شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم اانتقال کر گئے

DW ڈی ڈبلیو پیر 16 نومبر 2020 14:40

شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم اانتقال کر گئے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 نومبر 2020ء) ولید المعلم کو شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف بغاوت کے آغاز سے اب تک بین الاقوامی سطح پر ایک نمایاں حیثیت کا حامل سفارتکار مانا جاتا تھا۔ المعلم 1990ء سے 1999ء تک واشنگٹن میں شام کے سفیر کی حیثیت سے تعینات رہے۔ اس دوران شام اور اسرائیل کے مابین امن مذاکرات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے۔

المعلم بشار الاسد کے ایک قریبی معتمد رہے ہیں اور ان کے ساتھ اپنی وفاداری اور اپوزیشن کے خلاف سخت گیر موقف رکھنے کی وجہ سے مشہور تھے۔ وہ نرم گفتار، خوش مزاج اور مزاح کے ذریعے کشیدگی دور کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔

شام کے موجودہ بحران کے دوران وہ اکثر دمشق میں پریس کانفرنسوں کے دوران شامی حکومت کا موقف واضح کیا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بار بار اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اپوزیشن، جو ان کے بقول مغربی دنیا کی سازش کا حصہ ہے، شام کی اسرائیل مخالف پالیسی کے سبب اُس کے خلاف سازش کر رہی ہے اور اُس سازش کو کچل دیا جائے گا۔

پست قامت، سفید بالوں والے المعلم کی صحت گزشتہ سالوں کے دوران تیزی سے گر رہی تھی۔ شام کی سرکاری نیوز ایجنسی سانا نے ان کی موت کی خبر جاری کی مگر اس کی وجہ فوری طور سے نہیں بتائی گئی۔

ولید المعلم کی پیدائش 1941ء میں دمشق میں ہوئی۔ وہ ایک سُنی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم شام کے سرکاری اسکولوں سے حاصل کی اور بعد ازاں وہ مصر چلے گئے اور وہاں قاہرہ یونیورسٹی سے 1963ء میں اقتصادیات میں انہوں نے بی اے کیا۔

قاہرہ سے وہ واپس اپنے ملک شام واپس آ گئے اور وہاں 1964ء میں وزارت خارجہ میں کام کرنا شروع کر دیا اور ترقی کرتے کرتے 2005ء میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گئے۔

1960ء کی دہائی میں بطور سفارت کار ان کا پہلا مشن افریقی ملک تنزانیہ میں شامی سفارتخانے کا قیام تھا۔ 1966ء میں وہ سعودی عرب کے شہر جدہ چلے گئے۔ ایک سال بعد ان کا تبادلہ ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں ہو گیا۔

1972ء میں انہوں نے لندن میں شامی مشن کی سربراہی کی اور 1975ء میں رومانیہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے پانچ سال بطور سفیر زندگی گزاری۔ اُس کے بعد وہ دمشق لوٹ آئے جہاں وہ وزارت کی دستاویزات کے دفتر کے سربراہ بن گئے اور 1984ء تک یہ فرائض انجام دیتے رہے۔

2005ء میں وہ ایسے وقت میں وزیر خارجہ مقرر ہوئے جب دمشق حکومت عرب دنیا اور مغربی ممالک سے بالکل الگ اور تنہا ہو چُکی تھی۔

خاص طور سے سابق لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد بہت سے لبنانیوں، عرب اور مغربی حکومتوں نے شام کے عوام کو رفیق حریری کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ دمشق ان الزامات کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے۔ شام کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ قریب تین دہائیوں سے چھوٹے پڑوسی ممالک میں اپنے تسلط اور عسکری موجودگی کو ختم کرے۔ اسی سال اپریل میں شام نے اپنے فوجیوں کو پڑوسی ممالک سے نکال لیا تھا۔

ک م / ا ب ا (اے پی، روئٹرز)