بھارتی سیاست پاکستان دشمنی ‘مذہب، قبیلوں اور ذات پات کے گرد گھومتی ہے. باراک اوباما

بھارت بڑی حد تک ایک منتشر اور غریب ملک ہے جو بدعنوانی مقامی حکام اور طاقت کے دلالوں کی خواہشات کا اسیر اور مقامی بیوروکریسی کے باعث مفلوج ہے. سابق امریکی صدر کی کتاب کے اقتباسات

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 19 نومبر 2020 18:08

بھارتی سیاست پاکستان دشمنی ‘مذہب، قبیلوں اور ذات پات کے گرد گھومتی ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 نومبر ۔2020ء) سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بھارت میں قومی اتحاد کا ایک آسان راستہ پاکستان کے لیے دشمنی کا اظہار ہے اپنی کتاب ”اے پرامس لینڈ“میں انہوں نے سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کا پین سے بنایا گیا پورٹریٹ بھی شامل ہے جن سے سابق امریکی صدر پٹبرگ میں جی 20 کے 2009 میں ہونے والے اجلاس میں پہلی مرتبہ ملے تھے.

(جاری ہے)

جب باراک اوباما نے نومبر 2010 میں بھارت کے پہلے کے دوران دوبارہ من موہن سنگھ سے ملاقات کی تھی تو بھارتی وزیراعظم نے بتایا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ مسلمان مخالف جذبات نے اس وقت کی اپوزیشن جماعت ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اثر کو مضبوط کیا ہے امریکا کے سابق صدر نے لکھا کہ بہت سے بھارتی سے اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے ملک کے پاکستان کے مقابلے میں نیوکلیئر ہتھیاروں کا پروگرام بنا رکھا ہے اور وہ اس حقیقت سے ذرا بھی پریشان نہیں کہ دونوں میں سے کسی کی جانب سے بھی معمولی غلطی خطے کو تباہ کرنے کا خطرہ بن سکتی ہے.

انہوں نے لکھا کہ عوامی اور نجی سطح پر تشدد بھارتی زندگی کا بہت بڑا حصہ ہے اور پاکستان کے لیے دشمنی کا اظہار قومی اتحاد کا آسان ترین راستہ ہے بھارتی سیاست سب سے زیادہ پاکستان دشمنی ‘مذہب، قبیلوں اور ذات پات کے گرد گھومتی ہے. باراک اوباما کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت سے پہلو میں جدید دور کا بھارت حکومت میں متعدد تبدیلیوں، سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید اختلافات، متعدد علیحدگی پسند عسکری تحریکیں اور ہر طرح کے بدعنوانی کے اسکینڈلز کے باوجود کامیابی کی کہانی سناتا ہے انہوں نے کہا کہ حقیقی معاشی ترقی کے باوجود بھارت بڑی حد تک ایک منتشر اور غریب ملک ہے جو زیادہ تر مذہب اور ذاتوں میں تقسیم، بدعنوانی مقامی حکام اور طاقت کے دلالوں کی خواہشات کا اسیر اور مقامی بیوروکریسی کے باعث مفلوج ہے جو کہ تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کرتی ہے.

بھارت میں تشدد کے پھیلاﺅپر تبصرہ کرتے ہوئے باراک اوباما نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا تشدد، لالچ، بدعنوانی، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی عدم برداشت اتنا مضبوط ہوسکتا ہے کہ کوئی جمہوریہ اس پر مستقل طور پر قابو نہ پاسکے انہوں نے کہا کہ جب بھی ترقی کی شرح رک جاتی ہے یا آبادیاتی تبدیل ہوتی ہے یا پھر جب ایک کرشماتی راہنما لوگوں کے خوف اور ناراضی پر سوار ہونے کا انتخاب کرتا ہے تو تشدد پر یقین رکھنے والے ہر جگہ منظر عام پر آنے کے منتظر رہتے ہیں.

باراک اوباما نے لکھا کہ بھارت کیا میری سوچ میں ہمیشہ ایک خصوصی مقام تھا اس دلچسپی کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شاید یہ اس کی وجہ ہے کہ بھارت میں دنیا آبادی کا چھٹا حصہ ہے جس میں 2 ہزار مختلف نسلی گروہ آباد ہیں اور 700 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں انہوں نے لکھا کہ لیکن سب سے زیادہ میری بھارت کے لیے دلچسپی کی وجہ مہاتما گاندھی ہیں، ابراہم لنکن، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا کی طرح گاندھی نے بھی میری سوچ کو بہت متاثر کیا.

باراک اوباما نے تذکرہ کیا کہ ان کے بھارتی اور پاکستانی دوست، جنہوں نے مجھے دال قیمہ پکانا اور بالی ووڈ فلموں سے روشناس کرایا وہ بھی میری بھارت میں دلچسپی کی وجہ ہیں انہوں نے کہا کہ لیکن یہ سب ان بڑے مسائل کو نہیں چھپا سکتا جس کا دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کو سامنا ہے.