جی 20کا غیرواضح اعلامیہ‘ کیا عالمی سیاست بدل رہی ہے؟

صدر ٹرمپ کی وجہ سے یورپی کمیشن کی درخواستوں کے باوجود ایک ایسے فنڈ کا قیام یقینی نہیں بنایا گیا جو کورونا وائرس کی کسی ممکنہ ویکسین کی منصفانہ عالمی تقسیم میں مدد دے اور نہ ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مطالبوں کے باوجود ترقی پذیر ممالک کے قرضے معاف کرنے کا فیصلہ کیا جاسکا. رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 23 نومبر 2020 13:39

جی 20کا غیرواضح اعلامیہ‘ کیا عالمی سیاست بدل رہی ہے؟
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 نومبر ۔2020ء) سعودی عرب کی سربراہی میں ہونے والے جی20اجلاس کے اعلامیہ کے مقاصداگرچہ واضح نہیں تاہم کورونا وائرس سے عالمی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات اور تدارک کے لیے اقدامات‘ماحولیاتی تبدیلیاں اور دیگر امور زیر بحث رہے وہیںڈونلڈ ٹرمپ کی عالمی سپرپاور کے صدر کی حیثیت سے شمولیت اور ان کے رویئے پر سوالا ت اٹھائے جارہے ہیں ویڈیولنک کے ذریعے جی20اجلاس میں شرکت کے دوران امریکی صدر اپنے موبائل پر مصروف رہے .

(جاری ہے)

ریاض میں ہونے والا جی 20 کا 15واں سربراہی اجلاس کورونا وائرس کی وجہ سے غیرروایتی اندازمیں ہوا اور جی 20ممالک کے سربراہان نے ورچوئل اجلاس میںویڈیولنک کے ذریعے شرکت کی صدر ٹرمپ تکنیکی طور پر اس سال کے اجلاس کا حصہ تھے لیکن وہ اس میں نیم دلانہ انداز میں شریک ہوئے وائٹ ہاﺅس کے ”سچوئیشن روم“ میں اپنے میز کے پیچھے بیٹھے ان کی تصویر دنیا کے راہنماﺅں کو ریاض کے کمانڈ سینٹر کے ذریعے نظر آ رہی تھی امریکی صدر جن کی مدت 20 جنوری کو ختم ہو رہی ہے ان کی توجہ کہیں اور تھی ان کے چہرے پر بیزاری نمایاں طور پر نظرآرہی تھی.

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق اجلاس شروع ہونے کے 13 منٹ بعد وہ امریکی الیکشن کے نتائج کے بارے میں ٹویٹ کر رہے تھے جو وہ ابھی بھی لڑ رہے ہیں اگر اجلاس ختم ہونے کے کچھ ہی دیر بعد وہ گالف کھیلنے چلے گئے تو کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے ایک ایسے شخص کے لیے ڈیجیٹل اجلاس کیا اہمیت رکھتا ہے جو دوسرے راہنماﺅں کے ساتھ ذاتی طور پر لین دین کے معاہدے کرتا ہو جیسا کہ انہوں نے 2018 میں جی 20 کے دوران کیا جب ٹرمپ اور چینی صدر شی جنگ پنگ نے ایک دوسرے پر وہ ٹیرف ملتوی کرنے پر اتفاق کیا جن کی وہ دھمکی دے رہے تھے.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 2017 سے عالمی اداروں کو پہنچائے جانے والے نقصان کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی راہ میں مشکلات کھڑی کرنے کی کوششیں ہوں یا عالمی ادارہ صحت کی فنڈنگ واپس لیا جانا یا پھر معاہدہ پیرس سے امریکہ کا انخلا ٹرمپ متنازعہ اقدامات کرتے آئے ہیں امریکی ادارے نے صدر ٹرمپ کو خودپسند قراردیتے ہوئے کہا کہ وہ ”توجہ“حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں وہ اپنے اتحادیوں کو نیٹو کے حوالے سے دھمکی دینے سے بھی نہیں چوکتے ان کے حالیہ اقدام میں اوپن اسکائیز ٹریٹی سے علیحدہ ہونے کا اعلان ہے18سال پہلے34ممالک کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت مختلف ممالک ایک دوسرے کی افواج کا مشاہدہ کر سکتے تھے اس معاہدے کے بانی ممالک میں شامل ہونے کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے معاہدے انخلا کا باضابطہ اعلان کردیا ہے امریکی حکومت نے روس پر الزام لگایا کہ وہ معاہدے کی شرائط پر عمل نہیں کر رہا جس کے باعث علیحدگی کا فیصلہ کیا گیا.

صرف جی 20 ایسا عالمی فورم ہے جو ٹرمپ کی اس عالمی اداروں کی تباہی کی لہر سے نسبتا کم متاثر رہا ہے اس کے باوجود یہ کثیرالملکی فورم ٹرمپ کی صدارت کے دوران صحیح سے چل نہیں پایا ٹرمپ نے جی 20 کے ماضی میں جاری کیے جانے والے اعلامیے میں استعمال کی جانے والی معمول کی زبان استعمال کرنے سے انکار کیا جو انفرادی فائدے کو ٹھکراتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی پر بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیتی تھی ٹرمپ نے ان کو مزید کھوکھلا کر دیا رواں سال ہی وائٹ ہاﺅس نے عملی طور پر اس اعلامیے کو اس وقت پھاڑ ڈالا تھا جب اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی.

رواں سال مارچ میںسعودی عرب کی قیادت میں جی 20 کے ہنگامی اجلاس کا مقصد اس وقت اعلان کی گئی کورونا کی وبا کے رد عمل پر غور کرنا تھا اور اس میں عالمی ادارہ صحت کے اختیار کو مضبوط بنانے کی بات کی گئی اس سے اگلے مہینے ٹرمپ نے اعلان کر دیا کہ وہ ڈبلیوایچ او کو دی جانے والی امریکی امداد بند کر رہے ہیںایسے رویے نے جی20 کی ساکھ پرسوال اٹھا دیے یہ بھی سوال ہے کہ کیا صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاﺅس سے رخصتی اس آگ کو بجھا سکے گی؟ امریکی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں صدر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ”ایسے شخص کے لیے ویڈیو سکرین کیا اہمیت رکھتی ہے جو عالمی راہنماﺅں سے بھرے کمرے میں ساری توجہ اپنے لیے چاہتا ہے“ اس کانفرنس میں ٹرمپ کی ماحول پر ریکارڈ شدہ تقریر ان کی انتظامیہ کی ایک کوشش تھی جو پیرس معاہدے سے ان کے انخلا کے دفاع پر مبنی تھی بجائے اس کے وہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کوئی تعمیری بات کرتے ریاض سمٹ کے حتمی اعلامیہ کے بارے میں یہ کہنا جائز ہو گا کہ اس کے مقاصد واضح نہیں ہیں.

یورپی کمیشن کی درخواستوں کے باوجود ایک ایسے فنڈ کا قیام یقینی نہیں بنایا گیا جو کورونا وائرس کی کسی ممکنہ ویکسین کی منصفانہ عالمی تقسیم میں مدد دے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ بینک کے مطالبوں کے باوجود ترقی پذیر ممالک کے قرضے معاف کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا جی 20 ارکان نے ا ن معاملات پر 2021 میں غور کرنے پر اتفاق کیا ہے اس معاملے میں بات کرنے اور نجی قرض دہندگان کو اس بات پر راضی کرنے کی ذمہ داری اٹلی کو سونپ دی گئی ہے جو سعودی عرب کے بعد اگلے سال کے لیے صدارت سنبھالے گا.

موسمیاتی تبدیلی اور تجارت کے معاملے میں بھی رکاوٹیں ہیں جو بلا شبہ وائٹ ہاﺅس کے کردار کو ظاہر کرتی ہیں جی 20کے رکن ممالک جانتے ہیں کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن نے امریکہ کی معاہدہ پیرس میں واپسی، عالمی ادارہ صحت میں امریکی رکنیت، اور ڈبلیو ٹی او فریم ورک میں تعمیری کردار ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے. باراک اوباما کے نائب صدر کے طور پر اپنے دور میں آنے والے معاشی بحران کے بعد بائیڈن خاص طور پر ایک عالمی بحران کے دوران جی 20 جیسی تنظیم کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں جی 20 کی میز پر سخت گیر حکمرانوں کی طویل فہرست ہے جن میں برازیل کے بولسونارو، ترکی کے اردگان اورروس کے پوٹن سمیت چین کے شی شامل ہیں لیکن ٹرمپ کے بغیر ان حکمرانوں کے اکٹھ کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی اور تجارت پر ہونے والے کسی تعاون کی راہ میں رکاوٹ حائل کرنے کے امکانات کم ہوں گے صدر پوٹن کے علاوہ باقی تمام ہی بائیڈن کو ان کی فتح پر مبارک باد دے چکے ہیںجی 20 کے طویل المدتی مستقبل کو ایسے ہی نہیں چھوڑا جا سکتا لیکن یہ ٹرمپ کے طوفان سے نکل آیا ہے گذشتہ تین سال کے بعد جی 20کی یہ ایک کامیابی ہی شمار ہو گی.