متحدہ عرب امارات کی پاکستانی شہریوں پر سفری پابندیاں انتظامی سے زیادہ سیاسی

اگر پابندیاں کورونا کی دوسری لہر کے خدشے کے پیش نظر عائد کی گئی ہے تو فہرست میں وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ امریکا ‘بھارت‘برازیل اور مغربی ممالک کے نام کیوں شامل نہیں؟ ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 24 نومبر 2020 11:57

متحدہ عرب امارات کی پاکستانی شہریوں پر سفری پابندیاں انتظامی سے زیادہ ..
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 نومبر ۔2020ء) عالمی وسفارتی امور کے ماہرین متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کے شہریوں پر سیاحتی ویزہ اور ورک پرمٹ کے اجرا پر پابندی کو انتظامی سے زیادہ سیاسی قراردے رہے ہیں . اگرچہ اسلام آباد میں امارات کے سفارت خانے نے کہا ہے کہ یہ پابندی کورونا کی دوسری لہر کے پیش نظر عائد کی گئی ہے مگر بھارت جوکہ دنیا میں کورونا وائرس سے متاثرہ دوسرا بڑا ملک ہے اس کے شہریوں کے لیے لیے ویزے اور ورک پرمٹ کی سہولت برقراررہے گی.

(جاری ہے)

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ پابندی کورونا وائرس کی دوسری لہر کے خدشے کے پیش نظر عائد کی گئی ہے تو اس میں دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کو شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ متحدہ عرب امارات کی جانب سے غیر معینہ مدت تک سفری پابندیوں کی زدمیں آنے والے بیشترممالک وہ ہیں جو اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے حوالے سے سعودی عرب اور امارات کے کردار کے ناقد رہے ہیں.

سفارتی و سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ویزا پابندیاں اسلام آباد اور یو اے ای کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کا شاخسانہ ہیں پابندی کی زد میں آنے والے ممالک افغانستان، عراق، شام، لبنان، لیبیا، کینیا، ایران، ترکی، یمن، تنزانیہ، صومالیہ اور پاکستان شامل ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹے ممالک کا نام فہرست کو ”بیلنس“کرنے کے لیے ڈالا گیا ہے یو اے ای حکومت کا اصل نشانہ ترکی اور پاکستان ہیں اس فہرست میں بھارت شامل نہیں جو کہ 90 لاکھ مریضوں کے ساتھ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا سمیت مغربی ممالک کی آن ارائیول (موقع پر ویزہ) اجرا کی سہولت بھی برقرار ہے.

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان کی خلیجی ریاستوں سے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں ہے جو کہ 2018 میں وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے قیام کے وقت دیکھنے میں آئی تھی دو طرفہ تعلقات میں تناﺅاس وقت پیدا ہوا جب وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ سال ملائیشیا میں ہونے والی”کوالالمپور اسلامک سمٹ“میں شرکت کی حامی بھری تاہم سعودی عرب کے براہِ راست تحفظات کے بعد پاکستانی وزیر اعظم اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے تھے.

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے کردار پر تحفظات کا اظہار کیا تو پہلے سے سرد مہری کے شکار تعلقات میں مزید تناﺅ دکھائی دینے لگا یو اے ای کو سعودی عرب کے اہم اتحادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور امارات کے کسی سفارتی اقدام کو ریاض کی ناراضگی یا حمایت سے تشبیہ دی جاتی ہے. پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس نے امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کورونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر معاشی سرگرمیوں میں سست روی آئی ہے اور اس کے باعث اگر پاکستانی ورکرز کو خلیجی ممالک میں کچھ مشکلات درپیش آتی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ باہمی تعلقات میں تناﺅ ہے جلیل عباس نے کہا کہ یو اے ای کی ویزہ پابندیوں کا اخبارات کی حد تک علم ہے تاہم دونوں ممالک کے تعلقات بہت گہری نوعیت کے ہیں.

جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اہم ہے جو کہ سیاسی و دفاعی معاہدوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر مشترکہ سفارت کاری کی حد تک ہیں. دوسری جانب تجزیہ کار پروفیسرحسن عسکری کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب کی طرح عالمی سیاست یا خلیج میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے پاکستان چوں کہ ان کی پالیسیوں میں مکمل طور پر ساتھ نہیں چل رہا اس وجہ سے تنبیہ کی جا رہی ہے انہوں نے کہا کہ اگر پابندیوں کے ممالک کی فہرست کو دیکھا جائے تو زیادہ تر وہ ممالک شامل ہیں جو امارات کے خلیج میں سیاسی کردار میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ ہیں یا اس کی پالیسی کے حامی نہیں ہیں.

حسن عسکری نے کہاکہ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب اور امارات کی ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام آباد نے قطر سے اپنے تعلقات کو بہتر کیا ہے دوسری جانب سوشل میڈیا پر عام پاکستانی اس فیصلے پر شدید غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں دو روزسے جاری اس بحث میں اکثریت کا مطالبہ ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر اماراتی سفیر سے اس سلسلہ میں وضاحت طلب کی جانی چاہیے.

بعض شہری اسے امریکی وزیرخارجہ کے ایک حالیہ بیان سے جوڑ رہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”اسرائیل کا بائیکاٹ یا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کو یہود دشمنی تصور کیا جائے گا“انہوں نے ایسے ممالک کو پابندیاں عائدکرنے کی دھمکی بھی دی تھی اس تناظربعض شہریوں کو اس فیصلے کے پیچھے اسرائیلی اور بھارتی لابی کارفرما نظرآتی ہے. واضح رہے کہ سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو 6 ارب 20 کروڑ ڈالرز کا مالی پیکیج دیا تھا جس میں 3 ارب ڈالرز کی نقد امداد اور 3 ارب 20 کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی مو¿خر ادائیگیاں شامل تھیں یہ معاہدہ تین سال تک قابل توسیع تھا تاہم اگست میں سعودی عرب نے فراہم کردہ تین ارب ڈالرز میں سے ایک ارب ڈالرز کی واپسی کا تقاضہ کیا تھا جو کہ پاکستان نے چین سے حاصل کر کے ادا کیے تھے.

سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کا معاہدہ بھی معطل ہے اور گزشتہ مالی سال میں پاکستان نے صرف پونے دو ارب ڈالر کی سہولت حاصل کی معاشی مشکلات کے شکار پاکستان کو آئندہ ماہ تک سعودی عرب کو بقیہ دو ارب ڈالرز کی قرض ادائیگی کرنا ہے جبکہ آئندہ سال کے آغاز پر متحدہ عرب امارات کو بھی دو ارب ڈالرز ادا کرنے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی جانب سے پاکستان پر شدید دباﺅ آسکتا ہے اور موجودہ معاشی صورتحال میں پاکستان کے لیے 4ارب ڈالر کی ادائیگی ایک انتہائی مشکل کام ہوگا.