نے تجویز دی کہ قرارداد کو مشترکہ طورپر منظورکیاجائے بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے بھی صدارتی آرڈیننس کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اس سے صوبوں میں بے چینی اور احساس محرومی پائی جاتی ہے پاکستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سید احسان شاہ نے کہاکہ وفاقی حکومت اگر سرمایہ کاری لاناچاہتی ہے تو ایسا کوئی قانون نہیں جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنے انہوں نے کہاکہ جزائر اور اقوام کی زمینوں پر قبضے کو قبول نہیں کیاجائے گا ،آرڈیننس سے قوموں کی دل آزاری ہوئی ہے اسلام آباد میں بیٹھ کر کچھ لوگ اگر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ ان کی خواہش ہوسکتی ہے ۔

(جاری ہے)

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی احمد نواز بلوچ نے بھی قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے اسے مشترکہ طور پر منظور کرنے کی تجویز دی ۔صوبائی وزیر خزانہ میر ظہوربلیدی نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ اس حد تک تو بات درست ہے کہ اس طرح کے اہم فیصلے بند کمروں میں نہیں ہونے چاہئیں لیکن اصولاًً دیکھاجائے توبلوچستان سے کچھ بھی نہیں گیا پھر بلوچستان حکومت اس پر کیوں چلائے انہوں نے کہاکہ 1991ء میں برازیل میں کنونشن آف بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کے نام سے ایک کنونشن منعقد ہوا تھا جس پر پاکستان نے بھی دستخط کئے ہیں ،یہ کنونشن وائلڈ لائف اور میرین لائف سے متعلق ہے ۔

17جون 2016ء کو گورنر بلوچستان نے ایک نوٹیفکیشن کیا جو فشریز ایکٹ میں ترامیم سے متعلق ہے 23رول آف بزنس نئے ڈالے گئے 23واں نقطہ آئی لینڈ سے متعلق ہے بلوچستان کے آئی لینڈبلوچستان کے پاس ہی رہیںگے اگر اراکین چاہے تو وہ محکمہ فشریز سے 2016ء کا مذکورہ نوٹیفکیشن نکال کرخود بھی پڑھ سکتے ہیں۔بعدازاں ڈپٹی اسپیکر نے اراکین کی مشاورت سے قرارداد کو منظور کرنے کی رولنگ دی ۔

اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کی شاہینہ کاکڑ نے مشترکہ مذمتی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ روز خیبرپشتونخوا کے دارالحکومت پشاور کے ایک مدرسے جامعہ زبیریہ میں بم دھماکے ہوا دہشتگردی کے اس افسوسناک اور انتہائی قابل مذمت واقعہ میں کئی علمائے اکرام ،طلباء شہید ہوئے جبکہ سو سے زائد علماء اکرام اور طلباء زخمی ہوئے ہیں دہشتگردی کے اس واقعہ نے ہر انسان کو غمزدہ کیاہے چونکہ ہماری جماعت خود بھی دہشتگردوں اور انتہاپسندوں کے نشانہ پررہی ہے اور ہمارے مرکزی قائدین اور رہنمائوں سمیت ہزاروں کارکنان ان واقعات میں شہید ہوچکے ہیں اس واقعہ سے اس خدشے کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی اور پرتشدد واقعات کی ایک نئی لہر جنم لے رہی ہے جو ہم سب کی بروقت توجہ چاہتی ہے لہٰذا یہ ایوان پشاور مدرسے میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتاہے اور مطالبہ کرتاہے کہ حکومت اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات اٹھائے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہوابھی قرارداد کے محرک اصغرخان اچکزئی قرارداد کی موزونیت پر بات کررہے تھے کہ ایوان میں کورم کی نشاندہی ہوئی جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کورم کی گھنٹیاں بجائیں اور بعدازاں کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس غیرمعینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردیاگیا۔