گزشتہ کئی سالوں سے ایگری بزنس انڈسٹری میں تحقیقی پیش رفت کے نتیجے میں کوئی انقلاب آفرین کامیابی سامنے نہیں آ سکی: زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں

ملک میں غذائی اجناس کی ہمیشہ دستیابی رہی ہے اور پاکستان خوردنی تیل کے علاوہ چائے اور سویابین وغیرہ درآمد کرتا رہا ہے مگر زرعی شعبے کی زبوں حالی کے نتیجے میں اب گندم اور چینی بھی ملکی ضروریات کے لئے درآمد کرنا پڑ رہی ہے

پیر 30 نومبر 2020 17:05

گزشتہ کئی سالوں سے ایگری بزنس انڈسٹری میں تحقیقی پیش رفت کے نتیجے میں ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 30 نومبر2020ء) زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ایگری بزنس انڈسٹری میں تحقیقی پیش رفت کے نتیجے میں کوئی انقلاب آفرین کامیابی سامنے نہیں آ سکی جس کی وجہ سے زرعی پیداواریت کے ساتھ ساتھ ویلیو ایڈیشن میں بھی مستقل جمود طاری ہے جس سے عہدہ برآء ہونے کے لئے زرعی تحقیق و ترقی سے وابستہ سائنسدانوں کو کمیشن ریسرچ پر توجہ دینا ہو گی تاکہ ملک میں زرعی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکے۔

ان باتوں کا اظہار انہوں نے یونیورسٹی کے گریجوایٹ سٹڈی ریسرچ بورڈ کے اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں غذائی اجناس کی ہمیشہ دستیابی رہی ہے اور پاکستان خوردنی تیل کے علاوہ چائے اور سویابین وغیرہ درآمد کرتا رہا ہے مگر زرعی شعبے کی زبوں حالی کے نتیجے میں اب گندم اور چینی بھی ملکی ضروریات کے لئے درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 20سال قبل زرعی یونیورسٹی کی ایک ریسرچ ٹیم نے ان کی سربراہی میں آم کے نئے جرم پلازم اور ورائٹی ڈویلپمنٹ پر کام کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد ایسی نئی اقسام دریافت کرنا تھا جو مختلف مہینوں میں پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ کمیشن ریسرچ بالاخر آم کی 10نئی ورائٹیوں کی دریافت کے کامیاب عمل پر اختتام پذیر ہوئی اور آج ہم فخریہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں چونسہ اور سندھڑی کے علاوہ دیگر کئی اقسام ملکی اور غیرملکی ضروریات کے لئے دستیاب ہوں گی۔

ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ آموں کے مرکز ملتان اور گردونواح میں رہائشی آبادیوں میں پھیلاؤ کی صورت میں لاکھوں آم کے درختوں کا قتل عام جاری ہے جس سے متعدد ورائٹیز معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی گریجوایٹ پروگراموں میں داخلے کے لئے اپنی نئی پالیسی بہت جلد متعارف کرائے گی جس کے تحت ایم ایس سی، ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلوں کے لئے انٹری ٹیسٹ ہر مضمون میں الگ الگ لینے کی بجائے پانچ چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جس کے بعد حاصل کردہ نمبروں کو 65فیصد جبکہ طلباء کی سی جی پی اے کو 35فیصد اہمیت دی جائے گی۔

ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ سی پیک بے پناہ امکانات کا حامل روڈاینڈبیلٹ منصوبہ ہے جس میں پاکستانی زرعی شعبے کے لئے بہت زیادہ فوائد موجود ہیں جسے زرعی علوم کی دانش گاہوں کے ذریعے حاصل کرنے کے حوالے سے ٹاسک فورس تشکیل دینا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ چین میں اس وقت 28ہزار پاکستانی پی ایچ ڈی سکالرز تعلیم و تحقیق میں مصروف ہیں جبکہ ہر سال 25سو پی ایچ ڈی سکالرشپ نئے سکالرز کو دیئے جا رہے ہیں۔

انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔ جی ایس آر بی میں یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر آصف تنویر، تمام ڈینز کلیہ جات، ڈائریکٹر گریجوایٹ سٹڈیز ڈاکٹر اعجاز وڑائچ کے علاوہ رجسٹرار عمرسعید قادری نے بھی شرکت کی۔