بلوچستان اسمبلی ،گوادر میں لوگوں کی جدی پشتی اراضیات کو سرکاری قرار دینے کے فیصلے کو واپس لینے سمیت پانچ قرار دادیں منظور

اجلاس میں تاجر رہنماء اللہ داد ترین کے قتل کے خلاف تحریک التواء بحث کے بعد نمٹا دی گئی، توجہ دلائو نوٹسز موخر

جمعہ 27 نومبر 2020 22:42

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 نومبر2020ء) بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں گوادر میں لوگوں کی جدی پشتی اراضیات کو سرکاری قرار دینے کے فیصلے کو واپس لینے،تحصیل ماشکیل کو ٹائون کا درجہ دینے، صوبے میں خواتین پولیس فورس اور تھانوں کے قیام سمیت پانچ قرار دادیں منظور کرلی گئی جبکہ اجلاس میں تاجر رہنماء اللہ داد ترین کے قتل کے خلاف تحریک التواء بحث کے بعد نمٹا دی گئی ۔

جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے 20منٹ کی تاخیر سے اسپیکر میر عبدالقدو س بزنجو کی صدارت میں شروع ہوااجلاس میں جے یوآئی کے رکن میر زابد علی ریکی نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تحصیل ماشکیل کی آبادی70ہزار سے تجاوز کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود مذکورہ تحصیل صرف ایک یونین کونسل پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے علاقے کے عوام کے مسائل میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔

(جاری ہے)

لہٰذا صوبائی حکومت تحصیل ماشکیل کی آبادی میں اضافہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ٹائون کا درجہ دینے کو یقینی بنائے تاکہ وہاں کے عوام کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔انہوںنے کہا کہ واشک کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے مگر تاحال اسے ٹائون کا درجہ نہیں ملا بلکہ یہ محض ایک یونین کونسل ہے ماشکیل کو ٹائون کا درجہ دیا جائے تاکہ وہاں کے عوام کے مسائل حل ہوسکیں ۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ موجودہ حکومت یونین کونسل کو بااختیار بنارہی ہے اور ان کے فنڈز میں اضافہ کیا جارہا ہے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں اور انہیں بنیادی سہولیات میسر آئیں انہوںنے کہا کہ صوبائی کابینہ میں بھی اس حوالے سے مختلف امور کا جائزہ لیاگیا ہے بلدیاتی اداروں کو مستحکم اور خودمختار بنائیں گے تاکہ انہیں حکومت کی جانب نہ دیکھنا پڑے ۔

وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلدیاتی اداروں کو مستحکم بنائے گی گزشتہ دور میں بلوچستان پہلا صوبہ تھا جس نے حلقہ بندی کے بعد سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرائے انہوںنے کہا کہ وزیر ریونیو سلیم کھوسہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو نئے اضلاع کے امور کا جائزہ لے رہی ہے بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔

بی این پی کے ٹائٹس جانسن نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ لینڈ مافیا کی جانب سے مختلف ادوار میں اقلیتی برادری کی اراضیات جن میں گوردوارے ، مندر ، چرچز اور قبرستان شامل ہیں پر قبضہ کی اجاتا رہا ہے جو تاحال واگزار نہیں کرائی جاسکیں جس کی وجہ سے اقلیتی برادری میں احساس محرومی اور بے چینی پائی جاتی ہے صوبائی حکومت لینڈ مافیا کی جانب سے اقلیتی برادری کی قبضہ کی جانے والی اراضیات ، گوردوارے ، مندر ، چرچز اور قبرستانوں کے واگزار کرانے کو یقینی بنائے ۔

انہوںنے کہا کہ اقلیتی برادری کی زمینوں پر قبضے کئے جارہے ہیں حکومت متبادل اراضی فراہم کرے ۔دنیش کمار نے کہا کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اقلیتی برادری کے لئے مختص اراضیوں پر قبضے ہورہے ہیں گزشتہ روز بروری میں مسیحی برادری کی قبرستان کے لئے مختص اراضی پر لینڈ مافیا نے قبضہ کیا تھا جسے میں نے خود جا کر واگزار کیا انہوںنے وقف املاک بورڈ کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے نقل مکانی کرنے والے اقلیتی برادری کی املاک کو انہوںنے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے جبکہ اب کافی تعداد میں اقلیتی برادری کے لوگ واپس آئے ہیں انہیں اراضیات واپس نہیں کی جارہیں مسجد روڈ پر جو دکانیں ہیں انہیں کرائے پر دیا گیا ہے مگر ان سے حاصل ہونے والی آمدن کو اقلیتی برادری کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ نہیں کیا جارہا ہم سپریم کورٹ میں گئے ہیں امید ہے کہ سپریم کورٹ حق کا ساتھ دے گی ۔

مکھی شام لعل نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اقلیتی برادری کو درپیش مسائل ومشکلات کا ازالہ کرے بعد ازاں ایوان نے قرار داد منظور کرلی ۔مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ ضلع کوئٹہ کے مضافاتی علاقے جن میں دشت ، سپین کاریز اور ہنہ اوڑک وغیرہ شامل ہیں کے روڈز پر نوجوانوں کی جانب سے چھٹی کے دن موٹرسائیکلوں پر ون ویلنگ کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں اب تک کئی نوجوانوں کی جانیں ضائع اور متعدد زخمی و معذو رہوچکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس کی روک تھام کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے صوبائی حکومت دشت ، سپین کاریز اور ہنہ اوڑک وغیرہ میں نوجوانوں کی جانب سے موٹرسائیکلوں پر کی جانے والی ون ویلنگ کی روک تھام کے حوالے سے فوری طو رپر عملی اقدامات اٹھائے تاکہ مستقبل میں نوجوانوں کی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے ۔

قرار داد کی موزونیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ شہر میں بڑی تعداد میں نوجوان موٹر سائیکل کی ون ویلنگ کے باعث اپنے خاندانوں کے لئے بڑے بڑے سانحات چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے ہیں اور بڑی تعداد میں ایسے نوجوان ہیںجو معذوری کا شکار ہوچکے ہیں خاص طو ر پر ہر جمعے کی شام کو کوئٹہ کے مضافاتی علاقوں میں ہر طرف موٹر سائیکل سوار نوجوان نظر آتے ہیں اور کوئی ایسا جمعہ نہیں گزرتا جب کوئی بہت بڑا حادثہ رونما نہ ہو حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے واقعات جن کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے کی روک تھام کے لئے اقدامات کرے اگر حکومت اس سلسلے میں قانون سازی کرتی ہے تو اپوزیشن تعاون کے لئے تیار ہے عوام کی نظریں اس ایوان پر لگی ہوئی ہیں کہ کب ان کے منتخب نمائندے ایسے حادثات کی روک تھام کے لئے قانون سازی کرتے ہیں صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بڑی اہمیت کی حامل قرار داد ہے ہر تعطیل والے دن موٹر سائیکل سوار نوجوان ون ویلنگ کرتے ہیں بڑی تعداد میں نوجوان اپنے ہاتھوں سے اپنی جانیں گنوانے کے ساتھ ساتھ معذور بھی ہوتے ہیں حکومت اس سلسلے کو روکنے کے لئے اقدامات کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے تعاون سے جلد قانون سازی بھی کرے گی ۔

ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔شکیلہ نوید قاضی نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دیگر صوبوں میں خواتین پولیس فورس اور تھانوں کا قیام عمل میں لایاگیا ہے جبکہ بلوچستان جو ایک قبائلی معاشرہ پر مشتمل صوبہ ہے میں تاحال خواتین پولیس فورس اور تھانوں کا قیا م عمل میں نہیں لایاگیا ہے جس کی وجہ سے صوبے کے عوام بالخصوص خواتین میں شدید تشویش اور بے چینی پائی جاتی ہے قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ صوبے میں خواتین پولیس فورس اور تھانوں کے قیام کو یقینی بنائے تاکہ صوبے کے عوام بالخصوص خواتین میں پائی جانے والی شدید تشویش اور بے چینی کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔

قرار داد کی موزونیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں خواتین پولیس سٹیشن اور خواتین پولیس فورس نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کوئٹہ میں چند ایک مقامات پر خواتین پولیس افسران اگرچہ ہیں مگر اندرون صوبہ کہیں بھی ایسی سہولت نہیں اب جبکہ ہم خواتین کے حقوق کے حوالے سے 16دن منارہے ہیں اب بھی بڑی تعداد میں ہماری خواتین غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور بڑی تعداد میں ایسے واقعات صرف اس لئے رپورٹ نہیں ہوتے کہ اندرون صوبہ خواتین پولیس سٹیشن اور خواتین پولیس فورس کا نہ ہونا ہے اور خواتین اپنے مسائل کے حوالے سے پولیس سٹیشنوں سے مرد پولیس افسران کے سامنے جانے سے کتراتی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طو رپر اس حوالے سے اقدامات کئے جائیں ۔

ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔بی این پی کے میر حمل کلمتی نے ایوان میں مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ بالخصوص ضلع گوادر کے لوگوں کی جدی پشتی اراضیات کو حکومت کی جانب سے سرکاری قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے وہاں کے مقامی لوگوں میں شدید بے چینی اور اضطراب پایا جات اہے ۔ لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ عوام کے عظیم تر مفاد میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے پورے صوبے بالخصوص ضلع گوادر کے لوگوں کی جدی پشتی اراضیات کو سرکاری قرار دینے کے اپنے فیصلے کو واپس لے تاکہ صوبہ بالخصوص ضلع گوادر کے لوگوں میں پائی جانے والی شدید بے چینی اور اضطراب کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے حمل کلمتی نے کہا کہ گوادر میں لوگوں کی زمینوں کو سرکار کی ملکیت ظاہر کیا جارہا ہے وہاں سرکار کی ایک انچ بھی زمین نہیں ہے یہ تمام زمینیں وہاں کے مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں ہم کسی صورت اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوںگے انہوںنے گوادر کے مختلف علاقوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے مقامی لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کیاجارہا ہے ماہی گیر، زمیندار ، کاروباری طبقہ احتجاج پر ہے انہوں نے مختلف سرکاری محکموں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان محکموں کو ہزاروں ایکڑ زمینیں الاٹ کی گئی ہیں جوزمین فری زون کے لئے ایکوائر کی گئی ہے وہاں سے مقامی آبادی کو لینڈ ایکوزیشن کے تحت منتقل کرکے انتہائی قلیل معاوضے دیئے گئے ہیں جبکہ34ایسے افراد ہیں جنہیں اب تک معاوضوں کی ادائیگی نہیں ہوئی انہوںنے کہا کہ ماہی گیروں کا گزربسر سمندری سے ہے انہیں چھ کلو میٹر دور جا کر صبح اپنی شناخت کرانی پڑتی ہے شام کو واپسی پر انہیں پھر اسی مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے ماہی گیری کے عمل میں بھی رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں یہ سلسلہ ختم کیا جائے انہوںنے کہا کہ گوادر کی ترقی کے لئے لوگوں نے اپنی ملکیت کی قربانی دی ہے انہوںنے گوادر ماسٹر پلان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہا کہ گوادر کے لوگوں کے مسائل پر توجہ دی جائے سی پیک کی اہمیت گوادر کی بدولت ہے سی پیک کی کامیابی اور مضبوطی کے لئے بھی گوادر کے مسائل کا حل ضروری ہے ۔

قائد حزب اختلاف ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ1978ء سی2000ء تک جو زمینیں سرکار کی ہیں وہ سرکار کی ملکیت ہیں اور جو مقامی قبائل کی ہیں وہ وہاں کے لوگوں کی ملکیت ہیںانہوںنے کہا کہ2002ء سے سیٹلمنٹ کا مسئلہ شروع ہوا ہے انہوںنے کہا کہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے صوبائی وزیر سلیم کھوسہ نے کہا کہ گوادرکی اراضیوں سے متعلق معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور فل کورٹ بینچ بھی اس حوالے سے سماعت کررہا ہے دو رکنی بینچ نے آکڑہ سے متعلق اپنا فیصلہ دیا ہے جس کے تحت عدالت نے ہدایت کی ہے کہ تاحکم ثانی وہاں کوئی الاٹمنٹ نہ کی جائے عدالت کا فیصلہ من و عن قبول ہوگا بلوچستان حکومت اراضیات کی سیٹلمنٹ کے لئے سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات اٹھارہی ہے کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی کے ساتھ ناانصافی ہوگی ہمارا مقصد سیٹلمنٹ کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے انہوںنے کہا کہ ہم لوگوں کے ملکیت کا احترام کرتے ہیں گوادر میں اراضیوں سے متعلق بہت سے کیسز نیب میں بھی چل رہے ہیں محکمہ ریونیو کا عملہ بھی بے قاعدگیوں میں شامل رہا ہے انہوںنے کہا کہ ہمارا مقصد گوادر ، ملک اور بلوچستان کو ڈویلپ کرنا اور لوگوں کو ترقی دینا ہے بعدازاں ایوان نے قرار داد منظور کرلی ۔

گزشتہ اجلاس میں باضابطہ شدہ تحریک التوا پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ حاجی اللہ داد ترین نہ صرف ایک فعال سیاسی کارکن بلکہ تاجروں کے انتہائی قابل احترام رہنماء تھے ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہ تھی وہ اکثر کوئٹہ میں رہتے نو نومبر کو ایک فاتحہ خوانی کے سلسلے میں اپنے گائوں پشین گئے نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد کلی کی مسجد سے جونہی باہر نکلے انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا مسجد چونکہ ان کے گھر کے قریب واقع تھی فائرنگ کی آواز سن کر جہاں دوسرے لوگ وہاں پہنچے وہاں ان کی بوڑھی ماں بھی پہنچی اور انہوںنے اپنے بیٹے کی لاش اٹھائی جنہیں انتہائی بے دردی سے نشانہ بنایاگیا تھا انہوںنے کہا کہ ہمیں عوام نے یہا ں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے ووٹ دے کر بھیجا ہے اور یہ صوبے کا سب سے بااختیار ایوان ہے مگر آج جب یہاں امن وامان کی صورتحال پر بحث ہورہی ہے تو سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس سمیت متعلقہ حکام میں سے کوئی یہاں نہیں نہ ہی وزیر داخلہ موجود ہیں یہ اس صوبے کے سب سے بڑے ایوان کی بے توقیری اور اس کا استحقاق مجروح کرنے کے مترادف ہے انہوںنے کہا کہ صوبے میں سیاسی لوگوں کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو آگے لایاجارہا ہے جو سرعام مسلح جتھوں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں حاجی اللہ داد ترین کی شہادت کو کئی روز گزرنے کے باوجود حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں مختصر عرصے میں بہت بڑی تعداد میں بے گناہ لوگوں کو شہید کیاگیا مگر آج تک کسی کے قاتل قانون کے کٹہرے میں نہیں لائے گئے اے این پی کے صوبائی سیکرٹری اسدخان اچکزئی دو ماہ سے لاپتہ ہیں مگر ہر طرف خاموشی ہے پورا صوبہ عدم تحفظ کا شکار ہے انہوںنے مطالبہ کیا کہ حاجی اللہ داد ترین کے قاتلوں کوفوری طو رپر گرفتارکیا جائے قاتلوں کی گرفتاری تک ہم آواز بلند کرتے رہیں گے ۔

بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ حاجی اللہ داد ترین ایک پرامن شہری تھے اور ہمیشہ وہ تاجروں کے مسائل کے حل کے لئے پیش پیش رہتے تھے انہوںنے کہا کہ اے این پی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات اسد اچکزئی کو اغواء کیاگیا ہے اور تاحال وہ لاپتہ ہیں دیگر صوبوں میں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو وہاں امن وامان کے ذمہ دار ادارے حرکت میں آکر ملزمان کا کھوج لگاکر امن بحال کرتے ہیں مگر بلوچستان میںآ ئے روز اس طرح کے واقعات میں اضافے کے باوجود کسی ملزم کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لا کر کھڑا نہیں کیاگیا ۔

انہوںنے کہا کہ صوبے میں امن وامان پر چالیس ارب روپے کے قریب رقم خرچ ہورہی ہے ہر گلی کوچے کے پاس کوئی نہ کوئی اہلکار تعینات دکھائی دیتا ہے وی آئی پی موومنٹ بھی ہوتی ہے تاہم اس کے باوجود ایسے واقعات کا رونما ہونا لمحہ فکریہ ہے انہوںنے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کے تدارک کے لئے اقدامات اٹھاتے ہوئے حاجی اللہ داد ترین کے قاتلوں کو گرفتار کرے اور انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے احمد نواز بلوچ نے تحریک التواء کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حاجی اللہ داد ترین کے قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے انہوںنے کہا کہ گزشتہ دنوں کچھی میں نصراللہ نامی شخص کو ایک ایسے شخص نے قتل کیا جنہیں نصراللہ نے چوری کے الزام میں گرفتار کرایا تھا اور وہ ثابت بھی ہوا تھا رہائی پر مذکورہ شخص نے نصراللہ کو اس کے کھیتوں میں قتل کردیا انہوںنے مطالبہ کیا کہ ان کے قاتلوں کو بھی فوری گرفتار کیا جائے ۔

جمعیت علماء اسلام کے زابد علی ریکی نے تحریک التواء کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حاجی اللہ داد ترین کے قاتل گرفتار کئے جائیں انہوںنے تحریک التواء پر بحث کے دوران متعلقہ حکام کی عدم موجودگی پر افسوس کا اظہار کیا ۔ جے یوآئی کے مکھی شام لال نے بھی واقعے کی مذمت اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ۔ صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ حاجی اللہ داد ترین کا قتل ایک دلخراش واقعہ ہے ادارے اپنا کام کررہے ہیں جلد ہی قاتلوں کو گرفتار کرلیا جائے گا انہوںنے کہا کہ ماضی کی نسبت امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے ہمیں حکومت اور اداروں پر اعتماد رکھنا چاہئے ۔

بعدازاں سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے تحریک التواء نمٹانے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ حاجی اللہ داد ترین کا قتل دلخراش واقعہ اور بہت بڑا نقصان ہے جس کی یہ پورا ایوان مذمت کرتا ہے انہوںنے رولنگ دی کہ آئندہ تحاریک التواء ، قرار دادوں اور مختلف محکموں سے متعلق سوالات کے موقع پر متعلقہ حکام اسمبلی میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں۔اجلاس میں سبزی منڈی کی الاٹ منٹ ،ڈیری فارمز کی کوئٹہ شہر سے باہر منتقلی ،محکمہ تعلیم کے 9سو استاتذہ کی مستقلی، ممتاز جیولر محمد اسماعیل کاکڑ کے قاتلوں کی گرفتاری سے متعلق علیحدہ علیحدہ توجہ دلائو نوٹسز پیش ڈیفر کردئیے گئے اور اسمبلی کا اجلاس 30نومبر سہ پہر چار بجے تک ملتوی کردیا گیا