امریکا کے صدارتی انتخابات پرامیدواروں کے14ارب ڈالر خرچ

انتخابات کے لیے اربوں ڈالر کے عطیات کہاں سے آتے ہیں؟ بڑی کارپوریشنزاور کمپنیاں دونوں پارٹیوں کو ”عطیات“دیتی ہیں. خصوصی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 4 نومبر 2020 00:55

امریکا کے صدارتی انتخابات پرامیدواروں کے14ارب ڈالر خرچ
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 نومبر ۔2020ء) امریکا کے صدارتی انتخابات 2020 میں امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم پر ایک اندازے کے مطابق 14ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں جو کہ نہ صرف امریکا کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے بلکہ یہ رقم2016کے صدارتی انتخاب کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہے. امریکی نشریاتی ادارے سی این بی سی کے مطابق توقع کی جارہی تھی کہ 2020کے صدارتی انتخابات پر زیادہ خرچ ہوگا اور اس کا تخمینہ تقریبا10ارب ڈالر لگایا گیا تھا مگر مجموعی طور پر یہ اخرجات توقعات سے کہیں زیادہ ریکارڈ کیئے گئے‘رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ری پبلکن امیدوار کے مقابلے میں ڈیموکریٹس نے زیادہ پیسے خرچ کیئے ہیں .

(جاری ہے)

صدارتی انتخابات کے لیے اتنے بھاری اخراجات کون اٹھاتا ہے؟ 2016کے صدارتی انتخابات میں 7ارب ڈالر سے کم خرچ کیئے گئے تھے‘اخراجات میں بڑا حصہ ذرائع ابلاغ ‘ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمزپر اشتہاروں پر خرچ ہوتا ہے جبکہ دوسری بڑی مد امیدواروں کی انتخابی مہم کی ٹیم کی تنخواہوں پر اٹھنے والے اخرجات ہیں 2016کے انتخابات میں ہیلری کلنٹن نے تنخواہوں کی مد میں 85ملین ڈالر خرچ کیئے تھے انتخابی مہم کے لیے ملک گیردوروں پر دونوں امیدواروں نے انفرادی طور پر 45ملین ڈالر خرچ کیئے تھے.

اتنے بھاری اخراجات کے لیے پارٹیوں کو رقوم کون فراہم کرتا ہے؟2016میں مجموعی اخراجات کا تیسرا حصہ ان افراد کے عطیات پر مشتمل تھا جنہوں نے اپنی اپنی پسندیدہ جماعت کو 200ڈالر یا اس سے کم عطیہ کیئے یہ عام امریکی شہریوں کے عطیات تھے جبکہ200 افراد کے قریب ایک انفرادی گروپ نے ایک ارب ڈالر دیئے عطیات جمع کرنے کے لیے وضح کردہ اصولوں کے مطابق صرف امریکی شہری ہی عطیہ دے سکتا ہے اور ایک شخص 2ہزار8سو ڈالر سے زیادہ رقم عطیہ نہیں کرسکتا اس لیے پارٹیاں عطیات جمع کرنے کے لیے ”غیرجماعتی گروپس“بناتی ہیں جنہیں ”سوپرپیکس“کہا جاتا ہے یہ گروپس لامحدودعطیات جمع کرسکتے ہیں .

امریکی دانشور عطیات کے اس نظام کو بھی انتخابی عمل کی طرح پچیدہ اور غیرواضح قراردیتے ہیں بلکہ بعض کے نزدیک تو یہ انتہائی غیرشفاف ہے اس سلسلہ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدارتی امیدواروں کی اصل ”ڈونرز“کھربوں ڈالرزکے کاروبار کرنے والی کارپوریشنزاور کمپنیاں ہوتی ہیں جو خاموشی سے دونوں پارٹیوں کو برابر رقوم فراہم کرتی ہیں جبکہ بدلے میں وائٹ ہاﺅس ‘سینیٹ اورایوان نمائندگان سے لے کر ریاستوں تک برسراقتدار آنے والی پارٹی ‘اراکین پارلمیان‘ریاستی اسمبلیاں‘گورنروں سمیت پوری حکومتی مشنری اور اپوزیشن جماعت ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں.

ان عطیہ دہندگان میں امریکن گن ایسوسی ایشن سے لے کر ادویات اورکھانے پینے کی اشیاءبنانے والی کمپنیوں سمیت ہاﺅسنگ اور زمینوں کے کاروبار سے وابستہ بڑے گروپ‘کنٹریکٹرکمپنیاں‘اسلحہ ساز اور اسلحہ فروخت کرنے والوں سمیت مختلف صنعتوں اور کاروباری ادارے شامل ہیں. امریکی آئین کے تحت کارپوریشنز‘کاروباری ادارے اور شخصیات اپنے پسندیدہ امیدوار کے اشتہار ذرائع ابلاغ پر چلوا سکتے ہیں جو کہ صدارتی انتخابات کے اخراجات میں کئی سالوں سے سرفہرست چلا آرہا ہے مائیکل مور جیسے امریکی دانشور ہمیشہ اس عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں انہوں نے اپنی کئی مضامین میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ دونوں سیاسی جماعتیں بڑی کارپوریشنزاور کمپنیوں سے عطیات کے نام پر سیاسی رشوت لے کر ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں کیونکہ امریکا کی پارلیمانی تاریخ میں یہ روایت بن گئی ہے کہ صدارتی الیکشن جیتنے والی جماعت کو اگر سینیٹ میں اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ایوان نمائندگان میں دوسری جماعت کی اکثریت نظر آتی ہے اسی طرح ریاستی حکومتیں بھی عمومی طور پر دونوں بڑی پارٹیوں میں تقسیم رہتی ہیں .