کلبھوشن یادیوکیس : عدالت چاہتی ہے کہ عالمی عدالت کے تناظر میں منصفانہ ٹرائل کے تقاضے پورے ہوں.اسلام آباد ہائی کورٹ

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہر صورت عمل ہوگا.عدالت ‘ بھارتی ہائی کمیشن کہتا ہے کہ جب ہم تیار تھے اس وقت ہمیں متعلق دستاویزات نہیں دی گئیں.وکیل

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 1 دسمبر 2020 16:28

کلبھوشن یادیوکیس : عدالت چاہتی ہے کہ عالمی عدالت کے تناظر میں منصفانہ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم دسمبر ۔2020ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت چاہتی ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے تناظر میں منصفانہ ٹرائل کے تقاضے پورے ہوں اور اس کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہر صورت عمل ہوگا.

(جاری ہے)

وفاقی دارالحکومت میں عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست پر سماعت کی سماعت کے دوران وزارت قانون و انصاف کی جانب سے اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ بھارتی ہائی کمیشن کے وکیل بیرسٹر شاہ نواز نون بھی اس دوران موجود تھے.

اس موقع پر چیف جسٹس نے بھارتی ہائی کمیشن کے وکیل سے پوچھا کہ کلبھوشن کیس میں بھارت کا کیا موقف ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ نئی دہلی میں کلبھوشن کیس میں وکیل مقرر کرنے کے حوالے سے اجلاس جاری ہے وکیل نے کہا کہ بھارتی ہائی کمیشن کہتا ہے کہ جب ہم تیار تھے اس وقت ہمیں متعلق دستاویزات نہیں دی گئیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت چاہتی ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے تناظر میں منصفانہ ٹرائل کے تقاضے پورے ہوں.

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ کلبھوشن کیس میں منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائیں، کلبھوشن کیس میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہر صورت عمل ہوگا سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان، بھارت کو کلبھوشن یادیو تک تیسری قونصلر رسائی دینے کے لیے تیار ہے، پاکستان بار بار تیسری قونصلر رسائی کی پیش کش کر چکا ہے، جس پر ہائی کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ بھارت کو اس متعلق کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے 3ہفتے کا وقت دیا جائے.

اس موقع پر ایک بھارتی قیدی محمد اسماعیل کی بھارت واپسی کی درخواست کا معاملہ بھی آیا، جس پر ہائی کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ بھارتی وزارت خارجہ بھارتی شہری محمد اسمٰعیل کی رہائی چاہتی ہے اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر سزا مکمل ہو گئی ہے تو پھر قیدی کو رہا ہونا چاہیے، اس پر وکیل نے کہا کہ یہ تو مثبت پیش رفت ہے، تاہم اس دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ابھی اس معاملے کو مزید دیکھنا ہے انہوں نے کہا کہ آئندہ سماعت پرعدالت کو اس سے متعلق واضح طور پر بتایا جائے گا.

سماعت کے دوران بھارتی ہائی کمیشن کے وکیل نے کہا کہ بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گورو عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ وہ عدالت کے سامنے کیوں پیش ہونا چاہتے ہیں؟اس پر وکیل نے جواب دیا کہ ڈپٹی ہائی کمشنر عدالت میں پیش ہو کر وکیل کی خدمات لینے سے متعلق عدالت کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کے وکیل کے بغیر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی مخالفت کی.

انہوں نے کہا کہ بھارت پہلے وکیل مقرر کرے پھر وکیل عدالت کے سامنے پیش ہو کر کسی آفیشل کے پیش ہونے کی استدعا کرسکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد ضروری ہے اس پر جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کے کہا کہ عدالت کو آئندہ سماعت پر بھارت وکیل کی خدمات لینا چاہتا ہے یا نہیں اس بارے میں آگاہ کیا جائے بعد ازاں مذکورہ معاملے پر سماعت کو 14 جنوری تک ملتوی کردیا یاد رہے کہ’ ’را“ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا.

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں’ ’را“ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ”را“ کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا.