ہم نے پنجابیوں کے شناختی کارڈ چیک کر کے ان کے سر قلم نہیں کیے

بلوچوں کو اکسا کر پنجابیوں کے قتل کرانے والے نواز شریف کے آس پاس بیٹھے ہیں

Sajjad Qadir سجاد قادر بدھ 11 نومبر 2020 07:02

ہم نے پنجابیوں کے شناختی کارڈ چیک کر کے ان کے سر قلم نہیں کیے
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین - 11 نومبر 2020ء) صوبائیت اور قومیت کی آوازیں آج نے ہمیشہ سے بلند ہوتی چلی آ رہی ہیں۔جب سے وطن عزیز وجود میں آیا ہے اس کے دشمن بھی اسی دن سے پیدا ہو گئے ہیں۔خاص طور پر ہمسایہ ملک انڈیا پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور بلوچ تنظیموں کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل کرنے کا بھارتی ایجنڈا سب کے سامنے پہلے ہی عیاں تھا تاہم کلبھوشن یادو کی گرفتاری نے تو سبھی شکوک و شبہات کو یقین میں بدل دیا۔

سیاسی پارٹیاں بھی اس قسم کی تنظیموں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔کافی عرصہ پہلے بلوچستان میں حالات اس قدر دگرگوں تھے کہ وہاں سرائیکیوں اور پنجابیوں کو پکڑ پکڑ کر قتل کر دیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

،اس طرح کے کئی ناخوشگوار واقعات وقوع پذیر ہوئے جنہیں یاد کرکے آج بھی افسوس ہوتا ہے۔تاہم اس وقت بلوچستان کی سیاست میں بھونچال آیا ہے ہے۔

جب سے جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ثناءاللہ زہری نے ن لیگ کو چھوڑا ہے بظاہر بلوچستان کی سیاست نیا رخ اختیار کرتی نظر آ رہی ہے۔گزشتہ روز ثناءاللہ زہری نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہ بلوچ راہنما نہیں ہیں جنہوں نے پنجابیوں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد سر قلم کیے ۔وہ بھی بلوچ راہنما نہیں ہیں جنہوں نے مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں خاص طور پر پنجابیوں کے بلوچستان بارڈر پر قتل کیے۔

ہم محب وطن بلوچ ہیں اور ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے۔جن لوگوں نے معصوم اور بے گناہ پنجابیوں یا سرائیکیوں کا قتل کیااور بلوچستان میں بلوچوں کو ایسا کرنے پر اکسایا وہ اختر مینگل ہے اور وہ نواز شریف کے آس پاس بیٹھا نظر آتا ہے۔اس لیے نواز شریف کو اپنی سیاست پر توجہ دینی چاہیے اور محبت وطن اور دوسرے لوگوں میں فرق محسوس کرنا چاہیے۔