رچرڈ نکسن امریکا کے مستعفی ہونے والے واحد صدر

واٹر گیٹ اسکینڈل نکسن کے استعفے کی وجہ بنا ‘ اینڈریو جانسن ‘ بل کلنٹن اور ٹرمپ مواخذاے کی کاروائی کے باوجود بچ نکلنے میں کامیاب رہے .امریکا کی پارلیمانی تاریخ پر ”اردو پوائنٹ“کی سلسلہ وار خصوی سیریز

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 9 نومبر 2020 14:29

رچرڈ نکسن امریکا کے مستعفی ہونے والے واحد صدر
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 نومبر ۔2020ء) رچرڈ نکسن پہلے امریکی ہیں جنہوں نے عہدے سے استعفیٰ دیا ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھاصدر اینڈریو جانسن‘ بل کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ مواخذاے کے کاروائی کے باجود بچ نکلنے میں کامیاب رہے . رچرڈ نکسن نے 8 اگست 1974 واٹرگیٹ اسکینڈل کی بنا پر مواخذاے کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہوگئے تھے.

(جاری ہے)

یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ری پبلیکن صدارتی مہم کے کارندے جون 1972 میں واشنگٹن میں واقع ڈیموکریٹک پارٹی ہیڈکوارٹز کے دفتر کے اندر گھس گئے یہ ایسا اسکینڈل تھا جس کے امریکا کی قومی سیاست میں وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوئے جب کہ اس کے نتیجے میں وضع کی گئی اصلاحات کا آج تک ذکر کیا جاتا ہے تاہم 7 اگست کی رات تک اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ صدر نکسن مستعفی ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں اسے امریکی سیاسی تاریخ کی ایک گھناﺅنی سازش بھی قراردیا جاتا ہے جس کا شکار رچرڈنکسن ہوئے.

لوگوں کے ایک ہجوم نے وائٹ ہاﺅس پر دھاوا بول دیا جس کی وجہ سے صدر نکسن کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں سے نکالا گیا اسی رات اوول آفس سے ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے آکر انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اگلے دن مستعفی ہو جائیں گے ان کا کہنا تھا کہ میں بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں میرے احساسات، میرے تن بدن میں اس بات کا دکھ ہے کہ بغیر میعاد پوری کیے، میں عہدہ چھوڑ رہا ہوں لیکن صدر کی حیثیت سے مجھ پر لازم ہے کہ میں امریکہ کے مفادات کو اولیت دوں.

اگلی صبح وائٹ ہاﺅس عملے کے سامنے جذبات سے پر اپنے کلمات میں نکسن نے اس بات کا ذکر کیا جو ان کی سیاسی شکست کا پیش خیمہ بنا جبکہ اس بات کی ابھی تک وضاحت ہونا باقی ہے آیا وہ جو کچھ کہہ رہے تھے کیا واقعی انہیں علم تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ان کے الفاظ تھے ہمیشہ یاد رکھو دوسرے لوگ آپ سے نفرت کر سکتے ہیں لیکن جو آپ سے نفرت کرے گا آپ اس سے تب تک نہیں جیت سکتے جب تک آپ خود بھی ان سے نفرت نہ کرنے لگو اور یوں آپ اپنے آپ کو برباد کردیتے ہو.

صدر نکسن کے مستعفی ہونے کے بعد نائب صد جیرالڈ فورڈ صدر کا عہدہ سنبھال لیا انہوں نے اپنے خطاب میں قوم کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ان کا کہنا تھا کہ ہماری طویل آزمائش کا انتظار ختم ہوا ہمارا آئین کام کر رہا ہے ہمارے عظیم جمہوریہ کی اساس قوانین پر مشتمل حکمرانی ہے، فرد نہیں یہاں عوام کی حکمرانی ہے. نکسن کے کئی مشیر واٹرگیٹ اسکینڈل کے دوران اپنے کیے اور اختیارات کے تجاوز کی بنا پر قید ہوئے وائٹ ہاﺅس کی ٹیپ ریکارڈنگز سے اسکینڈل کی پردہ پوشی اس وقت عیاں ہوئی جب واٹرگیٹ کی چھان بین میں روڑے اٹکانے کے لیے مشیروں سے سی آئی اے کو ایف بی آئی کے سامنے غلط بیانی سے کام لینے کے احکامات دیے گئے بعدازاںصدر فورڈ نے نکسن کو اسکینڈل میں ملوث ہونے کے جرم سے معافی دے دی جس اقدام کے باعث وہ 1976 کا صدارتی انتخاب ہار گئے اور ڈیموکریٹ جمی کارٹر امریکا کے نئے صدر بنے.

واٹرگیٹ اسکینڈل امریکی سیاسی تاریخ کے ایک اہم موڑ کا درجہ رکھتا ہے واٹرگیٹ اسکینڈل پر دو سال تک سماعتیں ہوئیں ”واٹرگیٹ اسکینڈل“ کے باعث صدارتی انتخاباتی مہم کے لیے کانگریس کو چندہ جمع کرنے کے نظام میں اصلاحات کی قانون سازی کرنا پڑی حالانکہ2014میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلوں کے نتیجے میں چند اصلاحات کو خلاف قانون قرار دیا گیا ہے 1974میں صدر فورڈ کی طرف سے رچرڈ نکسن کو معافی دیے جانے کے فیصلے کو 59 فی صد امریکیوں نے ناپسند کیا تھا لیکن 2002 میں کرائے گئے رائے عامہ کے ایک جائزے سے پتا چلا کہ اب کے 59 فی صد لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ فورڈ نے درست اقدام کیا اور یہ کہ معافی نامے کی بنا پر ہی ملک متحد ہوا جو اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی اسکینڈل کے نتیجے میں تقسیم کا شکار تھا.

سال 2011میں امریکہ میں ایک وفاقی جج کے احکامات پر سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کا واٹر گیٹ سکینڈل کے حوالے سے خفیہ گرینڈ جیوری کے سامنے دیا بیان منظرعام پر لانے کا حکم دیا گیا جج رائس لیمبرتھ نے اس دستاویز کو افشا کرنے کا حکم تاریخ دان سٹینلے کٹلر کی درخواست پر دیا جن کا کہنا ہے کہ اس دستاویز کی تاریخی اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے عام کیا جائے تاہم اس سربمہر دستاویز کی مہر آج تک نہیں توڑی جاسکی امریکی جج کا کہنا تھا کہ297 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں تاریخی دلچسپی اسے راز رکھنے کی خواہش سے کہیں بڑی ہے.

جج لیمبرتھ کا کہنا تھا کہ صدر نکسن کے بیان کے سامنے آنے سے موجودہ تاریخی ریکارڈ کو تقویت ملے گی اور عوام اس تاریخی واقعے کو زیادہ آسانی سے سمجھ پائیں گے امریکی آئین میں صدر اور دیگر اعلی حکومتی عہدیداروں کے مواخداے کی شق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکا کے بانیوں کو خوف تھا کہ صدور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کریں گے لہذا انہوں نے کسی کو عہدے سے ہٹانے کے عمل کو آئین میں شامل کیا.

آئین کے تحت صدر کو 'غداری، رشوت ستانی، یا دیگر اعلی جرائم اور بدانتظامی کے الزام میں عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے اعلی جرائم اور بدانتظامیوں دراصل بدعنوانی اور عوامی اعتماد کی پامالی سے منسلک کیا گیا کانگریس میں سابق صدر جیرالڈ فورڈ نے کہا تھاایوان نمائندگان کی اکثریت کے نزدیک مواخذہ ایک ناقابل تلافی جرم ہے امریکا کی تاریخ میں آج تک کسی بھی صدر کو مواخذے کی وجہ سے براہ راست عہدے سے نہیں ہٹایا گیا رچرڈ نکسن نے اپنے خلاف مواخذاے سے پہلے ہی استعفی دے دیاتھاصدر اینڈریو جانسن اور بل کلنٹن کو ایوان کے ذریعے بے دخل کیا گیا لیکن سینیٹ نے انہیں سزا نہیں سنائی کیونکہ سینیٹ میں ان کی جماعتوں کی اکثریت تھی یہی معاملہ صدر ٹرمپ کے ساتھ پیش آیا جن کے خلاف ڈیموکریٹس اکثریت پر مشتمل ایوان نمائندگان نے مواخذاے کی کاروائی مکمل کرکے سینیٹ کو بجھوائی تھی مگر سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت کی وجہ سے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا تھا.

مواخذاے کا آغاز ایوان زیریں سے شروع ہوتا ہے جہاں بحث اور رائے دہی ہوتی ہے کہ آیا صدر کے خلاف مواخذاے کی منظوری یا مواخذے کے متن کی منظوری دی جائے؟سادہ اکثریت کی رائے دہی پر مواخذاے کی منظوری ہوتی ہے قانونی ماہرین کے مطابق کہ آئین ایوان نمائدگان کو یہ فیصلہ کرنے میں بڑے پیمانے پر اختیار دیتا ہے کہ مواخذاے کی کارروائی کس طرح شروع کی جائے ہاﺅس انٹیلی جنس کمیٹی نے یوکرائن پر دباﺅ ڈالنے سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزامات کی تحقیقات کی کہ آیا ٹرمپ نے اپنے سیاسی حریف کے خلاف اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا؟.

ان کیمرہ گواہوں کے بیانات اور باضابطہ شواہد کی رپورٹ جاری کرنے سے قبل ٹیلی ویژن سماعتیں کی گئیں جس کے بعد عدلیہ کے پینل نے اس رپورٹ کو باضابطہ فرد جرم عائد کرنے کے لیے استعمال کیا مگر”فل ہاﺅس مواخذے“ کی نوبت آنے سے پہلے ہی سینیٹ اور سپریم کورٹ میں میں اکثریت کی بنا پر معاملہ لٹکا دیا گیاالزام یا صدر کو ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی ایک جماعت کے پاس بیک وقت دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے امریکا کے دوپارٹیوں کے نظام کی وجہ سے اگر ایک ایوان میں ڈیموکریٹس کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو دوسرے ایوان میں ری پبلکن کو لہذا جماعتی وابستگیوں کی بنا پر بہت سارے اہم امور پر دونوں ایوان متفق نہیں ہوپاتے .