بھارت اور چین ایل اے سی پر کشیدگی کم کرنے پر متفق

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 12 نومبر 2020 14:20

بھارت اور چین ایل اے سی پر کشیدگی کم کرنے پر متفق

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 نومبر 2020ء) چین اور بھارت نے مشرقی لداخ میں گزشتہ چند ماہ سے جاری کشیدگی کو ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اس سلسلے میں جن بعض نئی تجاویز کا تبادلہ ہوا ہے اس پر فریقین غور کر رہے ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان تجاویز میں دونوں جانب کے فوجیوں کو پیچھے ہٹانے کے ساتھ ساتھ وہاں تعینات ٹینک، توپ خانے اور دیگر فوجی ساز و سامان کو بھی ڈیپتھ ایریا میں بھیجنے کی بات کہی گئی ہے۔

اس حوالے سے بھارتی ذرائع ا بلاغ میں فوجی حکام کے حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں ان کے مطابق گزشتہ چھ نومبر کو بھارت اور چینی فوجی حکام کے درمیان بات چیت کے دوران یہ تجاویز چین کی جانب سے پیش کی گئی تھیں جس پر بھارت ابھی غور کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

اطلاعات کے مطابق فریقین نے اس سلسلے میں ابھی کوئی وعدہ نہیں کیا اور تجاویز پر غور و خوض کے بعد اس پر پھر سے بات چیت ہوگی۔

اطلاعات کے مطابق چین نے پیونگانگ جھیل میں اپنے فوجیوں کو فنگر چار سے ہٹا کر پرانی پوزیشن فنگر آٹھ پر اس شرط پر واپس بلانے کی بات کہی ہے کہ فنگر چار سے آٹھ کے درمیان کسی جانب سے کوئی پیٹرولنگ نہیں ہوگی تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ اس کے جواب میں بھارتی فوج کو پیونگاگ جھیل کی ان جنوبی پہاڑیوں سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانا ہوگا جس پر چین کو سخت اعتراض ہے۔

اس برس اپریل تک بھارتی فوج پیونگاگ جھیل میں فنگر آٹھ تک گشت کیا کرتی تھی تاہم چینی فوجیوں کے فنگر چار تک آنے کے بعد سے ان کی پیٹرولنگ کا دائرہ محدود ہوگیا۔ چند ماہ بعد بھارت نے اس کے رد عمل میں جھیل کے جنوبی حصے کی ان پہاڑیوں پر اپنی فوج بھیج دی تھی جہاں سے چینی فوج کی تقریبا تمام اہم تنصیبات پر آسانی سے نظر رکھی جا سکتی ہے۔

تجاویز کیا ہیں؟

بھارت کے معروف انگریزی روزنامہ دی انڈین ایکسپریس نے ایک سینیئر فوجی افسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ''تجویز چین کی طرف سے آئی ہے کہ وہ پیونگانگ جھیل کے شمالی کنارے پر فنگر آٹھ تک پیچھے ہٹنے کو تیار ہے۔ لیکن اس میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ بھارتی فوج فنگر تین کے پاس واقع دھان سنگھ تھاپا کی پوسٹ تک ہی محدود رہیگی۔

''

اس میں فنگر چار سے فنگر آٹھ تک عارضی طور پر نو پیٹرولنگ کا بفر زون بنانے کی بات کہی گئی ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ ٹکراؤ سے بچا جا سکے۔ اس کے مطابق جھیل کے جنوبی کنارے پر بھی دونوں جانب کے فوجیوں کو اپنی پرانی پوزیشن پر واپس جانا ہوگا۔

بھارتی فوج کے ایک سینیئرافسر کے مطابق ابھی تک، ''یہ تمام باتیں گرے زون میں ہیں۔

کسی جانب سے بھی کوئی وعدہ نہیں ہوا اور اس کے طریقہ کار، اوقات اور فاصلے جیسے تمام پہلوؤں پر غور و خوض ہو رہا ہے۔اسے کیسے اور کب کیا جائیگا اس پر ابھی کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔''

فریقین میں اس حوالے سے ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں دونوں جانب سے تمام پہلوؤں کی تصدیق ہونے کے بعد ہی کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کا امکان ہے۔

بھارت کا موقف ہے کہ اس برس جون کے وسط میں وادی گلوان میں جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد بہت احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

ایل اے سی پر تنازعہ اور کشیدگی

واضح رہے کہ 15 جون کی درمیانی شب وادی گلوان میں دونوں فوجوں کے درمیان زبردست تصادم ہوا تھا جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ بھارت کا دعوی ہے کہ اس کے فوجیوں نے بھی گلوان میں زبردست بہادری کا سامنا کیا اور چینی فوجیوں کو بھی بھاری نقصان سے دو چار کیا۔

تاہم چین نے اب تک ایسے کسی نقصان کے بارے میں ذکر نہیں کیا ہے۔

بھارت کا موقف ہے کہ ایل اے سی پر رواں برس اپریل تک جو پوزیشن تھی اگر اس کو بحال کیا جائے تو کشیدگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کا مطالبہ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجوں کو بلا شرط پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔ لیکن اس حوالے سے فریقین میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

حالات ایسے ہیں کہ گزشتہ تقریبا چھ ماہ سے دونوں ملکوں کی فوجیں سرحد پر آمنے سامنے کھڑی ہوکر اپنی اپنی پوزیشنوں کا دفاع کر رہی ہیں۔ اس صورت حال سے سرحدی علاقوں میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ اسے کم کرنے کے لیے بھارت چین کے ساتھ سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات میں مشغول ہے، تاہم کئی دور کی بات چیت کے بعد بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔

لداخ کے بلند ترین اور بنجر پہاڑوں کے درمیان واقع لائن آف ایکچؤل کنٹرول(ایل اے سی) کا علاقہ عموماً کافی سرد رہتا ہے۔ سردیوں میں یہاں درجہ حرارت منفی 40 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، جس سے وہاں فوجیوں کی تعیناتی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ کڑاکے کی سردی سے پہلے ہی وہاں سے فوجیوں کو ہٹا لیا جائے۔

سردی سے بچنے کے لیے ہی بھارت کو اپنے فوجیوں کے لیے امریکا سے خاص گرم کپڑے منگوانے پڑے ہیں۔

چند روز قبل ہی بھارتی فوج نے کہا تھا کہ سخت ترین سردی کے موسم کے لیے خاص طور پر تیار کیے گئے امریکی ساخت کے ایسے 60 ہزار یونیفارم کا حکم دیا گیا تھا، جس میں سے پہلی کھیپ اسے موصول ہوگئی ہے اور مشرقی لداخ میں ایل اے سی اور مغربی سرحد سیاچن پر تعینات فوجی انہیں استعمال کر رہے ہیں۔